عدل کا نظام بدلے بغیر پاکستان کی ترقی ممکن نہیں


امیر مؤمنین سیدنا حضرت عمر فاروق (رض) اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی توسیع کا قصد کیا تو انہوں نے مسجد سے متصل کچھ مکانات خرید لیے ان ہی میں ایک مکان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عم زاد حضرت عباس بن عبد المطلب کا بھی تھا، حضرت عمر (رض) نے حضرت عباس سے وہ مکان قیمتاً خریدنے کی بات کی جس پر حضرت عباس (رض) نے مکان دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت عمر فاروق نے حضرت عباس کے آگے تین باتیں رکھتے ہوئے فرمایا کہ ”یا تو اپنا مکان فروخت کردیں میں بیت المال سے قیمت ادا کر دیتا ہوں، یا پھر آپ مدینہ میں جہاں کہیں بیت المال سے آپ کو مکان بنوا کر دے دیتا ہوں یا پھر آپ مسلمانوں کی سہولت اور مسجد کی توسیع کے لیے اپنا مکان عطیہ کر دیں“ لیکن اس پر بھی حضرت عباس نہیں مانے تو امیر المؤمنین نے فرمایا کہ پھر آپ کسی کو فیصل (فیصلہ کرنے والا) مقرر کریں ہم اس کے پاس چل کر فیصلہ کر لیتے ہیں، اس پر حضرت عباس نے حضرت ابی بن کعب (رض) کے پاس فیصلہ کرنے کی حامی بھری اور اس طرح امیر المومنین حضرت عمر فاروق اور حضرت عباس دونوں حضرت ابی بن کعب کے پاس پہنچے اور اپنا اپنا مدعا بیان فرمایا۔

دونوں حضرات کی بات سننے کے بعد حضرت ابی بن کعب نے فیصلہ حضرت عباس بن عبد المطلب کے حق میں سنایا جس پہ ریاست مدینہ کے امیر مسلمانان عالم کے طاقتور ترین حاکم حضرت عمر فاروق (رض) اللہ عنہ نے سر تسلیم خم کیا اور فیصلہ قبول کر لیا، اور حضرت عباس سے فرمایا کہ ٹھیک ہے اب میں آپ سے مکان لینے کے بارے میں کوئی بات نہیں کروں گا۔ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عم زاد حضرت عباس نے فرمایا اے امیر المؤمنین میں نے یہ مکان بلا معاوضہ مسجد کی توسیع کے لیے آپ کو دیا، آج کا فیصلہ قیامت تک مسلمانوں کے عدل و انصاف کی بالادستی اور عظمت کے ثبوت کے طور پر پیش ہوگا کیونکہ یہاں فیصلہ عالم اسلام کے امیر المومنین کے خلاف اور ایک عام مسلمان کے حق میں ہوا اور امیر المؤمنین نے اس فیصلے پہ دل سے سر تسلیم خم کر کے فیصلے اور اسلامی عدل و انصاف کو عزت و سربلندی بخشی۔

اب آ جائیں اس اسلامی مملکت میں عدل وانصاف کی حالت زار پہ جس کے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ ملک میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت میں وضع کیے گئے قانون و انصاف کے تقاضوں کے منافی نہیں بنایا جاسکتا، مگر کیا ایسا حقیقتاً ہے؟ کیا اسلامی جمہوری پاکستان میں قرآن و سنت کے تقاضوں کے مطابق عدل وانصاف عوام کو بلا امتیاز فراہم کیا جا رہا ہے، اگر اس پر نظر ڈالیں گے تو 72 سالوں میں عدل و انصاف صرف پسند و ناپسند کی بنیاد پہ ملتا اور ہوتا نظر آتا ہے۔

آج ملک میں عدل و انصاف کی حالت زار پہ نظر ڈالیں تو عدالت عظمیٰ سے لے کر اعلٰی عدالتوں اور ماتحت عدالتوں سمیت ملک کی دہشتگردی توڑ عدالتوں اور نیب عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں مقدمات ہیں جو التوا کا شکار ہیں، ان کیسز کی وجہ سے ہزاروں لاکھوں متاثرین انصاف کے لیے کئی کئی سالوں سے عدالتوں کے چکر کاٹتے دھکے کھاتے انصاف کے منتظر ہیں۔ کئی بے گناہوں کو تو انصاف اس وقت ملا جب وہ اس دنیا میں ہی نہیں رہے، ابھی عرصہ پہلے ہی موت کی سزا پانے والے ایک بے گناہ کو سپریم کورٹ نے بے گناہ قرار دے کر بری کرنے کے احکامات جاری کیے تو معلوم ہوا کہ اس غریب کی تو موت کی سزا پہ عمدارآمد بھی ہو گیا اور وہ دو سال پہلے ہی پھانسی چڑھایا جا چکا۔

عدل و انصاف کی شفافیت اور بلا امتیاز فراہمی کی حالت یہ ہے کہ قتل جیسے قبیح ترین جرم میں تین چار ماہ میں ملزم ضمانت حاصل کرکے باہر آ جاتے ہیں، مگر غیر اسلامی غیر انسانی نیب قانون میں ضمانت کا حق ہی حاصل نہیں جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ محض الزامات کی بنیاد پہ بغیر سزا سالوں سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں، چوری کے مقدمے کی سزا سے زیادہ ایک قیدی صرف ضمانت کے حصول تک سزا سے دوگنی زیادہ سزا کاٹ چکا ہوتا ہے

ریاست مدینہ کا مکمل تصور ہی قرآن میں اللہ رب العزت کی جانب سے وضع کیے گئے عدل و انصاف پہ مشتمل تھا، جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری حیات طیبہ میں نہ صرف خود مکمل طور عمل کیا بلکہ اللہ کے نظام عدل و انصاف کے مطابق لوگوں کے ساتھ معاملات نمٹانے کا حکم بھی دیتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ریاست مدینہ مکمل طور پر عدل وانصاف کا آئینہ تھی جس کی وجہ سے اسلام پوری دنیا میں نہ صرف تیزی سے پھیلا بلکہ اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے دنیا کے سب عظیم مذہب کی مثال بھی بنا، مگر بدقسمتی سے اسلام کے نام پر بننے والے اسلامی جمہوری پاکستان میں قانون عدل نہ اسلامی خطوط پر استوار ہے نہ ہی انسانی اقدار سے ہم آہنگ، یہاں طاقتور اپنے مقاصد و مفادات کے لیے جب چاہتے ہیں قانون کو اپنی انگلیوں پہ نچاتے ہیں اور منصف ان کے اشاروں کے غلاموں کا کردار ادا کرتے ہیں، فیصلے اللہ اور رسول کی تعلیمات، قرآن و سنت میں وضع کیے گئے قانون عدل کے بجائے اپنی بنائی گئی پالیسیوں کے مطابق سنائے جاتے ہیں۔

یہاں امریکی ریمنڈ ڈیوس دو پاکستانیوں کا وحشیانہ قتل کرکے قصاص ادا کرکے چند ہی دنوں میں آزاد ہوکر اپنے ملک بھیج دیا جاتا ہے مگر شاہ رخ جتوئی قصاص ادا کرنے کے باوجود کچھ منصفوں کی ذاتی ناراضگی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ مغربی معاشروں نے اسلامی معاشروں کو ہر میدان میں پچھاڑا ہوا ہے اس کی وجہ ان کے معاشروں میں موجود قانون عدل و انصاف کی بلا امتیاز منصفانہ فراہمی ہے۔ پاکستان میں عدل و انصاف انتہائی بدترین حالات سے دوچار ہے یہاں عدل و انصاف اشرافیہ کے لیے الگ اور عام پاکستانیوں کے لیے الگ ہے، اشرافیہ کی دو اقسام ہیں ایک وہ جو برسر اقتدار ہے اور ایک وہ جو برسر اقتدار تو نہیں ہے مگر وسائل و تعلقات کے لحاظ سے بہت طاقتور ہیں اور قانون کا صحیح استعمال کرنا جانتے ہیں۔

یہاں اہل اقتدار قانون کو اپنی پالیسیوں کے مطابق چلاتے ہیں، قانون کا شہادتوں، زمینی حقائق، ثبوتوں سے کوئی تعلق نہیں اقتدار اعلیٰ پہ فائز طبقات نے عدل وانصاف کے لیے جو پالیسی وضع کردی اسی پہ چلنا ہے شہادت ثبوت گواہی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ آج اسی وجہ سے پاکستان پستیوں کی جانب گامزن ہے اگر قانون قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں عوام کو عدل و انصاف کی فراہمی ایمانداری سے شروع کردے تو میں یقین سے کہتا ہوں پاکستان بھی ترقی کی بلندیوں کو چھونے لگے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments