چند گز کا فاصلہ


ڈاکٹر خالد سہیل کا افسانہ
دعا عظیمی کا تبصرہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ڈاکٹر خالد سہیل

ہم لاکھوں کی تعداد میں موجود تھے لیکن اب کہانی سنانے کو صرف چند سو باقی رہ گئے ہیں۔ ”کیا ہم خوش قسمت ہیں کہ ابھی تک زندہ ہیں یا بدقسمت کہ مرنے والوں کا سوگ منا رہے ہیں؟“ ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں۔

ہماری ماؤں نے ساری دنیا میں سمندر سے چند گز کے فاصلے پر لاکھوں انڈے دیے تھے۔ انہیں امید تھی کہ ہم مختصر سا فاصلہ طے کر لیں گے لیکن اس مختصر سے فاصلے کو طے کرتے کرتے ہمیں ایک طویل مدت لگی اور لاکھوں جانوں کی قربانی دینی پڑی۔ اب ہم واپس اس جگہ پر آ گئے ہیں جہاں سے ہماری ماؤں نے اس سفر کا آغاز کیا تھا۔ جب ہماری ماؤں نے انڈے دیے تھے تو انہوں نے ہمیں ریت میں چھپا دیا تھا تاکہ ہم انسانوں، جانوروں اور پرندوں کی نظروں سے اوجھل رہیں لیکن ایسا نہ ہوا ہم حوادث کا شکار ہو گئے۔ ہم میں سے جو آج تک زندہ ہیں شاید خوش قسمت ہیں کہ اپنے ماضی، حال اور مستقبل کا جائزہ لینے اور اپنی کہانی سنانے کے لئے باقی رہ گئے ہیں۔

ہماری ماؤں نے ریت کھودی تھی اور انڈے دیے تھے تاکہ ہم زیر زمین محفوظ رہیں لیکن ہمارے انسانی ہمسائے ہماری تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور آخر انہوں نے ہمیں کھود نکالا۔ انہوں نے انڈوں سے اپنی جیبیں اور تھیلے بھر لئے اور بازاروں کی طرف چل دیے۔ اگر وہ مڑ کر دیکھتے تو انہیں ہماری ماؤں کی آنکھوں میں آنسو نظر آتے۔ ہماری ماؤں کو پتہ تھا کہ وہ انڈے بازاروں میں بیچ دیے جائیں گے۔ بہت سی انسانی مائیں بچوں کو وہ انڈے کھلائیں گی تاکہ بچے صحت مند ہوں لیکن بعض مرد انہیں یہ سوچ کر کچا پی جائیں گے کہ اس سے ان کی شہوانی طاقت میں اضافہ ہوگا۔

شہوانی طاقت میں اضافہ ایک حقیقت ہے یا خوش خیالی ہمیں کیا معلوم۔ ہماری تلاش میں صرف انسان ہی نہ تھے۔ پرندے بھی تھے۔ انہوں نے اپنی تیز اور نوکدار چونچوں اور پنجوں سے ریت کھود کر انڈے نکالے تھے اور انہیں توڑ کر پی گئے تھے۔ انہوں نے تو اپنی بھوک تیز کرنے کے لئے ایک دل لگی کا سہارا لیا تھا لیکن ہم اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔

جب انڈوں سے بچے پیدا ہو گئے تو سب بچوں کی ایک ہی خواہش تھی اور ایک ہی منزل۔ وہ سب پانی تک پہنچنا چاہتے تھے۔

وہ چند گز کا فاصلہ طے کرنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ چند گز کا فاصلہ سینکڑوں رکاوٹوں سے اٹا پڑا تھا۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ ہم میں سے کتنے کامیاب ہوں گے اور کتنے راستے میں قربان ہوجائیں گے۔

دنیا کے مختلف حصوں میں ہمارے قد، جسامت اور شکلیں مختلف تھیں۔ ہم میں سے بعض اتنے چھوٹے تھے کہ بچے اپنی ہتھیلی پر رکھ لیں اور بعض اتنے بڑے کہ نوجوان مرد بھی نہ اٹھا سکیں۔ ہم میں سے اکثر اپنی حفاظت کے لئے ایک ڈھال پہنے رہتے تھے لیکن اس ڈھال کے نیچے ہمارے ناتواں جسم کانپتے رہتے تھے۔ جب ہم نے سمندر کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور پانی کی طرف رینگنا شروع کیا تھا تو ہم لاکھوں کی تعداد میں تھے۔

اس سفر میں ہمارے پہلے دشمن آبی پرندے تھے جو چٹانوں پر ہمارے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے۔ جب ہم رینگنا شروع کرتے تو وہ خوشی سے چیخنا اور چلانا شروع کردیتے تھے اور ہم پر حملہ آور ہو جاتے۔ ہم ان سے بہت چھوٹے تھے اس لئے ان کے رحم و کرم پر تھے۔

ہم میں سے جو آبی پرندوں سے بچ گئے تھے ان پر چھپکلیاں حملہ آور ہو گئی تھیں۔ انہوں نے اپنی زہریلی زبانوں سے ہمیں چاٹنا شروع کر دیا تھا وہ ہم سے اتنی بڑی تھیں کہ ہم ان کے آگے مجبور و بے بس تھے۔ وہ ہم میں سے بہت سوں کو زندہ کھا گئی تھیں۔

ہم میں سے جو پرندوں اور چھپکلیوں سے بچ گئے تھے وہ کیکڑوں کی زد میں آ گئے تھے۔ اگر چہ ان کی شکلیں گھناؤنی تھیں لیکن ہم پھر بھی ان سے دست و گریباں ہو گئے تھے کیونکہ وہ اتنے طاقتور نہ تھے۔ ان کے ساتھ ہماری رسہ کشی کافی دیر تک جاری رہی۔ وہ ہمیں پانی سے دور کھینچتے اور ہم نے انہیں سمندر کی طرف کھینچنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔ کبھی وہ چند لمحوں کے لئے کامیاب ہوتے لیکن پھر تھک جاتے اور کبھی ہم چند لمحوں کے لئے کامیاب ہوتے اور پھر تھک جاتے۔

اگر چہ اس جدوجہد میں ہمت ہار جانا آسان تھا لیکن ہمیں اپنی استقامت کا پاس تھا جو دنیا بھر میں مشہور تھی۔ ہمیں اندازہ تھا کہ لوک کہانیاں میں جب ہمارا مقابلہ خرگوشوں سے ہوا تھا تو خرگوش تیز رفتار ہونے کے باوجود ہار گئے تھے اور ہم اپنی سست روی کے باوجود دوڑ جیت گئے تھے۔ کیکڑوں کے ساتھ ہماری جنگ طویل جنگ تھی۔ بعض محاذوں پر ہم ہار گئے تھے اور بعض محاذوں پر ہم جیت گئے تھے۔ بعض دفعہ ہم نے ایک دشمن کو ہرا دیا تھا لیکن دوسرے دشمن کی زد میں آ گئے تھے۔ ہمارا سب سے بڑا دفاع ہماری تعداد تھی۔ ہم اتنے زیادہ تھے کہ مٹھی بھر انسان، پرندے، چھپکلیاں اور کیکڑے مل کر بھی ہمیں ختم نہ کرسکے تھے۔

ہم میں سے بعض چند گز کا فاصلہ طے کر کے پانی کے اتنے قریب آ گئے تھے کہ انہیں سمندر کی لہر اپنی طرف آتی دکھائی دی تھی اور وہ چند لمحوں کے بعد منزل سے ہم آغوش ہو جاتے کہ عین اسی لمحے کسی پرندے نے اپنے پنجوں سے انہیں اچک لیا تھا۔

اور منزل کا سہانا خواب پل بھر میں ڈراؤنا خواب بن گیا تھا۔ ایسی صورت میں ہم اپنے ستاروں کو دوش نہ دیتے تو اور کیا کرتے۔ ہم میں سے جو خوش قسمت تھے وہ پرندوں کے پنجوں سے پھسل گئے اور سمندر سے خود ہی آگے بڑھ کر گلے مل گئے۔

ہم میں سے چند ایک اتنے بدقسمت تھے کہ جب ہماری بھاری بھرکم ماؤں نے سمندر کی طرف سفر شروع کیا تو ہم ان کے جسموں تلے روندے گئے ہم وقت پر ادھر ادھر نہ ہو سکے اور مارے گئے۔

ہم میں سے جو سمندر تک پہنچ گئے انہوں نے کچھ سکھ کا سانس لیا لیکن بعض کو احساس ہوا کہ وہاں بھی ہم اتنے محفوظ نہ تھے جتنی ہمیں امید تھی۔ ہم میں سے بعض کو مچھلیوں نے نگل لیا لیکن ہم میں سے وہ جو خوش قسمت تھے اور اپنے دشمنوں کی زد سے بچ کر نکل آئے تھے وہ زندہ رہے۔

اب ہم جوان ہو گئے ہیں اور اپنی ماؤں کی روایت اور اپنی نسل کو آگے بڑھانے کے لئے دوبارہ سمندر سے چند گز کے فاصلہ پر آ گئے ہیں تاکہ ریت کھود سکیں اور انڈے دے سکیں۔

اور اس نسلوں کے سفر کو چند قدم اور آگے بڑھا سکیں اور اس دکھ سکھ بھری داستان کا نیا باب تحریر کرسکیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو سو انڈے دینے ہوں گے تاکہ ان میں سے کم از کم ایک تو جوانی کی حدود تک پہنچ سکے، چند گز کا فاصلہ طے کرسکے اور کہانی سنانے کے قابل ہو سکے۔

ہم میں سے بعض پر امید ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہمارے انسانی ہمسائے اب باشعور ہو گئے ہیں اور ہمارے دوست بن گئے ہیں۔ وہ اب ہمارے ساتھ مل جل کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے انسانی دوست اس بات کا اہتمام کریں کہ ہمارے انڈوں کو محفوظ کر لیں اور انہیں ایسی فضا میں رکھیں جہاں انڈوں سے بچے پیدا ہوں تو وہ دشمنوں کی زد میں نہ آئیں اگر ایسا ہو گیا تو ہمیں سینکڑوں انڈے دینے کی ضرورت نہ رہے گی اور ہم انسانوں کی طرح صرف ایک یا دو انڈے دے سکیں گے اور یقین رکھیں گے کہ ہمارے بچے زندہ رہیں گے اور مسکراتے ہوئے جوان ہوں گے لیکن ہم میں سے چند ایک طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ تم انسانوں کو دیکھو ان میں بھی کتنا فرق ہے۔

پہلی دنیا کے انسان تو ایک یا دو بچے پیدا کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ان کے بچے محفوظ ماحول میں جوان ہوں گے اور کامیاب زندگی گزاریں گے لیکن تیسری دنیا کی مائیں تو درجنوں بچے جنتی ہیں تاکہ ان میں سے چند ایک زندہ رہیں اور وہ چند گز کا فاصلہ طے کرسکیں جو ان کے گھروں، اسکولوں، کارخانوں اور دفتروں کے درمیان حائل ہے۔ وہ چند گز کا فاصلہ جو بعض دفعہ کئی نسلوں میں طے ہو پاتا ہے۔
مارچ 1992 ء

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دعا عظیمی کا تبصرہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کہانی کار اور قاری کے بیچ ایک عجیب سا نادیدہ رشتہ ہوتا ہے جو بے شک طالب اور مطلوب سا نہیں ہوتا مگر چند ثانیوں کے لیے دو انسانوں کو ایک نکتے پہ لا کھڑا کرتا ہے اشتراک کا گہرا احساس پیدا کرتا ہے بلکہ یہ عامل اور معمول کی طرح ہوتا ہے۔

اچھی کہانی ہمیشہ قاری کو اپنے تاثر میں لے لیتی ہے۔ قاری کا ذہن پڑھنے سے پہلے لمحاتی طور پرایک کورے کاغذ کی طرح سادہ ہوتا ہے۔ لیکن کہانی اپنے لفظوں اور خیالوں میں اس پر نیا نقشہ بناتی ہے، نیا منظر تخلیق کرتی ہے نیا جہان روشناس کراتی ہے احساس کی منازل طے کراتی ہے اور اسے اپنے ساتھ بہا کر یا اڑا کر وہاں لے جاتی ہے جہاں لکھاری کہانی لکھنے سے پہلے کھڑا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کا یہ افسانہ ادب کا عالیشان شاہکار تو ہے ہی مگر میرے لیے اہم یوں بھی ہے کہ جب میں نے اسے پڑھا تو میرے دل پہ اس نے ایسے اثر کیا کہ اشک آنکھوں سے رواں ہو گئے۔ اگلی صبح میں نے سوچا اس میں ایسا کیا تھا تو میرے پاس واضح جواب نہیں تھا سوائے اس کہ اس نے میرے دل پہ اثر کیا اور اتنا یاد رہا کہ اس کا انداز عام کہانی سے ہٹا ہوا تھا اور اپنے اندر بہت رموز سمیٹے ہوئے تھا۔ مگر میں اس وقت اس کے اصل مفہوم کو بیان کرنے کے قابل نہ تھی۔

سو اسے دوبارہ پڑھنے کی ٹھانی میں جاننا چاہتی تھی کہ کچھوے کی اس کہانی کے زیر خیال کیا ایسا تھا جس نے مجھے گہرے درد کے سمندر میں اتار دیا۔ دوبارہ پڑھنے کے بعد میں جان گئی کہ اس میں ڈاکٹر خالد سہیل نے بیک وقت کچھوے، انسان اور ہر زندہ مخلوق کے پیدا ہونے کے امکان سے جینے تک کے سفر کی دلچسپ اور جدوجہد سے عبارت مکمل داستان قلمبند کر دی ہے۔

جب میں نے اسے سمجھنے کے لیے دوسری بار پڑھا تو کہانی کی دوسری سطر نے مجھے روک لیا۔ ایک عجیب سوال تھا۔ ایک ایسا سوال جو شاید ہر زندہ شخص اپنی زندگی میں بارہا خود سے کرتا ہے۔

”کیا ہم خوش قسمت ہیں کہ ابھی زندہ ہیں یا بدقسمت کہ مرنے والوں کا سوگ منا رہے ہیں؟ ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں۔“

کیا عمدہ سوال ہے۔ اور وبا کے دنوں کے پس منظر میں جب موت کو ہر کوئی پہلے سے زیادہ قریب محسوس کر رہا ہے اور بھی با معنی۔ مگر عام حالات میں بھی یہ سوال شعور پہ بہت بار دستک دیتا ہے کہ کیا ہم خوش قسمت ہیں کہ ابھی زندہ ہیں یا بدقسمت کہ مرنے والوں کا سوگ منا رہے ہیں۔ کہانی میں اس سوال کا ایک سرا معدوم سے جڑا ہے اور دوسرا موجود سے غیب سے حاضر اور حاضر سے ناظر ہونا ہی سب سے بڑا واقعہ ہے۔ ایسے میں ہمیشہ اسد اللہ خان غالب کے شعر کا وہ مصرع یاد آ جاتا ہے جو کسی ایسے ہی سوال کا جواب دیتا ہے۔

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

اور اس کے ساتھ ہی زندگی کے دونوں رخ واضح ہو جاتے ہیں کہ زندہ ہونے کے امکان کو پا لینا جہاں ایک طرف خوش نصیبی ہے کہ جب ماں جنم دیتی ہے یا انڈوں کا اخراج ہوتا ہے تو اس میں زندگی کی امید اور نوید چھپی ہوتی ہے۔ وہ جبلت کے ہاتھوں مجبور اسے سینچتی ہے، ایک ان دیکھی قوت اس کے کان میں سرگوشی کرتی ہے اس تسلسل حیات کو برقرار رکھنے کی سرگوشی۔ اگر وہ کچھوے کی ماں ہوتی ہے تو پانی سے چند گز کے فاصلے پر اسے ریت میں دبا دیتی ہے اور زمانے سے محفوظ رہنے کی دعا کے ساتھ چھپا دیتی ہے بالکل اسی جذبے کے ساتھ جو ہر ماں کے دل کی آواز ہے چاہے کائنات کی کوئی ماں ہو۔

ماں خوش قسمتی اور بدقسمتی کے فلسفے کو سمجھنے کے باوجود جدوجہد کی مشکل کہانی کو جان لینے کے باوجود زندگی اور اپنی نوع اور وجود کے تسلسل اور جاری ساری رہنے پر یقین رکھتی ہے۔ حیران ہوں کہ کوئی آفاقی آواز اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

کبھی کبھار میرے دل میں ایک عجیب خواہش ابھرتی ہے پوری شدت کے ساتھ کہ کاش ساری دنیا کی مائیں مر جانے کے ڈر سے، نا امیدی کے فلسفے پر یقین کر کے بدقسمتی کے داغ سے روشنی پا کر انڈے دینے اور بچے پیدا کرنے سے گریز کر لیں اور پرہیز کر لیں۔ ۔ ۔ وہ ابھی تک ایسا کیوں نہیں کر سکیں میرے لیے یہ حیرت انگیز ہے۔

جب زندگی کو عدم سے وجود کا درجہ حاصل کر لینے میں اتنی دشواری ہے اور زندہ ہونے کے بعد مر جانے کے اتنے امکانات ہیں قدم قدم پر خطرات ہیں۔ زندگی کی ہر سانس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے تو مائیں بچے کیوں جنم دیتی ہیں؟

جب انسان جیسی عاقل اور باشعور مخلوق اپنی نسل کو موت اور بیماری سے محفوظ نہیں رکھ سکتی تو وہ اپنے جیسا وجود تخلیق کرنے پر راضی کیوں ہے۔ ۔ ۔ ؟ کچھوے کی ماں اور انسانی ماں کے شعور کا معیار ایک سا کیونکر ہے۔ ؟ وہ بچے جنم دینے پر قادر ہیں یا مجبور؟

پھر انسان تو وہ جانور ہے جو اپنی نوع اور دیگر انواع کو مارنے کا دن رات بندوبست کر رہا ہے۔ لیبارٹریوں میں جہاں زندگیوں کو بچانے پر دن رات کام ہو رہا ہے ایسے ہی اس کی موت کے آلے ایجاد کرنے پر زور ہے۔

کیمیائی ہتھیار، میزائل، اور نت نئے بم بنانے کی دوڑ جاری ہے۔ دنیا کو کس طرح زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم وقت میں نیست و نابود کیا جا سکتا ہے اس پہ ہر ملک کتنے وسائل خرچ کر رہا ہے اگر ان وسائل کو زندگی کے لیے استعمال کیا جائے تو پوری دنیا میں ایک بچہ بھی بیماری اور غذا کی قلت سے نہ مرے۔

ہر ماں کی طرح ایک ماں ہونے کے ناتے دنیا کا یہ رویہ دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے مگر سب ہمدرد انسانوں کی طرح مجھے بھی بہت سے دکھوں کی زنبیل میں ایک یہ دکھ بھی اپنے دکھوں کے تھیلے میں ڈال کر موت کی طرف سفر کرنا ہے۔

کبھی کبھار کوئی ایک مصرع، ایک جملہ، ایک سوال کسی بھی انسان کی سوچ کو کس طرح ہلا جلا دیتا ہے جیسے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر پھینکنے سے ارتعاش۔ ۔ ۔ کبھی تو یہ ارتعاش کنول کے پھول کے تھرکنے سے پیدا ہونے والے ارتعاش کی طرح لطیف ہوتا ہے اور کبھی کسی سرجن کے اوزار کی نوک کی طرح کہ زیر جلد جمع شدہ دکھ کی کثافت بہہ نکلے، کبھی یہ بھونچال بن کے زیر زمین تمام خزانوں کی تہوں کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ کبھی یہ آتش فشاں کے لاوے کی طرح ارد گرد کی ساری جگہوں کو آتشیں اور شعلہ زار بنا دینے کی صلاحیت سے مالامال۔

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

افسانے کا ایک اور جملہ بھی ایسا ہی آتشیں ہے۔
”اگر وہ مڑ کے دیکھتے تو انہیں ہماری ماؤں کی آنکھوں میں آنسو نظر آتے“

اس ایک جملے میں ساری دنیا کی ماؤں کی آنکھوں کا ذکر ہے جو اپنی اپنی اولاد کے لیے ہمیشہ دعا بھری آنسوؤں سے بھری رہتی ہیں۔ اور فطرت کی کشمکش سے بے نیاز ہمیشہ بہتی رہتی ہیں، ان میں درد اور دعا دونوں چھلکتے ہیں۔ ۔ ۔ وہ پوچھتی ہیں کہ حفاظت کرنے والا کہاں ہے۔ ۔ ۔ میں آکھاں وارث شاہ نوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ کشمیر کی ماں ہو یا افریقہ کے قحط زدہ علاقے کی ماں وہ پہاڑ میں بسنے والی ہو یا تھر میں پانی کی کمی کا شکار اس کی آنکھ کا جھرنا کبھی نہیں سوکھتا۔

اسی دوران ایک اور جملے نے مجھے مسکرانے پر مجبور کر دیا

”بہت سی انسانی مائیں بچوں کو وہ انڈے کھلائیں گی تاکہ بچے صحت مند ہوں، لیکن بعض مرد انہیں یہ سوچ کر کچا پی جائیں گے کہ اس سے ان کی شہوانی طاقت میں اضافہ ہو گا۔“ ۔ ۔ ۔ آگے گرہ لگاتے ہیں کہ۔ ۔ ۔

شہوانی طاقت میں اضافہ ہے یا خوش خیالی ہمیں کیا معلوم! مردوں کے رویے اور نفسیات پر ایک مرد ادیب کی طرف سے لکھا ہوا یہ لطیف طنزیہ جملہ ہر ایک کو مسکرانے پہ مجبور کر دے گا۔ دکھ بھری بات کے بعد مسکرا نا یا مسکرانے کا موقع تلاش کرنا تو انسانی فطرت ہے۔

”وہ چند گز کا فاصلہ طے کرنا چاہتے تھے“

اگر غور کیا جائے تو یہ اجتماعی کائناتی ارتقاء اور حیاتیاتی دائرے کی کہانی ہے۔ ہر ذرے کی کہانی جو یم بہ یم موج در موج سفر میں ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل سہل زبان میں بڑا پیغام آسانی سے قاری تک پہنچا دیتے ہیں۔ وہ اپنی قاری کو پیچ در پیچ تہہ در تہہ نفسیات یا فلسفے کے صحرا میں اکیلا نہیں چھوڑتے۔ کچھ جملوں میں بڑی سہولت سے لوک کہانیوں میں خرگوش کا ذکر کرتے ہوئے وہ اس راز سے پردہ ہٹا دیتے ہیں کہ مشاہدے میں کچھوے کا ذکر ہے۔ یہ داستان حیات بظاہر ایک کچھوے کی ہے۔ کیونکہ میرا جیسا سادہ لوح قاری کئی بار پہیلیاں نہیں بوجھ سکتا اور پریشان رہتا ہے کہ آیا اس کا مطلب یہ ہی ہے یا کچھ اور۔ جیسا کہ کچھ معزز ادیبوں کی کہانیوں کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مفہوم جان لینا قاری کی صوابدید پر ہے۔

کہانی کا نکتہ عروج ”لیکن تیسری دنیا کی مائیں تو درجنوں بچے جنتی ہیں تاکہ ان میں سے چند ایک زندہ رہیں اور وہ چند گز کا فاصلہ طے کر سکیں جو ان کے گھروں، سکولوں، کارخانوں اور دفتروں کے درمیان حائل ہے، وہ چند گز کا فاصلہ جو بعض دفعہ کئی نسلوں میں طے ہوتا ہے۔“ اس جملے میں در پردہ درد کی گہری داستان ہے۔ شعور حاصل کر لینے کے بعد ڈاکٹر خالد سہیل تیسری دنیا کی ماؤں اور بچوں کے لیے خوشحالی کا خواب امید اور دعا کا دیا جلاتے ہیں۔ اور کچھوے کی ماں اور دیگر ماؤں اور بچوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد سہیل کرب کا ذکر کرتے ہیں جو ایک درد مند انسان ان تمام انسانوں کے لیے محسوس کرتا ہے جو خصوصاً تیسری دنیا میں طب اور تعلیمی سہولتوں کے فقدان کا شکار ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل نے اس افسانے کا سہارا لے کر ہر ایسی زندگی کی داستان کہہ ڈالی ہے جو کرہ ارض پر بس رہی ہے۔

افسانہ مارچ انیس سو بانوے میں منظر عام پر آیا جبکہ میں خود پہلی اولاد کی ماں جولائی انیس سو بانوے میں بنی گویا افسانے کی عمر میرے بیٹے کی عمر جتنی ہے۔ حیرت انگیز مماثلت نے مجھے افسانے سے اور بھی قریب کر دیا اگر تخلیق کے اس سفر میں ماں نہ بنتی تو شاید کسی ماں کے دکھ کو اس طرح نہ سمجھ پاتی لیکن ڈاکٹر خالد سہیل ماں نہ ہوتے ہوئے بھی تخلیق کے کرب سے گزرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور درد کے سمندر سے تخلیق کے موتی سمیٹ کر قاری کے دامن کو احساس سے مالا مال کر دیتے ہیں۔
دعا عظیمی

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments