ایران نے بھارت کو چابہار ریل منصوبے سے باہر نکال دیا


ایران کی بندرگاہ چابہار کے منصوبے میں بھارت نہ صرف مالی معاونت کر رہا تھا بلکہ بھرپور انداز سے اس پروجیکٹ میں شامل تھا۔ بھارت کی دلچسپی اس وجہ سے ہے کہ وہ پاکستان میں صوبہ بلوچستان کی بندرگاہ گوادر سے خائف ہے۔ بھارت کو اندیشہ ہے کہ پاکستان کی اجازت سے چینی بحریہ جوگوادر کی اسٹرٹیجک بندرگاہ استعمال کر سکتی ہے بھارتی بحریہ کا ناطقہ بند کر نے کے علاوہ خلیج ہرمز سے گزرنے والی بھارتی بحری تجارت کا بھی راستہ روک سکے۔ علاوہ ازیں چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری کے راستے گوادر سے کاشغر تک بہترین سڑک بن چکی ہے۔

کاشغر سے آگے بھی سڑکوں کا جال بچھ گیا ہے جو جدید شاہراہ رشیم سے مل کر چین اور وسطی ایشیاء میں مختلف منزلوں کو ملاتا ہے۔ چین کی منصوبہ بندی ہے کہ چینی سامان اور وسطی ایشیاء کے ممالک بھی برامدات اور درآمدات گوادر کے ذریعہ پہنچیں۔

بھارت نے چا بہار کے منصوبے میں بھرپور شرکت اسی وجہ سے کی کہ و سطی ایشیاء کے ممالک گوادر کے بجائے چابہار کی بندرگاہ استعمال کر یں حالانکہ چابہار کی بندرگاہ گوادر کے مقابلے میں چھوٹی بھی ہے اور فاصلہ بھی طویل ہے لیکن بھارت اپنی سازش چالیں چلنے پہ مصر تھا کہ کسی طرح چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری کو نام بنائے۔

چین نے بھارت اور ایران دونوں کو اقتصادی راہداری میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ بھارت نے تو انکار کیا لیکن ایران نے چین کی پیشکش قبول کر لی تھی۔ اب بھا رتی روز نامے ”دی ہندو“ کی رپورٹ کے مطابق ایران نے چا بہار بندرگاہ سے افغانستان کی سرحد سے نزدیک واقع شہر زاہدان تک ریلو لے لائن بھارت کی مدد کے بغیر خود تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور بھارت کو منصوبے سے باہر نکا ل دیا ہے۔ ایران نے یہ فیصلہ ریل کے ا س منصوبے کی تعمیر کے لئے بھارت کی جانب سے فنڈز کی عدم دستیابی اور اس منصوبے کو شروع کرنے میں تاخیر کے سبب کیا ہے۔

بھارت اخبار ”دی ہندو“ نے ایرانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران اب اس منصوبے کو بھارت کی شرکت کے بغیر شروع کرے گا۔ حکام کے مطابق اس کے لئے ابتدائی طور پر ایران کے قومی ترقیاتی فنڈ سے 40 کروڑ ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ ایران کے نقل وحمل اور شہری ترقی کے وزیر محمداسلامی نے گزشتہ ہفتے 628 کلومیٹر لمبی چا بہار زاہدان ریلوے لائن بچھانے کا افتتاح کیا تھا۔ مستقبل میں ریلولے لائن وہاں سے افغانستان کے زرنج خطے تک جائے گی۔

یہ پورا منصوبہ مارچ 2022 ؁ء تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔ بھارت اور ایران کے مابین ریلوے کا یہ معاہدہ اس وقت طے پایا تھا۔ جب بھارت کے وزیراعظم نریند رمودی چابہار بندرگاہ کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے تہران گئے تھے۔ ایرانی ریلویز اور بھارت کی سرکاری کمپنی انڈین ریلویز کنسٹرکشن لمیٹیڈ کے درمیان معاہدہ بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان ایک متبادل تجارتی راستہ تعمیر کرنے کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ بھارت کی ریلویز کے انجینئر ز اور دوسرے حکام نے اس علاقے کا ماضی میں کئی مرتبہ دورہ کیا ہے جہاں سے اس منصوبے کا آغاز ہونا ہے۔

ایرانی حکام نے بھی اس منصوبے پہ عمل درآمد کے لئے کئی مرتبہ تیاریاں کیں اور بھارتی کمپنی پر پروجیکٹ پر کام شروع کرنے کے لئے زور ڈالا تاہم بھارت نے امریکہ کی جانب سے پابندیا ں عائد کرنے کے خدشے کے سبب اسے شروع نہیں کیا۔

اس معاملے میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکہ نے چابہار اور زاہدان ریلولے لائن کو پابند یوں سے مستثنیٰ رکھا تھا۔ امریکی پابندیوں کے سبب ایران کے لئے اس منصوبے کے لئے ساز وسامان اور تعمیراتی پارٹنر حاصل کرنا مشکل ہورہا ہے تھا۔ اس منصوبے سے الگ کیا جانا بھارت کے لئے بڑا دھچکا ہے۔ ایران نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا جب ایران چین کے ساتھ 25 برس کے لئے سٹرٹیجک پارٹنر شپ کا ایک معاہدہ طے کرنا جا رہا ہے۔

روزنامہ ”دی ہندو“ کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے اس وسیع منصوبے کا جو خاکہ سامنے آیا ہے اس کے تحت بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، مینوفیکچرنگ اور توانائی کے شعبے اور ٹرانسپورٹ کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں سرمایہ کاری سے لے کر بندرگاہوں، ریفائزیوں اور دیگر اہم تنصیبات کی تعمیر نوتک میں تعاون واشتراک کیا جائے گا۔ اس مدت میں ایران چین کو رعائتی دام پر خام تیل کی سپلائی جاری رکھے گا۔

اطلاعات کے مطابق چابہار بندرگاہ بھی جسے بھارت تعمیر کر رہا ہے، چین کو لیز پہ دی جاسکتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران نے گزشتہ برس پاکستان میں زیر تعمیر چین کے زیر انتظام گوادر بندرگاہ اور چابہار کے درمیان معاہدے کی تجویز بھی سامنے رکھی تھی۔ بھارت اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو بغور دیکھ رہا ہے۔

بھارت اور چین کے مابین حالیہ سرحدی تنازعہ کے بعد نئی دہلی اور بیجنگ میں کشیدگی اس وقت عروج پر ہے۔ کم ازکم 20 بھارتی فوجی گزشتہ ماہ لداخ میں وادی گلو ان میں تصادم کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

بھارتی نیشنل کانگریس میں پارٹی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر قیادت حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ چا بہار منصوبے کی ریلولے لائن منصوبے سے نکا لا جانا بھارت کی ساکھ کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

واضح رہے کہ ایرانی بندرگاہ چابہار ماضی میں بھارتی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ”راء“ کی خطے میں سازشوں کا گڑھ رہا ہے۔ ”راء“ کا سینئر اہلکار کمانڈر کلبھوشن یادو جو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا اور حسین مبارک پٹیل کے فرضی نام کا پاسپورٹ استعمال کر رہا تھا نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے چابہار میں ایک جعلی تجارتی کمپنی قائم کی ہوئی تھی جہاں سے وہ بلوچستان میں داخل ہو کر بلوچستان میں دہشت گرد کاروایاں انجام دیتا تھا۔

چا بہار بندرگاہ کے ریل کے منصوبے سے نکالا جانا بھارت کے لئے اسی طرح ہے کہ نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن بہت بے آبرو ہو کر ترے کو چے سے ہم نکلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments