میں نے پھر سے ”اسے“ کیسے مانا


میں نے، گزشتہ دنوں اپنے ساتھ پیش آنے والے کچھ ناقابل توجیہہ اور کچھ قابل توجیہہ حیران کن واقعات کا ذکر کیا تھا۔ جن میں ایک سانحے کے بعد میری مرحومہ والدہ کی طرف سے مجھے میری زندگی برقرار رہنے کی نوید دیے جانے کا ذکر بھی تھا۔ اس حادثے یا قاتلانہ حملے میں جہاں میری کھوپڑی کئی جگہ سے ”فریکچر“ ہوئی وہاں بعد میں شدید لقوہ بھی ہوا جس کے اثرات آج بھی باقی ہیں جیسے کہ میری ایک آنکھ دوسری کے مقابلے میں چھوٹی پڑ گئی اور دماغ سے عارضی طور پر انگریزی زبان یکسر محو ہو گئی تھی۔

اس واقعے کو پڑھنے کے بعد کچھ لوگوں نے سوال کیا کہ ”روح“ کے بارے میں بتائیں۔ روح عربی کے لفظ ”ریاح“ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ”ہوا“ مگر ماہرین نے اسے شعور کی اعلٰی شکل قرار دیا ہے جو وقت اور مقام سے آزاد ہے۔ شعور ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہتا ہے۔ جس طرح وقت اور مقام اس کے اظہار کے آلے ہیں اسی طرح ”جسم“ بھی اس کے ہونے کا ایک ثبوت ہے۔

چھوڑیے یہ ایک لمبی اور متنازعہ بحث ہے آج دراصل میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس حادثے کے بعد میری سوچ میں کیا تبدیلیاں آئیں۔ جیسا کہ میں پہلے کہیں بتایا تھا کہ اس واقعے کے بعد میں نے ایک تو پیرا سائیکالوجی کو پڑھا تھا دوسرے علم الکائنات یعنی کوسمولوجی میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ میں امریکہ چلا گیا تھا۔ کام کوئی نہیں تھا۔ وہاں ایک سال رہنا پڑا تھا چنانچہ میں انٹرنیٹ پر کاسمولوجی سے متعلق مواد پڑھتا رہتا تھا۔ ایک روز ایک اطلاع تھی کہ کوئی نئی کہکشاں دریافت ہوئی ہے۔ تفصیل میں لکھا تھا کہ جس سائنسدان نے یہ کہکشاں دریافت کی اس نے کہا، ”مجھے اس کہکشاں کا نور دیکھ کر یوں لگا جیسے میں نے خدا دیکھ لیا ہے“ ۔ میں نے کلک کیا تو تصویر سامنے آ گئی۔

اس ”تنویر“ کو دیکھ کر میرے ذہن میں ثانیے کے ہزارویں حصے میں پہلے سوال اٹھا کہ ”کمپیوٹر کیا ہے؟“ ساتھ ہی دوسرا سوال کہ ”چپ Chip کیا ہے؟“ اور تیسرا سوال، ”سیلیکون کیا ہے؟“ یہ سوال ثانیے کے شاید کئی ہزارویں حصے میں یک لخت نہیں بلکہ یکے بعد دیگرے ذہن میں آئے، پھر میرے ذہن میں ایک جھماکا ہوا جیسے میں نے ”اسے“ پا لیا ہے۔

مجھے لگا کہ یہاں پہ، وہاں پہ، کہیں پہ، جہاں پہ بھی ایک بہت ہی بڑا کمپیوٹر ہے۔ تمام نامیاتی مادے جن میں چرند پرند، کیڑے مکوڑے، نباتات، جانور، حیوان، انسان اور سب کچھ جس میں Consciousness یعنی Conscious کے ہونے کی کوئی بھی رمق ہے وہ برقی لہروں کی شکل میں ہے۔ ایسا کیوں سوچا؟ بحیثیت ڈاکٹر کے مجھے معلوم ہے کہ ECG اور EEG برقی لہروں کے میزانیے ہیں جو ہم دل اور دماغ کے افعال کو آنکنے کے لیے ماپتے ہیں۔ حرارت عریزی بھی توانائی کی شکل ہے، البتہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی کھلونا یا مشین یا روبوٹ ایسا نہیں ہے جو مثال کے طور پر 004 وولٹ جتنی کم توانائی سے چل سکتے ہوں ماسوائے جانداروں کے بشمول انسان کے۔ جب یہ نامیاتی مادے غیر نامیاتی مادوں میں بدل جاتے ہیں یعنی ان کی کسی نہ کسی طور پر موت واقع ہو جاتی ہے تو ان کی یہ توانائی جس کا اصل Conscious ہے اس سے جدا ہو کر اس ”پول“ میں جا جمع ہوتی ہے جسے اگر آپ خدا یا الوہ نہ بھی کہنا چاہیں تو ”اجتماع شعور“ یعنی Total Consciousness کہہ لیں۔

عبادت کیا ہوتی ہے اسی Total Consciousness کے ساتھ رابطے کا طریقہ، چنانچہ مجھے چونکہ مسلمانوں والی عبادت ہی آتی تھی اس لیے میں نے گاہے بگاہے ذکر کرنا شروع کر دیا تھا۔ اب تمام فرض عبادات کو مقدم جانتا ہوں۔

نوٹ: یاد رہے ماہرین نفسیات کے مطابق سر پر چوٹ لگنے سے انسان روحانیات کی جانب مائل ہو سکتا ہے تو کسی انسان دشمن کے ہاتھوں لگی چوٹ نے مجھے پھر سے ”اس“ کے ساتھ ملا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments