میں اکثر سوچتا ہوں لوگ ترقی کیوں نہیں کرتے


میں اکثر سوچتا ہوں لوگ ترقی کیوں نہیں کرتے اس سوال پہ اکثر میں سوچتا رہتا ہوں۔ مختلف وجوہات میرے ذہن میں آتی ہیں مختلف مسائل سامنے آتے ہیں۔ جن میں ذاتی بھی ہوتے ہیں اور معاشرتی بھی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کو انھی لوگوں نے فتح کیا جنہوں نے پہلے خود کو فتح کیا۔ جو خود سے ہی ہار جائے اس کا دنیا سے کیا مقابلہ۔ دنیا میں انہی لوگوں نے نام کمایا جنہوں نے معاشرتی پابندیوں سے آزادی حاصل کی۔ ان میں سے کچھ غلط بھی تھے۔

لیکن اکثر بڑے لوگوں نے معاشرتی پابندیوں اور رسموں رواجوں کو ٹھکرا کر کچھ حاصل کیا۔ لیکن اس سے پہلے بھی بہت کچھ انہوں نے سرانجام دیا۔ معاشرے سے لڑنے سے پہلے بھی انہیں ایک باقاعدہ جنگ لڑنی پڑی۔ پہلے انہوں نے اپنے آپ کو فتح کیا اور پھر دنیا ان کی عظمت کے سامنے خود بخود جھکتی چلی گئی۔ یہ فتح قلم کی بھی تھی اور تلوار کی بھی۔ ہر لڑنے والے نے دوسرے لوگوں کو بعد میں فتح کیا پہلے خود پر قابو پایا۔

بات گھما پھرا کے اصل مطلب کی طرف لے آتا ہوں کہ لوگ ترقی کیوں نہیں کرتے۔ آپ نے زندگی میں بہت سے ٹیلینٹڈ لوگ دیکھے ہوں گے جو در بدر دھکے کھاتے پھر رہے ہیں یا جنھیں دنیا کے لئے مثال بننا ہو وہ عبرت کا نشان بنے پھرتے ہیں۔ آپ میں سے بھی کئی لوگ بہت قابل ہوں گے۔ کچھ نے خود کی شناخت کر لی ہوگی اور کچھ نے نہیں کی۔ جنہوں نے ابھی تک خود کو نہیں پہچانا نہ ہی اپنے مقصد کو پہچانا ہے ان کے لیے امام غزالی کا ایک قول بیان کرنا چاہتا ہوں۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ ہر انسان کی دو پیدائیش ہوتی ہیں۔ ایک جب وہ ماں کے بطن سے پیدا ہوتا ہے اور دوسری جب وہ یہ جان جاتا ہے اسے دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے۔ جس نے خود کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا۔ ہر کسی کو چاہیے کہ وہ خود شناسی کرے خود کو پہچانے۔

دراصل یہاں آج میرے اصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ انہیں کس میدان میں جھنڈے گاڑنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ یا کم از کم انہیں کیس میدان عمل کی خاک چھاننے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ کچھ نہیں کر رہے۔ یعنی کہ وہ خود اپنی نظروں میں ہی ایک مجرم کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کی مثال کے لیے میں خود کو آپ کے سامنے پیش کروں گا۔

جہاں تک مجھے لگتا ہے خدا نے مجھے کچھ نہ کچھ لکھنے کا ہنر دے کر دنیا میں بھیجا ہے۔ اور میں نے تھوڑی سی کوشش سے یہ راز پا لیا ہے کہ میں نے کیا کرنا ہے۔ اور میں کیا کر سکتا ہوں۔ لیکن ابھی تک میں نے کچھ نہیں کیا باوجود اس کے کہ میں لکھ سکتا ہوں میں کچھ نہیں لکھتا۔ یعنی خدا کی دی ہوئی نعمت کا استعمال نہ کرکے ناشکری کا مرتکب ہوتا ہوں۔ لوگ میری طرح سست اور محنت سے جی چرانے والے ہوتے ہیں۔ وہ محنت نہیں کرتے اور اس طرح وہ اپنے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی ان دیکھے نقصان اور گھاٹے سے دوچار کرتے رہتے ہیں۔

میری حالت یہ ہے کہ ذہن میں ہر وقت کچھ نہ کچھ چلتا رہتا ہے۔ جس میں سے اکثر لکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ کوئی خبر پڑھتا سنتا ہوں تو زندگی میں اس کے متعلق ایک جاندار تبصرہ ابھرنے لگتا ہے لیکن میں نے کبھی ایک بھی ایسا کالم نہیں لکھا۔ کوئی واقعہ یا منظر دیکھتا ہوں یا کوئی جملہ یا شعر پڑھتا ہوں تو خدا داد صلاحیت کی وجہ سے اس کے متعلق کچھ ہی وقت میں ایک بہترین افسانے یا آرٹیکل کے نکات ذہن میں آ جاتے ہیں۔ لیکن میں ان کو نہیں لکھ پاتا۔

کبھی کبھار موقع ملے تو وہ نکات موبائل کے نوٹ پیڈ میں لکھ لیتا ہوں یا وائس ریکارڈر میں ریکارڈ کر لیتا ہوں کہ بعد میں انھیں لکھ لوں گا مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ابھی جب میں یہ آرٹیکل لکھ رہا ہوں میرے موبائل فون میں کئی اور آرٹیکلز کے پوائنٹس موجود ہیں۔ جنھیں مکمل کرنے کی زحمت میں نے آج تک نہیں کی۔ اور ان میں سے اکثر اب اپنی اہمیت کھو چکے ہیں کیونکہ وہ وقتی نوعیت کے موضوعات پر تھے۔ جو اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ میری یہی کم ہمتی اور کام چوری ہے کہ اب میں پچھتا رہا ہوں۔ میرا ایک دوست مجھے کہتا ہے تمہیں یہاں نہیں ہونا چاہیے جہاں تم کھڑے ہو۔ لیکن میں اسے کہتا ہوں مجھے جلدی پسند نہیں ہے اور آگے سے مسکرا کر جواب دیتا ہے۔ اگر تم نے قدم اٹھانے کی ہمت ہے تو تمہیں رینگنا نہیں چاہیے۔

اور آج میں نے اپنے دوست کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔ آپ بھی قدم اٹھائیں آپ کا اٹھایا گیا ایک قدم آپ کی منزل کی طرف آپ کا سفر گھٹا دے گا۔ اور آخری بات اس انسان کی قدر کرنا جو تمہیں یقین دلا دے کہ تم یہ کر سکتے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments