دفاعِ پاکستان اور اس کے تقاضے



چین اور ہندوستان، دونوں ممالک نے اپنے اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے، اور ایک دوسرے کی طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے، قدم پیچھے ہٹانے اور کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ اور ادھر یہ پوزیشن ہے کہ اس کے باوجود کہ ہم یک طرفہ طور پر امریکہ کا ہر مطالبہ تسلیم کر رہے ہیں، امریکہ کا واضح جھکاؤ اور حمایت ہمیں بھارت کے ساتھ نظر آ رہی ہے اور امریکہ علانیہ طور پر بھارت کو اپنا ”سٹریٹیجک پارٹنر“ قرار دیتا ہے اور ان کے درمیان ایک دوسرے کی بحری، بری اور فضائی تنصیبات کے مشترکہ استعمال کا ایک خطرناک معاہدہ بھی موجود ہے۔

ادھر ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہر معاملے میں مکمل ”سپردگی“ کی پالیسی ہمارے ”محفوظ رہنے“ کی ضمانت بن سکتی ہے۔ بھارت کو فرانس سے رافیل طیاروں کی سپلائی شروع ہونے کے تناظر میں یہ مدنظر رکھنا پڑے گا کہ اب ہوائی جہازوں کی ”ڈاگ فائٹ“ کا زمانہ گیا اب ففتھ جنریشن کے ہوائی جہازوں میں مشین گنز تک نصب نہیں ہوتیں بلکہ اب ”بی وی آر“ یعنی بیونڈ وژول رینج قسم کے میزائلز سے مخالف جہازوں کو تباہ کیا جاتا ہے۔ اور اب اس جنریشن کے جہاز ایک سو کلو میٹر دور سے ہی اپنے ٹارگٹس کو پہچان کر ان پر میزائل، فائر اینڈ فارگیٹ ٹائپ، داغ دیتے ہیں۔

رافیل فرانس کی ڈیسالٹ کمپنی جس کے بنے ہوئے ساٹھ کی دھائی کے میراج تھری اور میراج فائیو ہم اب بھی استعمال کر رہے ہیں ان کے بعد فرانس میں اس کمپنی نے میراج دو ہزار بنایا اور اب رافیل اس کا جدید ترین ورشن ہے یہ جہاز زمینی حملے کے لیے دنیا میں سب سے زیادہ ایکوریٹ جہاز سمجھا جاتا ہے اور ریڈار تنصیبات، میزائل بیٹریوں، راکٹ بیسس، آرمڈ، اور آرٹلری کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکی رسوخ کی وجہ سے کوئی مغربی ملک پاکستان کو کوئی جہاز جن میں یہی رافیل، یورپ کا مشترکہ یورو فائٹر، اور سویڈن کا گریفن شامل ہیں، دینے کو تیار نہیں ہیں لہذا پاکستان کے پاس دو آپشن بچتے، ہیں کہ وہ چین سے جے اکتیس جس میں روسی انجن نصب ہے حاصل کرے، یا براہ راست روس سے ففتھ جنریشن کا ایس یو 35 یا پی اے کے 50 جسے سکستھ جنریشن کا جہاز بھی کہا جاتا ہے حاصل کرے اس کے علاوہ روس سے ہی جدید ٹی 5 الماتا ٹینک اور ویپن پلیٹ فارم کی خرید کا بھی سودا کیا جا سکتا ہے یاد رہے کہ پاکستان کا الخالد روسی انجن ہی استعمال کر رہا ہے۔

اسی طرح ایس پی آرٹلری کے لیے بھی روس ہی بہترین آپشن ہے۔ پاکستان نے کئی سال کی آزمائش کے بعد چینی اے کے 56 کو تبدیل کرنے کے لیے بطور سروس رائفل، انتخاب کے لیے کئی ممالک کی رائفلز کے طویل فیلڈ ٹیسٹ کرنے کے بعد روسی ”اے کے ایک سو تین“ کو منتخب کیا ہے جو ڈیڑھ لاکھ روس سے خریدی جائیں گی اور باقی واہ آرڈیننس فیکٹری میں لائسنس کے تحت تیار کی جائیں گی۔ چین بھی ابھی تک اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی روس سے ہی حاصل کرتا ہے اور بھارت کی طرف سے روسی میزائل ڈیفنس سسٹم ایس فور ہنڈرڈ کے مقابلے میں چین نے روس سے ایس فائیو ہنڈرڈ خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔

ہمارے دفاع کے موثر اور محفوظ ہونے کے لیے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ فوری طور پر پاک فوج کے امریکہ میں ”ٹریننگ پروگرام“ کو روکا جائے پاکستان کے کئی سینئیر افسر ز اپنی تحریر کردہ کتب میں اس ٹریننگ پروگرام کے دوران سی آئی اے کی طرف سے پیشکشوں کا ذکر کر چکے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب امریکہ نہ خود اور نہ کسی اور اتحادی ملک کو ہمیں اسلحہ فروخت اور سپلائی کرنے کی اجازت دیتا ہے تو اس نے یہ ٹریننگ پروگرام کیوں خصوصی طور پر خود کوشش کر کے دوبارہ جاری کروایا ہے۔

بھارت کی بڑی فوج سے مقابلے کے لیے ہمیں مفروضوں پر مشتمل پالیسیز بنانے کے بجائے ایک غیر رویتی اپروچ اور سوچ کی ضرورت ہے، ”اکارڈنگ ٹو بک“ تو بھارتی بھی عمل میں لاتے ہیں ہمیں اس کے ساتھ ساتھ بالکل نئی حیرت زدہ کر دینے والی ایسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جو ہمہ جہت ہو اور دشمن کے رئیر کو زمین اور فضاء سے حیران کن حملہ کر کے اس کے میزائلز اور بھاری ہتھیاروں کا ہماری سرحدوں کی طرف یا ان کے اندر استعمال ناممکن کر دے۔

ایک چھوٹے ماڈل کی مثال دینا چاہوں گا جو میرے مشاہدے پر مبنی ہے ایک سرحدی علاقے میں مجھے دشمن کے مورچوں کے سامنے ایک بلند مقام پر جانے کا اتفاق ہوا تو ایک بلند ڈھلان پر بیٹھ کر میں نے دور بین سے سامنے موجود بھارتی پوزیشنز کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان کے مورچے پوری پہاڑی ڈھلوان پر نیچے سے اوپر چوٹی تک مسلسل بنے ہوئے تھے چوٹی سے کچھ نیچے ان کی جھنڈا لگی کمان پوزیشن بھی نظر آ رہی تھی، کچھ مارٹر پوزیشنز بھی دکھائی دے رہی تھیں اور پہاڑ کے پیچھے ان کی فیلڈ اور ان سے پیچھے میڈیم آٹلری گنز بھی ہوں گی جواس طرف سے نظر نہیں آ رہی تھیں تو حسب عادت ایک وار گیم کے طور پر میں یہ سوچنے لگا کہ اگر اس پہاڑی پر قبضہ کرنا ہو تو نیچے سے اوپر کی طرف ان مسلسل موچوں اور پوزیشنز کے ہوتے ہوئے کامیابی کا امکان نہیں بلکہ نقصان کا اندیشہ ہے لیکن اگر کسی طرح ان کے پیچھے پہنچ کر اوپر سے نیچے کی طرف اٹیک کیا جائے جب حسب مراتب پچھلے توپخانہ کو توپخانہ سے رئیر کو وہیں فورس سے انگیج کر کے اور دوسری فورس سے اس ڈھلان پر بنی پوسٹوں پر اوپر سے نیچے کی طرف اور سامنے اپنی مستقل پوزیشنز سے ان سامنے کے مورچوں کو اینگیج کیا جائے تو ان پوزیشنز میں موجود فورس کے پاس مر جانے یا ہتھیار ڈال دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا۔

گویا بڑے ماڈل پر ہمیں ان کے پیچھے بڑے پیمانے پر ہوائی اور زمینی نفوز کر کے ملٹی ڈائرکشنل جنگ لڑنی پڑے گی جس کا بنیادی میدان جنگ دشمن کے زیر قبضہ علاقہ ہو گا۔ اس غیر روایتی طریقے کے لیے ہمیں اس کی منصوبہ بندی، ٹریننگ، اور مشق کی ضرورت ہو گی اور دفاع کے لیے بھی لچکدار دفاعی پالیسی اختیار کرنی پڑے گی۔ جس کے لیے اسرائیل کے ماڈل کے مطابق اپنی سول آبادی کے نوجوانوں کو بھی موثر ٹریننگ کے ساتھ استعمال کرنا پڑے گا۔

بھارت جو اپنی بری افواج کی تعداد گیارہ بارہ لاکھ بتاتا ہے ایسا حقیقت میں نہیں بلکہ دو ایڈیشنل کورز جو انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان پر حملے کے لیے کھڑی کی گئیں تھیں ان کا ذکر بھارتی کسی گنتی میں نہیں کرتے گویا بھارتی فوج کی ان دونوں پوشیدہ کورز کے سمیت ان کی بری فوج کی کل تعداد چوبیس سے چھبیس لاکھ کے قریب ہے۔ ہماری طرف سے بھی جو تعداد بتائی جاتی ہے اتنی ہی نہیں بلکہ اس سے کافی زیادہ ہے۔ جنگ اچھی چیز نہیں ہوتی لیکن بھارت جیسے گھٹیا دشمن کے مقابلے میں ہمیں پوری یکسوئی اور عزم کے ساتھ ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔

کیونکہ بھارت کی فطرت ہے کہ اگر اس کے سامنے کمزوری کا اور صلح صفائی کی درخواستوں کا مظاہرہ اور اپیلیں کی جائیں گی تو وہ اپنی جارحانہ کارروائیاں مزید بڑھا دے گا۔ اس لیے ہمہ وقت تیار رہنا ہماری قومی بقا کے لیے ضروری ہے، کیونکہ پاکستان دنیا میں ہمارے لیے آخری پناہ گاہ ہے اور اس کے پیچھے بقول قائد اعظم محمد علی جناح بحیرہ عرب ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments