سفرنامہ الخبر و الظہران


ان جڑواں شہروں کے نام الخبر اور الدمام ہیں، الخبر اور دمام کے درمیان ایک چھوٹا شہر آتا ہے جسے الظہران کہتے ہیں۔ یہ علاقہ تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے، الظہران میں دنیا کی سب سے بڑی تیل کی کمپنی سعودی آرامکو کا مرکزی دفتر ہے، اس کمپنی کا پرانا نام اریبین امریکن آئل کمپنی تھا جو کہ 1984 میں مکمل طور پر سعودی حکومت نے قومیا لی تھی جو عرب نیشنلائزیشن کا حصہ تھا جو تمام عرب ممالک میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد شروع ہوا تھا۔

اس کمپنی کے پرانے سٹیک ہولڈرز میں کیسکول کیلیفورنیا سٹینڈرڈ آئل کمپنی اور ٹیکساس آئل کمپنی تھی۔ اس کمپنی کا 1932 میں سعودی حکومت کی جانب سے رعایتیں دی گئیں تھی، 4 سال کی مسلسل ڈرلنگ کے بعد 1938 میں کمپنی کو تیل کی دریافت میں کامیابی حاصل ہوئی، سب سے پہلا جو تیل کا کنواں دریافت کیا گیا اس کا نام دمام نمبر 7 تھا جو 1500 بیرل تیل یومیہ پیدا کرتا تھا۔ اس وقت تمام تیل کے ذخائر سعودی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔

الخبر اور دمام کو جڑواں شہر کہا جاتا ہے جیسے پنڈی اور اسلام آباد ہیں۔ یہ شہر مشرقی صوبے میں واقع ہے۔ اس کے نزدیک بحرین، قطر اور کویت کے ملک ہیں۔ نزدیکی شہروں میں الجبیل، الریاض اور راس تنورہ ہیں۔ الجبیل میں سابک کا سب سے بڑا پیٹروکیمیکل پلانٹ ہے۔ اس شہر کو خصوصی طور پر انڈسٹریل اسٹیٹ کا درجہ حاصل ہے، اس کے علاوہ دمام میں بھی تین صنعتی زون موجود ہیں۔ جہاں کھاد، سٹیل، معدنیات اور دوسرے مختلف صنعتی پلانٹ موجود ہیں۔

یہاں آبادی مسلکی اعتبار سے دو حصوں میں شیعہ اور سنی لوگوں میں تقسیم ہے، مگر آپ کسی انسان کو سرعام شیعہ یا سنی نہیں کہہ سکتے ہیں۔ شیعہ اکثریتی علاقوں میں القطیف اور الاحسا مشہور ہیں، اس کے علاوہ راس تنورہ میں بھی شیعہ بکثرت موجود ہیں۔ ان علاقوں کے داخلی اور خارجی راستوں پر عسکری لوگوں کی چوکیاں قائم ہیں اور خاصی پوچھ گچھ کے بعد ان علاقوں میں جانے دیا جاتا ہے۔

سعودی عرب میں سرکاری طور پر سنی مسلک کو اپنایا گیا ہے اور یہاں دین کا کام کرنے والوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، ہر مسجد کا امام و موذن سرکاری ملازم ہے اور سرکار نے ان کی تنخواہ مقرر کر رکھی ہے۔ معاشی طور پر امام بالکل آزاد ہے کیونکہ مسجد کا نظم و نسق اور اس کے تمام اخراجات حکومتی سطح پر اٹھائے جاتے ہیں۔ اس لئے یہاں اگر کوئی مسجد اپنے ذاتی خرچ پر بنانا بھی چاہے تو اسے حکومت سے اجازت لینا ہوتی ہے اور بننے کے بعد وہ اسے حکومت کے حوالے کردیتا ہے اور حکومت اس کا نظم و نسق سنبھالتی ہے۔

اسلامی مذہبی فورس کے نام سے ایک ادارہ ہے جو حسبہ کے نظریے کی بنیاد پر چلتا ہے جس کا کام معاشرے میں موجود برائیوں کا خاتمہ ہے جن میں بے حیائی اور بے راہ روی اول ہیں۔ ہر شاپنگ مال میں ان کا دفتر ہے جس کا سلوگن امر بالمعروف و نھی عن المنکر ہے۔ اس کے علاوہ نماز کے وقت لوگوں کو نماز کے لئے راغب کرنا اور دکانیں بند کروانا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ کسی زمانے میں یہ فورس بہت طاقتور ہوا کرتی تھی مگر اب جب سے محمد بن سلمان کی حکومت آئی ہے تو جدت کی طرف گامزن سعودی عرب میں ان کا کردار آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے۔ کیونکہ معاشرے کو اب رجعت پسندی سے اعتدال پسندی کی طرف لے کر جایا جا رہا ہے۔

سعودی عرب میں ہر شہر کو بنیادی طور پر شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جیسے الخبر الشمالیہ و الخبر الجنوبیہ، اور الخبر الشرقیہ و الخبر الغربیہ۔ اس کے علاوہ، العقربیہ، الراکتہ، التثقبہ، سبیکہ، الخبر الاسکان کے علاقے بھی شامل ہیں۔

شہر میں تین جامعات ہیں جن میں جامعتہ محمد بن خالد، جامعتہ دمام اور جامعتہ ملک فہد پترولیم و معدنیات ہے جو کہ سعودی آرامکو کے ساتھ متصل ہے اور اسے اس شہر کی یو ای ٹی کہا جا سکتا ہے۔

شہر میں چند جگہوں پر واٹر فلٹریشن پلانٹ ہیں جہاں سے لوگ روزمرہ اور کھانے کی ضروریات کے لئے پانی حاصل کرتے ہیں۔ شہر میں تین مرکزی شاہراہیں ہیں جن میں الخبر۔ دمام، الخبر۔ الجبیل، اور الخبر۔ الظہران ہیں۔ اس کے علاوہ الخبر سے ایک شاہراہ بحرین کو جاتی ہے، جو بحرین اور الخبر کو بذریعہ جسر ملک الفہد سے ملاتی ہے، یہ سمندر کے بیچ کھڑا کیا گیا ایک فلائی اوور ہے، جو دونوں ممالک کو آپس میں ملاتا ہے۔ الخبر سے بحرین جانے کے لئے تقریباً 45 سے 60 منٹ لگتے ہیں۔

یہاں مشہور مالز میں الظہران مال، الراشد مال، اور فینیسیا مال ہے، 4 بڑے ہسپتال ہیں جن میں پرو کئیر، المانا ہسپتال، ملک فہد ہسپتال اور سعد ہسپتال ہیں۔ سعد ہسپتال مالی مشکلات کی وجہ سے مکمل بند ہو چکا ہے۔

یہاں کی سب سے مشہور سڑک الخبر کارنیش روڈ ہے، اسے یہاں کی ایم ایم عالم روڈ کہا جا سکتا ہے جہاں ہر قسم کا برانڈ اور کھانے کی چین آپ کو ملے گی۔ اگر پاکستانی کھانے کھانے کا شوق ہے، تو الخبر الشمالیہ اور التثقبہ پہنچ جائیں ان گلیوں میں پھرتے وقت پاکستان کا ہی احساس ہوتا ہے۔ زیادہ تر پاکستانی اسی علاقے میں آباد ہیں اسی کے ساتھ الخبر کا اندرون شہر بھی ہے، جہاں تجارتی مراکز، ملٹی نیشنل کے مرکزی دفاتر اور حکومتی دفاتر موجود ہیں۔ اسی کے ساتھ الخبر کی سونا مارکیٹ موجود ہے جہاں چھٹی کے روز بہت ہلچل دیکھی جاتی ہے۔ یہاں کے مشہور کھانوں میں مندی، خبستہ، کباب اور شوارما ہیں۔ جب سے سعودی حکومت نے معاشرے کو اعتدال پسندی کی طرف راغب کیا ہے الخبر کارنش پر ہر ہفتے کوئی نا کوئی فنون لطیفہ سے متعلق تقریب رونما ہوتی رہتی ہے۔

الظہران میں سب سے زیادہ مشہور سعودی آرامکو کی الظہران ہاؤسنگ کمپاونڈ ہے، جہاں زیادہ تر غیر ملکی افراد جن میں امریکیوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے تشریف فرما ہیں، اس میں عام لوگوں کو داخلہ کی اجازت نہیں ہے۔ داخلے کے لئے سکیوریٹی پاس بنوانا پڑتا ہے اور اس علاقے میں داخلے سے پہلے پولیس یا عسکری چوکی سے بھی گزرنا پڑتا ہے، اس جگہ سعودی آرامکو کا مرکزی دفتر ہے، اور ملک عبدالعزیز منا بھی موجود ہے جو یہاں کی بندرگاہ ہے۔ اس کے ایک طرف ملک عبدالعزیز سینٹر فار ورلڈ کلچر ہے، دوسری طرف جامعہ ملک فہد پٹرولیم و معدنیات اور تیسری طرف آرامکو کا تیسرا بڑی دفتر مدرا موجود ہے۔ الظہران ہاؤسنگ کمپاونڈ میں ہر چیز امریکہ کے حساب سے تیار کی گئی ہے، نیز تزئین و آرائش بھی اسی معیار کی ہے۔

اس کمپاونڈ میں مکمل مغربی ماحول ہے، شریعت کا کوئی اصول آپ پر لاگو نہیں ہوتا ہے، آپ مغربی ماحول میں ہنسی خوشی زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ بات کا ذکر اس لئے بھی خاص طور پر کیا ہے، جو اسلام پسند سعودی عرب کے اسلامی نظام کو پاکستان میں لاگو کرنا چاہتے ہیں وہ اس جگہ کا بھی چکر ضرور لگائیں، یہ بھی اس معاشرے کا ایک حسین امتزاج ہے کہ باہر شریعت ہے اور اندر یورپ ہے۔ جب سعودی عرب میں عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی تب اس جگہ عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت تھی۔ اسی کمپاونڈ میں سینما بھی موجود ہے حالانکہ کہ سعودی عرب میں 2016 سے سینما اور دوسری تفریحات کی اجازت دی گئی ہے۔

اسی جگہ ایک میوزیم ہے جہاں 1932 سے لے کر اب تک تیل اور گیس کی دریافت کی تاریخ کو محفوظ کیا گیا ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

شہر ہماری نسبت صاف ستھرے ہیں نیز لوگوں میں معاشرتی شعور صفائی، ستھرائی اور دیگر معاملات میں ہم سے بہتر ہے۔ ویسے سعودی کافی حد تک متکبر اور گھمنڈی ہیں، کیوں نا ہوں تیل کے سب سے بڑے برآمدی جو ٹھہرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments