مُلا، مسجد اور مندر



بچپن میں کھیل کود کے میدان وافر تعداد میں موجود ہوتے تھے، کیونکہ نجی زمینیں کمرشل پلاٹوں میں تبدیل ہوکر ابھی آباد نہی ہوی تھیں اور نہ ہی آبادی اتنی زیادہ بڑھی تھی کہ ان پر تعمیراتی کام کی ضرورت پڑتی۔ لہذا ہم سب ہم عمر لڑکے ان پرائیویٹ میدانوں اور پلاٹوں میں کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال ہر طرح کا کھیل آسانی سے کھیلتے تھے۔ ہمارے محلہ میں صرف ایک شیعہ گھرانا ہوتا تھا جس کے باسی دربار کے ساتھ منسلک مسجد میں نماز ادا کرتے تھے۔

چونکہ ان دنوں شیعہ سنی والی کوئی خاص فرقہ بندی وجود میں نہی آئی تھی لہذا ہم سب بچے بھی انہی کے گھر میں بڑے ہوئے تھے اور دونوں سنی اور شیہ مل کر اسی ایک ہی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے۔ ضیا الحق کی نحوست ملک میں آچکی تھی جس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جہاں اور کئی ڈرامے کیے وہاں شیعہ سنی کی نفرت کو عروج تک پہنچایا۔ سب سے پہلے مسجد الگ ہوی، ذاتی نفرت بڑھی، رشتے ٹوٹے اور محبتیں جاتی رہیں۔ اس سرد جنگ میں وھی ایک شیعہ گھرانہ دربار سے منسلک قدیمی پوری مسجد پر قابض ہوگیا اور سنی اکثریت نے اس مسجد سے دستبردار ہوکر محلہ کے سرکاری چوک پر ایک نئی مسجد تعمیر کرڈالی۔

دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی آبادی تیزی سے بڑھی اور دس سال میں کوئی ایک خالی پلاٹ نہ بچا جس پر بچے کھیل کر اپنا خوبصورت بچپن گزارتے۔ جو سرکاری چوک کھیل کود یا دیگر سماجی سرگرمیوں کے لیے مختص تھا اس کام کے لیے وہاں محلہ کے سنی بزرگوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد تعمیر کرکے خود کو جنت کا اہل بنا ڈالا۔ بچوں نے وافر جگہ نہ ہونے کے سبب گلیوں میں کھیلنا شروع کر دیا اور امام مسجد کو لاؤڈ سپیکر جیسا خوبصورت کھلونہ مل گیا، ادھر ایف ایس سی کے امتحانات سر پر تھے اور ادھر مولوی صاحب کو گرجنے کے لیے مفت کا سپیکر مل گیا تھا، جس کا وعظ روزانہ بعد نماز عصر شام کو شروع ہوتا اور مغرب کی نماز تک جاری رہتا۔

کئی دفعہ میں اور میرا کزن خاموشی سے دبے قدموں آنکھ بچا کر اسپیکر کا سویچ آف کرآتے جبکہ مولوی صاحب آنکھیں بند کیے اپنی دھن میں لگے رہتے تھے اور یوں ہم کچھ دیر کے لیے امتحان کی تیاری کرلیتے تھے۔ کچھ دن تو ہمارا یہ حربہ کام کر گیا لیکن پھر کسی نے کہا کہ مولوی صاحب آج کل وعظ سنائی نہی دیتا تو بولے میں تو روزانہ کرتا ہوں شاید اسپیکر خراب ہے۔ انہی دنوں اکثر سوچتا تھا کہ کیسے دوبارہ بچوں کو ان کا حق یعنی یہ پلاٹ جہاں غیرقانوی مسجد بنائی گئی تھی واپس دلایا جائے جس پر سنی مسلمانوں نے ایمان کی حرارت کے سبب قبضہ کر لیا تھا اور بچوں سے خوشیاں چھین کر اپنی جنت حاصل کرلی تھی۔

آج اسی محلہ میں ہر فرقہ کی چار یا پانچ مساجد بن گئی ہیں لیکن بچوں اور خواتین کے لیے کوئی پارک ہے اور نہ ہی کھیل کا میدان پایا جاتا ہے حتی کا ان تمام مساجد کے بیت الخلا بھی مولوی صاحبان بند کیے رکھتے ہیں جو صرف نماز کے وقت سے 15 منٹ پہلے کھولے جاتے ہیں۔ انہی دنوں ایسا تقریباً ہر محلہ اور شہر میں ہوا، جہاں قبضہ کرنا ہو وہاں پہلے ایک چھوٹی سی مسجد بناؤ اور اس کی آڑ میں اپنے مضموم مقاصد کے تحت مدرسہ، ذاتی گھر اور پلازہ بنالو۔

ایمان والے نہ مسجد گرانے دیں گے اور نہ ہی ان کے پلازے اور گھر گریں گے۔ ابھی حال ہی میں اسلام آباد میں ہندوؤں اقلیتوں کے لیے حکومت پاکستان نے ایک مندر کی تعمیر کا حکم دیا تو پھر ایمان والوں کو جوش آ گیا اور وہاں کی بنیادیں تک اکھیڑ ڈالیں۔ کچھ جذباتی عقیدت مندوں نے تو وڈیوز بنائی ہوی ہیں کہ ہم اس پر خود کش حملہ کردیں گے اگر یہ مندر بنا تو۔ پاک و ہند میں شدت پسند ہندو ہوں یا مسلم ان کی ذہنی حالت ہمیشہ مشکوک رہی ہے جہاں بھی اکثریت میں ہوتے ہیں اپنی اقلیتوں کے حقوق پامال کرتے ہیں اور جہاں اقلیت میں ہوں اپنی مظلومیت کا رونا روتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments