کتنے نمبر ہیں بچے کے؟


کبھی یہ وقت تھا کہ لوگ بحیثیت والدین یہ چاہتے تھے کہ ان کی اولاد کی تعلیم و تربیت اس ڈھنگ سے ہو کہ وہ عمدہ انسان بن سکیں۔ پیشے کے چناؤ کی اپنی اہمیت ہوتی ہے مگر جو انسان اسے منتخب کرتا ہے، اس میں معقول انسانی اوصاف کا ہونا بھی ضروری ہے۔ پیشہ وارانہ اخلاقیات کا فقدان بھی دراصل اس تربیتی کمی کی بدولت ہے، جس کا اندازہ ہمیں صحیح وقت پہ نہیں ہوتا۔ معاشرے کو ہم ایک خاص تنقیدی چھاننی سے گزارتے ہیں مگر دیکھنا یہ بھی چاہیے کہ ہماری بحیثیت شہری ”ان پٹ“ کیا ہے۔

ہمارے معاشرتی ادارے جو بنیادی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہیں، وہ کیسے افراد پیدا کر رہے ہیں۔ گھر جو ابتدائی مرکز ہے وہاں بچے کے ذہن میں ایسے معیارات کو فروغ دیا جاتا ہے کہ اس نے سب سے اعلی بننا ہے، یعنی شروع سے ہی عہدے کے حصول کی سوچ اجاگر کی جاتی ہے۔ پھر ماحول بھی جدا گانہ دینے کی کوشش ہوتی ہے، گلی محلے میں اپنے سے کمزور طبقے سے گھلنے ملنے نہیں دیا جاتا۔ ایک خاص طرح کی حقارت معصوم بچوں کی تربیت کا حصہ بنائی جاتی ہے۔

حالانکہ بچپن میں طبقاتی فرق بچے کے لیے قبول کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ وہ ان تمام محرکات سے آگاہ ہی نہیں ہوتا جو ایسی تربیت کی وجہ بنتے ہیں۔ اس طرح اوائل عمر میں ہی بچے کے شخصی اوصاف معتدل نہیں ہوتے بلکہ وہ مادیت پرستی اور خود غرضی پہ مبنی بننے لگتے ہیں۔ ہمیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ جس سماج کی اخلاقیات پہ ہم نوحہ کناں ہیں اس کی پنیری کیسی لگا رہے ہیں۔

اب سکول کا معاملہ آتا ہے کہ جہاں پھر طبقاتی درجہ بندی ہے، ایک اعلی نسب کے لیے، ایک درمیانے طبقے کے لیے، ایک کمزور طبقے کے لیے یعنی سرکاری سکول۔ ۔ ۔ یہ تقسیم دراصل اس پورے نظام میں موجود ہے، مگر ہم چونکہ اسے قدرت کی تخلیق سنتے اور سمجھتے ہیں، لہذا ہم اسے روا رکھنے کے قائل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ تین چار قسم کے ادارے مختلف طبقات کے بچوں کی طبقاتی تعلیمی ضرورت پوری کرتے ہیں، یعنی حاکم اور محکوم کی تمیز سکھائی جاتی ہے۔

اخلاقیات تو اسلامیات کی کتاب میں دو صفحات کا ایک سبق ہے، جس کی مشق صرف پرچہ پاس کرنے کے لیے ہوتی ہے، ورنہ اس کی ضرورت تو کبھی پیش ہی نہیں آئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں بچہ چاہیے نمایاں مقام والا، جو نام بنائے اور پھر دولت کما کے معاشرے کے بہت سے راجاؤں میں سے ایک راجہ بنے۔ راج کرنا، حکومت کرنا، رعب جمانا یہی تو زندگی ہے، بچپن سے یہی دیکھا ہے یہی سنا اور سیکھا ہے۔ پہلے پہل اکثریت کو یہ دلچسپی ہوتی تھی کہ بچہ پاس ہوا ہے یا فیل۔

اب نمبروں کی ہوا ہے اور ہر آدمی اپنے بچے کو اسی گھوڑے کا سوار بنانا چاہتا ہے۔ استاد خواہ نجی ہو یا سرکاری اس پہ یہی دباؤ ہے کہ نتیجہ سو فیصد ہو اور فلاں سکول سے زیادہ نمبر آنے چاہئیں۔ اب یہ جھوٹا تشخص ہماری معاشرتی بقا کا ہدف بن چکا ہے، جس میں جائز کے سوا بھی جائز ہے۔ ہم نے بچوں کے بینرز لگانے ہیں۔ سکولوں نے والدین کو خوش کرنا ہے، زیادہ سے زیادہ بچوں کا داخلہ لینا ہے۔ اکثر اوقات خود والدین بھی اس نمبر گیم کا شکار ہو کر خود نمبری مہم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کا موقف ہوتا ہے کہ آگے کسی اچھے کالج میں داخلے کے لیے نمبروں کا اچھا ہونا ضروری ہے۔ بچے کی مہارت کیا ہے، رجحان کیا ہے، سوچ کیا ہے اور رویے کیسے ہیں۔ ۔ ۔ یہ سب جاننے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں نتیجہ بہتر لینا ہے اور دینا ہے۔ ایسے میں یہ جاننا مشکل نہیں کہ ہماری تعلیمی ترجیحات اور حاصلات کیا ہیں۔

موجودہ صورتحال میں آپ دیکھیے کہ ہم تعلیمی میدان میں جس قدر نمبروں پہ زور دے رہے ہیں، اس کا عملی نتیجہ کیا برآمد ہو رہا ہے؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم تعلیمی معیار کی حقیقت سے کافی دور ہیں کیونکہ بدقسمتی سے معیار نمبروں پہ چھوڑ دیا گیا ہے، جبکہ رجحان کو پرکھنے کی استعداد اور رواج کو فروغ نہیں دیا گیا۔ بچے کی اخلاقی تربیت تو ممکن ہی نہیں کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام ہی کسی ایک جگہ مرتکز نہیں بلکہ کئی تہوں میں منقسم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم عالمی معیار کے پروفیشنلز اتنی تعداد میں نہیں پیدا کر رہے اور نہ ہی انسان پیدا کر رہے ہیں، جتنی بڑی تعداد میں بچے نمبر حاصل کر رہے ہیں۔ نمبروں کے لیے اور اچھے نتیجے کے لیے ہر طرح کی سہولت جائز تصور ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں ایک فرد یا ادارہ ذمہ دار نہیں بلکہ وہ سب عناصر شامل ہیں کہ جنہوں نے مقابلہ بازی کی فضا کو بنایا اور اسے صحت مند اور مثبت قرار دیا۔ اس کے مثبت ہونے کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہر حرکت کر کے امتحان میں کامیابی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اس سلسلے ایک آدمی قابل مذمت نہیں بلکہ بحیثیت معاشرہ ہم سب اس کے قصور وار ہیں۔

تحقیق کے میدان میں کوئی بہت حیران کن پیش رفت ہم نہیں کر پائے۔ اسی طرح تدریسی شعبے میں ہمیں اس صفت کی کمی نظر آتی ہے، جس کا ذکر ہم عہد رفتہ کی داستانوں میں سنتے ہیں۔ ہم قاری نہیں اور نہ ہم یہ عادت بنا سکے کہ اپنے آپ کو مطالعے کی لت لگائیں۔ یہ سب شوق اور میلان کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم گھٹیا لطیفے، جگت اور دلسوز شعر و جنسی لگن کے مواد پہ وقت بتانا پسند کرتے ہیں۔

یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارا مزاج کیوں ایسی درجہ بندی پہ مائل ہے، یعنی ہم معیار کی حقیقی پرکھ سے اس قدر نا آشنا کیوں ہیں؟ ہم اول آنے کے لیے کوئی بھی اوچھی حرکت کر سکتے ہیں۔ ہمیں نتائج کی مدد سے مالی امداد یا بچوں کو وظیفہ تو مل جاتا ہے لیکن ہم اپنے مستقبل کی تربیت اور ذہنی صلاحیت بڑھانے میں مدد نہیں کر رہے۔ نجی سکولوں کا آپس میں مقابلہ جاری ہے اور پھر نجی بمقابلہ سرکاری ادارے۔ ۔ ۔ یعنی مسلسل اعصاب شکن جنگ جاری ہے، تعلیم اب پر لطف اور قابل اطمینان سرگرمی نہیں۔

اس کے بر عکس یہ بقا کا معاملہ ہے اور اسی کوشش میں لوگ لگے ہوئے ہیں کہ جیسے تیسے خود کو بچا سکیں اور اس کا حصہ بنے رہیں۔ پالیسیوں کا خوف بھی افراد کو مجبور کرتا ہے کہ وہ خود کو نظام میں داخل رکھنے کے لیے یہ کام کریں۔ کیا یہ عہد اتنا عامیانہ ہے یا پھر ہم بطور سماج اس وقت تباہی کی کھائی میں ہیں، جہاں سے معاشرتی ارتقاء کے لیے مسلسل چڑھائی کا سفر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments