مجرم کون، سنگتراش یا بت شکن؟


تخت باہی کے نواح میں تقریباً 1700 سال پرانا مجسمہ ملا اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ اس خبر کے بعد سناٹا چھا جاتا ہے۔ ایک ایسی خاموشی جو کانوں کے پردے پھاڑ دیتی ہے اور جس میں ہزاروں بھید چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔

اس خاموشی میں مجھے کچھ سرگوشیاں سنائی دیں اور کچھ تصویریں تیزی سے نظروں کے سامنے سے گزر گئیں۔ ٹیکسلا کے سر کٹے بت، ہمارے گھر میں ٹنگی ناک کٹی تصویریں، لاہور میوزیم میں دھرا فاقہ کش بدھ کا مجسمہ جس کی ایک انگلی شاید کسی صفائی کے دوران ٹوٹ گئی تھی اور دوبارہ ایسے بے ڈھنگے پن سے جوڑی گئی کہ اب کچھ کی کچھ لگتی ہے۔

سنگاپور کے ’دانت کے مندر‘ میں رکھا گندھارا بدھا، جس کا سرمئی پتھر اور مخصوص نقش و نگار دیکھ کر میں بے ساختہ کہہ گئی تھی، ’یہ تو ہمارا بدھا ہے۔‘ کمبوڈیا کے کھنڈرات میں بدھ کے وہ مجسمے جن کے جسم تو بدھ کے ہیں، مگر سر بھگوان کرشن کے۔ اپسراؤں کے وہ مجسمے جن کی ساکت مسکراہٹوں میں بھی اپنے عہد کا جبر جھلکتا ہے اور ایک ویران مندر میں فقط ایک بت کے دو پاؤں، باقی مجسمہ جو یقیناً نوادرات چور لے گئے تھے، جانے کہاں ہوگا؟

ان ساری مورتیوں کے درمیان اور اس کان پھاڑ دینے والی خاموشی میں مجھے اس سنگتراش کی چھینی اور ہتھوڑی کی کھٹ کھٹ سنائی دی جس نے یہ مجسمہ تراشا تھا۔ وہ مجسمہ جو روز ازل سے ہی پتھر میں پوشیدہ تھا، سنگتراش نے تو فقط فالتو پتھر ہٹائے تھے۔

جانے یہ مجسمہ، جس کا سر نہیں، تخت باہی سے یہاں کیسے آیا؟ یہ کس کا مجسمہ تھا ؟ کس نے تراشا تھا؟ کس پہاڑ سے پتھر کاٹا گیا تھا؟ وہ کون لوگ تھے جو اس نفاست سے پتھر تراشتے تھے کہ آج اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی لباس کی سلوٹیں، جسم کی بناوٹ، اعضاء کا تناسب، سب یوں لگ رہا تھا کہ سرمئی پتھر سے تراشا گیا بت نہیں، ایک جیتا جاگتا انسان درگور ہو۔

سنگتراش نے جب یہ مجسمہ بنایا ہوگا تو اس کے تصور میں جانے کیا کیا ہوگا؟ کیا خبر یہ بدھا کا مجسمہ ہی نہ ہو؟کیا خبر یہ کسی سچ مچ کے انسان کا مجسمہ ہو؟ کیا خبر یہ سنگتراش کے تخیل کی پیداوار ہو؟

کئی صدیوں سے زمین میں دبا گزرے زمانوں کی چغلی کھانے والا اور ہمیں ان زمانوں کے بارے میں قیاس کرنے پر اکسانے والا یہ مجسمہ اب شکستہ پتھروں کا ایک ڈھیر ہے۔ اسے توڑنے والے گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ کیا وہ مجرم تھے؟ مجرم ایسے ہوتے ہیں؟ سیدھے سادھے عام انسان، اسی سنگتراش جیسے عام انسان جس نے یہ مجسمہ تراشا تھا۔ جس طرح وہ چھینی اور ہتھوڑی لیے اس سرمئی پتھر پر نقش ابھار رہا تھا عین اسی طرح یہ مزدور پھاوڑا پکڑے ان نقوش کو مٹا رہے تھے۔

اس سنگتراش کے عہد نے اسے پتھر پر نقش ابھارنے سکھائے تھے، ان مزدوروں کے زمانے نے انھیں اسی نقشیں پتھر کو چورا کرنا سکھایا تھا۔ جذبہ دونوں کا شاید ایک ہی ہو۔ ممکن ہے جس مزدور نے یہ مجسمہ توڑا وہ اسی سنگتراش کی اگلی نسل میں سے ہو۔ اگر صدیوں تک یہ مجسمہ یہاں مٹی تلے دبا محفوظ رہ سکتا ہے تو کیا مجسمہ بنانے والے کی نسل وہاں باقی نہیں رہ سکتی؟

مجرم کون ہے، سنگتراش یا بت شکن؟ اس کا تعین تاریخ کے اس طویل دھارے کی ایک ننھی سی لہر میں لکھا گیا قانون کیسے کر سکتا ہے؟

تاریخ بہت مشکل مضمون ہے صاحبو! یہ بے ساختہ سوالات اور ان کے جوابات کا نام ہے شاید۔ اسے پڑھنے، پڑھانے، بنانے، مٹانے اور توڑنے موڑنے کی کوشش کرنے والے خود مٹ جاتے ہیں۔

گندھارا تہذیب ہو یا ہڑپہ اور کوٹ ڈیجی کے آثار، لاہور کی قدیم عمارات ہوں یا پرانے درخت، نہایت تیزی سے برباد کیے جا رہے ہیں۔ تاریخ کا ہمارا تمام علم اور آثار قدیمہ کے بارے میں ہماری ساری دلچسپی چند مخصوص علامات اور اشیاء سے منسلک ہو کر رہ گئی ہیں۔

ہر طرف پلاسٹک کی حکمرانی ہے اور ہم ذروں کی تہذیب، ٹھیکریوں کی زبان اور پتھر کے عہد کو پڑھنے اور سمجھنے سے اسی طرح قاصر ہیں جیسے بندر ادرک کے سواد سے انجان ہوتا ہے۔

سزا ان مزدوروں کو ملے گی مگر اصل مجرم کون ہے؟ مزدوروں نے وہی کیا جو انھیں مناسب لگا۔ اگر یہ سب غیر مناسب تھا تو یہ علم تخت باہی کے ان مزدوروں تک کس نے نہیں پہنچنے دیا؟

آگہی کو پھیلنے سے روکنے والے، علم کی راہ میں روڑے اٹکانے والے، علم کو فقط روزی کمانے کا ذریعہ بنانے والے، شاید سب ہی مجرم ہیں۔ مگر اتنے مجرموں کو کتنی جیلوں میں بھرا جائے گا؟

تاریخ نے ہمارے سامنے ایک اور سوال دھر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).