بلاول لیڈرشپ سیاسی لائحہ عمل کے دوراہے پر


ایک ہی حوالے کے ضمن میں جب کسی کو دو حقیقتوں کا اس طرح سامنا کرنا پڑے کہ ہر دو کا بیک وقت درست اور سچا ہونا خلاف توقع اور ناممکن دکھائی دے تو عام فہم زبان میں اسے دو عملی کا مخمصہ یا پیراڈوکس کا نام دیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال سے دوچار ہونے والے شخص کو بہرحال یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ مروجہ و مقبول عام حقیقت ان دونوں میں سے کون سی ہے اور باطنی و عملی یا تاریخی حقیقت کون سی ہے۔ یہ پتہ چلنے کے بعد اس کو وقت مل جائے گا کہ وہ مروجہ و مقبول عام حقیقت کو آلہ استعمال بنا کر اس طرح بروئے کار لائے گویا وہ اس کی ترجمانی آگے بڑھانے کے لئے باطنی و عملی یا تاریخی حقیقت اکسانہ و سمجھانا لے کر آیا ہے۔ یعنی اصل اور مطلوبہ حقیقت کی بات سمجھانے کے لیے پیرایہ استدلال کو مروجہ مقبولیت ہی کے کسی نہ کسی جھوٹ سے اپنے مقصد کے بیان کے لیے سہارا بنا لیا جائے تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے۔ اس کی وضاحت درج ذیل مثال سے کی جائے تو وہ یوں ہو گی

”اقوام عالم میں میسوپوٹیمیا (قدیم عراق) کی تہذیب کو دنیا کی قدیم ترین تہذیب قرار دیا جاتا ہے اور دنیا کا پہلا تحریری قانون دینے والا حمورابی کو مانا جاتا ہے۔ اس عبقری و جینیس انسان نے جب اپنی سورج پرست قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا تو یہی مروجہ طریق اپنایا۔ اس نے اپنا ضابطہ قوانین قوم کو پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ہدایات مجھے سورج دیوتا نے الہام کی ہیں“

(افضال ریحان۔ روزنامہ جنگ 07 / 02 / 2020 )

ظاہر ہے اس دوران مروجہ حقانیت سورج پرستی ہی ٹھنی ہوئی تھی لیکن حمورابی سورج پرست نہ ہونے کہ باوجود سورج دیوتا سے الہامی رابطے کو بیچ میں لے آئے تاکہ اس کی ترجمانی سے ان کا پیش کردہ اصل مقصد ٹھکرائے جانے کا کوئی عذر آڑے نہ آنے پائے۔

دوسرا یہ کہ اس پارٹی اور اس کی لیڈر شپ نے پاکستان کو جو تاریخ سونپی ہے وہ آنے والی نسلوں کا ورثہ تمثیل ہے۔ بھٹو کو اقتدار اس وقت ملا جب آدھا پاکستان ہارا جا چکا تھا، فوج شکستگی کے خوف میں گھری ہوئی تھی، ملک بے آئین تھا، جنگی قیدیوں کے غم میں قوم ماتم کناں تھی، جنرل اروڑہ کے آگے ڈھیر ہونے کی نیازیانہ سبیل لگانے کا ماتم اس پر متضاد! اس سب کچھ کے باوجود بھٹو نے کبھی یہ واویلا نہ مچایا کہ پچھلی حکومتوں کی کوتاہیوں کا کیا دھرا سمیٹنے میں لمبا وقت درکار ہو گا۔

فوراً افواج پاکستان کے مورال کو بلند کرنے کا موٹو گرمایا کہ یہ ایشیا کی بہترین فوج بن کر ابھرے گی۔ جنگی قیدی چھڑآئے۔ میدان میں ہاری ہوئی جنگ ٹیبل پر جا جیتی۔ ایک سو پچانوے فوجی افسروں پر جنگی جرائم کی مقدمہ سازی رکوائی۔ ملک کو آئین دیا۔ پوری مسلم دنیا اور تیسری دنیا کا لیڈر پاکستان کو بنایا۔ بڑے بڑے پیداواری یونٹ بنائے۔ ادھر ’سمایلنگ بدھا‘ کی ترنگ پھوٹی تو ادھر ’سلیپنگ بھٹو‘ کی انگڑائی تڑپی اور تڑپ کر ’عبرت کے نمونے‘ میں جا لپٹی لیکن اپنی دھرتی کی تاریخ پر کوئی آنچ نہ آنے دی تھی اور نہ ایشیا کی بہترین فوج سے کبھی یہ آس لگائی کہ شہیدوں کے مزاروں کو سلیوٹ کرتے وقت سلیپنگ بھٹو کی گڑھی کو بھی بوسہ دے آنا کیونکہ اس گڑھی کو بھی کھودنے کا حکم امریکہ سے آیا تھا۔

’ادھر ہم ادھر تم‘ کے الفاظ بھٹو کے نہیں ہیں۔ نہ معلوم انہیں بھٹو سے منسوب کر کے کس نے پاکستان کو ان دو حرفوں کی مار گردان لیا۔ (سرکار، اردو صحافی عباس اطہر کی شوخ چشمی تھی۔ کوئی ایسی خفیہ بات نہیں۔ مدیر) ایشیا کی بہترین فوج ان دو حرفوں کا انکار کرنا چاہتی تو اس کے توڑ کا سبق بھٹو کو سلیوٹ کرکے یوں دے سکتی تھی کہ ’ادھر سمایلنگ بدھا ہے تو ادھر سلیپنگ بھٹو‘ بھی ہے۔ بھٹو عبرت کا نمونہ بننے تک تل سکتا ہے، تو نیازی یا یحییٰ ڈھاکہ پر قبضے سے پہلے شہید ہونے سے کنی کیوں کترا گئے؟ اروڑہ یا مانک شا جنگی ہیرو بن کر بھی بھارتی سیاست سے لاتعلق رہے۔ ایشیاء کی بہترین فوج ہونا شاید اس بنا پر لائق ستائش ہے کہ زیادہ نہ سہی پر ریٹائرڈ ڈی جی آئی ایس پی آر اور حاضر سروس ڈی جی آئی ایس پی آر کی معاونت برائے اطلاعات کا پیج تو یکساں تاثر کا حامل بنا نظر آتا رہے۔

پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کا تیسرا امتیاز یہ ہے کہ بھٹو کے بعد ایک ایک کر کے دیگر افراد خانہ بھی پراسرار عبرتوں کا نمونہ بنائے جاتے گئے جس کا آخری منظر باغ لیاقت کے جم غفیر نے بانکے پیکر کے سفر اخیر کو اپنی آنکھوں سے مقتل سلامی پہ خود آراء سریر ہوتے دیکھا، جو زرداری جمال کی سراپا فقیر ایسی تھی جو واقعی بے نظیر اور زین اب یعنی اپنے ابو کی تصویر بھی تھی اور تعبیر بھی۔ اپنی موت کے این آر او پر دستخط کرکے بینظیر اپنی دھرتی کو چومنے آئی۔

ایسا خونی این آر او ایسا بینظیر این آر او تھا کہ جس نے آمریت کے سارے حصار لرزہ براندم کر ڈالے۔ نواز شریف کی واپسی ممکن ہوئی۔ جمہوریت کی راہ ہموار ہو گئی۔ آمریت لپیٹ دی گئی۔ آئین و عدلیہ بحال ہو گئی۔ کوئی اور ایسا ہے جو یوں کر کے دکھائے؟ لیکن مروجہ حقیقت کے نزدیک پھر بھی یہ این آر او گالی بنا کر بولا جاتا ہے، کیونکہ مروجہ حقیقت کے پیروکاروں اور علمبرداروں سے پوچھا جائے تو جھٹ سے جواب یہ آتا ہے کہ این آر او کا فائدہ آصف زرداری کو ملا اور وہ صدر پاکستان بن گئے۔

مزید کریدا جائے تو ان کا خبث باطن اتنا آپے سے باہر ہو جاتا ہے کہ جسے سننا یا لکھ کر بیان میں لانا ان کی بے حس انسانیت کے مترادف ہونا پڑ جاتا ہے جس کے ڈانڈے ملاتے ہوئے وہ اتنی پستی میں اتر جاتے ہیں اور ثبوت گھڑنے پہ آ جاتے ہیں کہ اپنے دور اقتدار میں بے نظیر کے قاتلوں کو سزا کیوں نہیں دلوائی گئی؟ مروجہ حقیقت کی عادی ذہنیت کو کون سمجھائے کہ اقتدار قومی امانت ہوتا ہے جو قومی ترجمانی کا حلف بردار ہوتا ہے۔ ذاتی اور خاندانی حساب چکانے کا ذریعہ نہیں ہوتا۔ اصلی اور تاریخی حقیقت جس کی پی پی پی لیڈر شپ امین ہے، اس کے دور میں مخالفین کی قید و بند آئین اور قانون کے تابع ہوتی ہے۔ عدلیہ آزاد ہوتی ہے۔ اسے کالیں کرکے مطلوبہ فیصلے نہیں کرائے جاتے۔

بلاول مروجہ حقیقت اور پارٹی کی تاریخی حقیقت کے دوہرے پن میں گھرے کھڑے ہیں۔ مروجہ حقیقت کا پیراڈوکس تاریخی اور علمی حقیقت پر مبنی لائحہ عمل میں مضمر ہے۔ ممکنہ بلدیاتی الیکشن کا میدان خالی نہ چھوڑیں لیکن قومی انتخابات میں حصہ لینے کا اپنا فیصلہ اس وقت تک کے لیے موخر کر کے رکھنے کا اعلان کر دیں جب تک پارٹی قائدین کے خلاف مقدمات اور نزاعی بیانات کا سلسلہ اپنے آخری انجام تک نہیں پہنچتا۔ اس دوران اپنے بہترین وکلاء کی ٹیم تشکیل دیں اور ملک کی ہر سطح پر اس ٹیم کی شاخیں پارٹی خدمات کے لئے ترتیب دیں تاکہ پارٹی کی طرف سے ایسی قوتوں کے خلاف مقدمے دائر ہونے لگ پڑیں جو پاکستان کی تاریخ میں تو موجود ہیں، لیکن بوجوہ وہ اب تک پردہ اخفا میں پڑے ہیں۔

پاکستان ٹوٹنے کی تاریخ سے لے کر سیاچین، کشمیر، آپریشن جبرالٹر جیسے رموز کیوں سربستہ راز ہیں؟ اسامہ، احسان اللہ احسان، لاپتہ افراد، زرداری کی دس بارہ سالہ حبس بے جا، بھٹو کی پھانسی، بے نظیر اور ان کے بھائیوں کا قتل عام، آئی جے آئی، ایم کیو ایم، پیٹریاٹ، اور اب سنتھیا ڈی رچی اور عزیر جے آئی ٹی وغیرہ تک بے شمار سربستہ راز تاریخ کے اوراق میں لپٹے پڑے ہیں۔ یہ لائحہ عمل کا وہ پیراڈوکس ہے جسے آزمائے بغیر بلاول کو روایتی سیاست کا حصہ دار نہیں بننا چاہیے۔

میثاق جمہوریت صرف جمہوری قوتوں کے مابین طے ہوتا ہے۔ جو سیاست ’اینٹ سے اینٹ بجانے‘ کا بیانیہ سنتے ہی نہ صرف ملاقات منسوخ کر اٹھے، بلکہ اس کارکردگی کی اطلاع بھی فوراً بیرونی دورے پر نکلے ہوئے آرمی چیف کے کانوں تک جا پہنچائے، اسے مزید آزمانے کی کیا گنجائش ہے؟ پاکستان کو عقل و خرد کا سبق اگر ایتھوپیا سے بھی آنا لگ پڑے تو ایسی مروجہ سیاست اور اس کی حقیقت پاکستان کو کیا دے پائے گی؟ جب کہ مروجہ حقیقت سامنے یوں موجود ہو کہ،

”عقل و خرد کو زندگی کے تمام شعبوں سے دیس نکالا دینے کا صدری نسخہ سیانوں نے صدیوں سے ایجاد کر رکھا ہے۔ اقتدار پر قبضہ کیا جائے، اقتدار کے چاروں طرف ایک چار دیواری تعمیر کر دی جائے، ایک طرف علم کے نام پر فصیل بنائی جائے، دوسری طرف بلا احتساب اختیار کی دیوار اٹھائی جائے، تیسری سمت مراعات کا من مانا جھروکا درشن دے اور چوتھی دیوار شہریوں میں اونچ نیچ کی اٹھائی جائے اوپر تقدیس کی چادر ڈال دی جائے“

(وجاہت مسعود۔ روزنامہ جنگ 18 / 06 / 2016 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments