ڈاکٹر عبد السلام – اک سچا محب وطن


ندیم احمد فرخ

تم خلوتِ غم سے نکلو تو اس شہر میں ایسے لوگ بھی ہیں\"Nadeem

 اک بار جو دیکھو گے ان کو تو دیکھتے ہی رہ جاؤ گے

اٹلی کے مشہور مقام ٹریسٹے میں واقع سائنس کے بین الاقوامی ادارے ICTP میں ایک تقریب جاری تھی اور اس تقریب میں یونیورسٹی آف پیٹرزبرگ کی جانب سے ویل چیئر پر بیٹھے ایک نوبل انعام یافتہ سائنس دان کوPHD  کی اعزازی ڈگری دی جا رہی تھی۔ لوگوں کی ایک قطار تھی جو کہ ڈگری حاصل کرنے والے کو مبارک باد دینے میں مصروف تھی۔ وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا مبارک باد دینے والوں میں کی قطار میں ایک پاکستانی طالب علم بھی موجود تھا اور اس طالب علم نے احتراماً جھکتے ہوئے اس ویل چیئر پر بے حس و حرکت بیٹھے سائنسدان کو کہا۔ سر! میں آپکا پاکستانی سٹوڈنٹ ہوں ہمیں آپ پر فخر ہے۔

جیسے ہی اس ویل چیئر پر موجود شخص نے پاکستان کا نام سنا اس کے کندھوں پر حرکت کے آثار دکھائی دئے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک لڑی بہ نکلی۔ یہ آنسوؤں کی لڑی وطن سے دوری اور محبت کی وجہ سے نکلی، یہ ویل چیئر پہ بیٹھا سائنسدان ’’ سلام‘‘  تھا۔ یعنی پاکستان کا پہلا نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبد السلام۔۔۔ 21 نومبر اس عظیم سائنسدان کا یوم وفات ہے مگر ہر سال یہ دن ایسی خاموشی سے گزر جاتا ہے جیسے کہ اس سائنسدان کا وجود ہی نہ تھا۔۔۔

آپ 29 جنوری 1926 کو پیدا ہوئے اور بچپن سے ہی انتہائی ذہین تھے۔ آپ نے چودہ برس کی عمر میں میٹرک میں تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ گورنمنٹ لالج لاہور سے 95.5 فیصد نمبرز کے ساتھ اول پوزیشن حاصل کر کے ریاضی میں ایم ایس سی مکمل کی اور پھر آپ نے کیمبرج میں ماہر ریاضی کا امتحان فرسٹ کلاس میں پاس کیا اور ’’ رینگلر‘‘ کا خطاب حاصل کیا۔ 1952 میں انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کیمرج سے واپس آکر گورنمنٹ کالج میں تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ ڈاکٹر سلام صرف ایک سائنسدان نہ تھے بلکہ ان کو انگلش اور اردو ادب سے خاص لگاؤ بھی تھا اور انہوں نے غالب پر بہت سے مضامین بھی لکھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اہم کام سر انجام دئے اور اعزازات حاصل کئے۔ ڈاکٹر عبد السلام 1960 سے لے کر 1974 تک مشیر سائنس برائے صدر پاکستان رہے۔ اس حیثیت سے سلام صاحب نے SUPARCO کی بنیاد رکھی جس کا کام میزائل ریسرچ اور اس سے ملحقہ میدانوں میں ترقی کے لئے خلاء اور بالائی فضا کی تحقیقات تھا اور کچھ عرصہ تک اس کے ڈائیریکٹر کے فرائض بھی سرانجام دئے۔ سلام صاحب کی ہی کوششوں کے نتیجہ میں ’’پاکستان انسی ٹیوٹ آف نیوکلر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ کی کی منظوری کی ہدایات صدر پاکستان دینے پر آمادہ ہوئے۔ جب 1972 میں پاکستان نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تو اس میں بھی ڈاکٹر عبدالسلام نے بطور مشیر سائنس اہم کردار ادا کیا۔ آپ ایٹم برائے امن کے سب سے بڑے داعی تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام  نے 1974 میں لاہور میں ہونے والی پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس میں ’’ اسلامک سائنس فاؤنڈیشن‘‘ کی تجویز دی تا کہ اسلامی ممالک بھی سائنس کے میدان کے شہ سوار بن سکیں۔۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے تیسری دنیا کے قابل سائنس دانوں کے لئے مزید اعلیٰ سائنسی استعدادوں کے حصول کے لئے 1964 میں ٹریسٹے اٹلی میں ICTPبین الاقوامی مرکز برائے نظریاتی سائنسinternational Center For Theoretical Physics  کی بنیاد رکھی جس سے آج تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد سائنس دان استفادہ کر چکے ہیں۔ آپ اس ادارہ کے 1964 سے 1993 تک بانی و سربراہ رہے۔ اس کے بعد ان کا ایک زبردست کارنامہ سائنس اکیڈمی برائے تیسری دنیا ہے جس کا ان کی کوششوں سے 1983 میں قیام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام  نے امپیرئیل کالج لندن میں تھیوریٹکل فزکس کا کورس متعارف کروایا اور1957 سے 1993 تک پڑھاتے رہے۔ آپ 1959 میں سائنس دانوں کی سب سے قدیم سوسائٹی رائل سوسائٹی کے فیلو منتخب ہوئے۔ آپ سب سے کم عمر فیلو تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو کائینات کو یکجا کرنے والی قوتوں کے متعلق ریسرچ پر 1979 میں نوبل انعام دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ پاکستان اور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دیا گیا۔ جولائی 2012 میں سائنس کی دنیا میں ہنگز بوسن نامی ذرہ کی دریافت ہوئی، اس ذرہ کو گاڈ پارٹیکل کا نام دیا گیا۔ اس کی دریافت میں بھی کئے جانے والے ابتدائی کام میں ڈاکٹر عبدالسلام نے غیر معمولی حصہ لیا تھا جس کی آج بھی دنیا معترف ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام  کا تعلق جماعت احمدیہ سے تھا اور آپ بلاشبہ ایک عظیم سائنسدان اور محب وطن پاکستانی تھے مگر وہ پاکستان کی مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوئے مگر ان کی حب الوطنی میں کمی نہ آئی۔ پاکستان میں ان کی نہ حوصلہ افزائی ہوئی اور نہ ہی ان کی قدر کی گئی۔ جہاں ڈاکٹر سلام کو دنیا کے 23 ممالک نے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری دی۔ وہیں گورنمنٹ کالج نے ان کو اپنے کالج میں مدعو تک نہ کیا اور اور پنجاب یونیورسٹی نے ڈگری دینے دے انکار کردیا۔ اور جب انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی میں لیکچر کے لئے جانا تھا تو جمیعت نے اعلان کیا کہ ہم ان کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ جب نوبل انعام کے بعد ڈاکٹر عبد السلام نے ہندوستان کا دورہ کیا تو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی ان کے قدموں میں بیٹھی اور اپنے ہاتھوں سے سلام صاحب کی خدمت میں چائے پیش کی۔ 1981 میں ہندوستان کی مشہور 5 یونیورسٹیوں نے آپ کو ڈگری دی۔ سوئٹزر لینڈ میں ایک سٹرک عبد السلام کے نام سے منسوب ہے۔ چائنا کے صدر اور وزیر اعظم نے ان کے اعزاز میں عشائیے دئے۔ کوریا کے صدر نے سلام سے کوریا کے کے سائنسدانوں کو لیکچر دینے کے لئے وقت نکالنے کی درخواست کی۔ وہیں پاکستان میں 1988 میں اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر صاحبہ نے ملاقات کے لئے بلایا مگر آپ دو دن ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے رہے مگر ان کے سیکرٹری نے کہا کہ محترمہ کے پاس ملاقات کا وقت نہیں ہے اور ملاقات نہ ہوسکی اور آپ واپس آگئے۔ 1990 میں نواز شریف گورنمنٹ کالج گئے اور اس درسگاہ کے عظیم طلباء میں اس عظیم سائنسدان کا نام تک نہ لیا۔

کیمرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد آپ پاکستان آئے تو گورنمنٹ کالج میں ملازمت اختیار کی ڈاکٹر عبدالسلام نے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل سے درخواست کی کہ ایک چھوٹی سی لائبریری ہو جس میں میں ریسرچ کرنا چایتا ہوں۔ کالج کے پرنسپل نے درخواست پر ’’عمل‘‘ کرتے ہوئے ہاسٹل کا وارڈن بنا دیا اور جب ڈاکٹر عبدالسلام نے احتجاج کیا تو آپ کو فٹ بال ٹیم کا نگران بنا دیا گیا. ڈاکٹر صاحب دل برداشتہ ہوئے اور بیرون ملک چلے گئے۔ ڈاکٹر عبدالسلام  کی خواہش تھی کہ عالمی معیار کا ایک سائنس سنٹر پاکستان میں بنے مگر ان کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا اور پھر مجبوراً ان کو یہ سنٹر اٹلی میں بنانا پڑا۔ ڈاکٹر عبدالسلام  نے اتنی رکاوٹوں اور حوصلہ شکنیوں کے باوجود پاکستان سے محبت میں کمی نا آنے دی اور ہر وقت آپ کا دل پاکستان کی محبت سے سرشار رہتا تھا۔ جب ڈاکٹر سلام صاحب کو نوبل انعام ملنے کی توقع تھی تو برطانیہ نے آپ کو شہریت کی پیشکش کی اور جب نوبل انعام مل گیا تو آپ نے نوبل انعام حاصل کیا تو بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایک وزیر کے ذریعہ  ڈاکٹر عبدالسلام  کو بھارتی شہریت اور مراعات کی پیشکش کی۔ 1984 میں جب یونیسکو ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ خالی ہوا تو اس عہدہ کی نامزدگی حکومت کی طرف سے ہونا ضروری تھی۔ پاکستان نے ان کی نامزدگی نہ کی مگر برطانیہ اور اٹلی نے شہریت کی پیشکش کی اور نامزدگی کا اشارہ دیا مگر آپ نے اپنی شہریت ترک نہ کی۔ بہت سارے ہوائی اڈوں پر آپ کو روکا گیا مگر آپ ہمیشہ اپنے سبز پاسپورٹ پر فخر کرتے تھے۔ جب آپ کو نوبل انعام دیا گیا تو آپ نے نوبل انعام کی اس تقریب میں سفید پگڑی، سیاہ اچکن، سفید شلوار قمیص اور پاؤں میں کھسہ پہن کر شرکت کی اور پاکستان کی قومی زبان اردو میں تقریر کی اور آپ کی تقریر قرآنی آیات سے سجی ہوئی تھی۔ آپ کا اس تقریب میں لباس اور تقریر حب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ ڈاکٹر عبدالسلام سے ایک بار علامہ اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال ملنے اٹلی گئے تو ڈاکٹر صاحب نے ان کو گلے لگایا اور رونا شروع کردیا اور کہا کہ دنیا بھر سے لوگ مجھے ملنے آتے ہیں مگر آپ پہلے پاکستانی ہیں جو ملنے آئے ہیں کاش کہ میں پاکستان جا سکتا۔ سابق پاکستانی سفیر واجد شمس الحسن کئی بار ڈاکٹر عبدالسلام  کے پاس گئے، ان ایام میں بھی گئے جن میں آپ بہت بیمار تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سے صرف ایک بات کا تقاضہ اور خواہش کا اظہار کیا کہ ’’میں پاکستان کی مٹی میں دفن ہونا چاہتا ہوں۔ ‘‘21 نومبر 1996 کو جب انتقال ہوا تو ان کی میت پاکستان لانا تھی تو ان کے بھائی نے حکومت پاکستان سے اس عظیم سائنسدان کے لئے پروٹوکول کا پوچھا تو گورنمنٹ نے اس کا جواب تک دینا مناسب نہ سمجھا۔ جس تنگ نظری کا شکار آپ اپنی زندگی میں ہوئے اسی تنگ نظری نے آج تک آپ کا پیچھا نہیں چھوڑا ہے اور آج آپ کی قبر بھی اسی تنگ نظری کا شکار نظر آتی ہے۔

21 نومبر کا دن جہاں اس محب وطن عظیم سائنسدان کو یاد کرنے کا دن ہے اور سبق کا دن ہے کہ وطن سے محبت ہمیشہ بے لوث ہونی چاہیے وہیں یہ دن نوحہ کناں ہے کہ کب تک پاکستان میں علم اور سائنس کا رستہ روکا جاتا رہے گا اور کب تک ہم علم کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان سنتے رہیں گے اور کب تک علم کا گلہ گھونٹا جاتا رہے گا۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments