چینی ٹی وی پروگرام اور فلمیں


آج کل اگر آپ چینی بولنے کی مشق کر رہے ہیں، تو چینی دوست آپ کو پانچ ٹی وی پروگرامز دیکھنے کا مشورہ دیں گے جن کے چینی ناموں کا ترجمہ کچھ یوں ہے : اپارٹمنٹ، بھاگتے رہو، غیر رسمی گفتگو، موتی شہزادی اور ابدی محبت۔ اس وقت چین کی ٹیلی ویژن انڈسٹری میں ہائی ٹیک پروگرام پروڈکشن، ٹرانسمیشن اور کوریج شامل ہے۔ چائنا سنٹرل ٹیلی ویژن چین کا سب سے بڑا اور طاقتورقومی ٹیلی ویژن ہے۔ 1987 ء میں جب ہم چین میں تھے تو چین کی دو تہائی آبادی کی ٹی وی تک رسائی تھی۔ آج چین کے لوگوں کو تین ہزار سے زیادہ چینلز میسر ہیں۔

ہم نے جب 1985۔ 86 ء میں بیجنگ میں ٹی وی دیکھنا شروع کیا تو ہمیں ٹی وی کے پروگرام بہت دلچسپ لگے۔ ان میں غیر ملکی فلمیں اور دیگر ٹی وی پروگرامز بھی شامل تھے لیکن یہ سب چینی زبان میں ڈب کر کے دکھائے جاتے تھے۔ تعلیمی پروگراموں کو بہت وقت دیا جاتا تھا۔ تفریحی پروگراموں میں وائلڈ لائف، اسپورٹس، اسکیٹنگ ڈانس، ڈرامے اور فلمیں شامل تھیں۔ شروع میں چین کا روایتی اوپیرا ڈانس بہت زیادہ دکھایا جاتا تھالیکن چند ماہ بعد چین کی آزادی کی جدوجہد اور جدید موضوعات پر مبنی پروگرامز زیادہ دکھائے جانے لگے۔ بچوں کے پروگرامز بھی بہت خوبصورت ہوتے تھے۔

چین میں ٹیلی ویژن کی نشریات کا آغاز 1958 ء میں ہوا اور رنگین ٹیلی ویژن کی نشریات مئی 1973 ء میں شروع کی گئیں۔ تمام صوبوں، میونسپلٹیوں اور خود مختار علاقوں میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم کیے گئے۔ تبت اور سنکیانگ کے علاوہ ملک کے تمام حصوں میں چائنیز سنٹرل ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کے پروگرامز دیکھے جا سکتے تھے۔ 1982 ء کے اواخر تک چین میں ٹیلی ویژن سیٹس کی تعداد ایک کروڑ ستر لاکھ سے زیادہ تھی۔ 1972 ء میں بیجنگ میں ایک زمینی سیٹلائٹ اسٹیشن قائم کیا گیا تھاجس کے ذریعے اندرون ملک اور بیرون ملک سے پروگرام بھیجے اور وصول کیے جاتے تھے۔ سی سی ٹی وی تیس سے زیادہ بیرونی ملکوں اور علاقوں کے ٹیلی ویژن اداروں سے فلموں کا تبادلہ کرتا تھا۔

ہمارے چین میں قیام کے ابتدائی سالوں میں پاکستانی اور چینی ٹی وی کے اشتراک سے دو ٹی وی فلمیں بھی بن رہی تھیں۔ اس سلسلے میں چند ماہ قبل تاج حیدرٹی وی کے دوسرے لوگوں کے ساتھ چین آئے تھے لیکن ہماری ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ مارچ 1986 ء میں احفاظ کے کولیگ چو چھی تنگ ان ہی فلموں کی تیاری کے سلسلے میں پاکستان آئے تھے۔

اس پر یاد آیا کہ بیجنگ ریڈیو امجد اسلام امجد کے ڈرامے ”وارث“ کا چینی زبان میں ترجمہ کر رہا تھا۔ ترجموں کی بات چلی تو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس وقت تک بیجنگ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے دو صاحبان شوکت صدیقی کی ’خدا کی بستی‘ کا چینی زبان میں ترجمہ کر چکے تھے۔ 1986 ء میں وہ رضیہ فصیح کے ناول ’آبلہ پا‘ کا ترجمہ کر رہے تھے۔ یونیورسٹی کی مادام شان یونگ کرشن چندر کے ناول ’غدار‘ کا ترجمہ مکمل کر چکی تھیں۔

یوں اردو ادب چینی عوام تک پہنچ رہا تھا۔ ویسے تب چینی عوام پاکستانی فلمیں اور گانے بہت پسند کرتے تھے۔ ایک چینی گلو کارہ کے گائے ہوئے دو پاکستانی گیت وہاں بہت مقبول تھے۔ ایک تو ”بول ری گڑیا بول“ اور دوسرا مادام نور جہاں کا مقبول گانا ”رم جھم رم جھم پڑے پھوار“ تھا۔ اکثر سینما گھروں پر بابرہ شریف، محمد علی اور فیصل کے پوسٹر دکھائی دیتے تھے۔

اب تو خیر زمانہ بدل گیا ہے۔ اب تو چین میں عامر خان کی دنگل مقبولیت کے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ 2019۔ 20 ء میں چینیوں کی اپنی مقبول فلموں میں بیس مارچ 2020 ء کو ریلیز ہونے والی ”دی وائلڈ گوز“ نامی فلم بھی شامل ہے جو ایک گینگسٹر اور ایک طوائف کی کہانی ہے۔ دونوں ملتے ہیں تو ایک اسٹائلش کرائم رومانس جنم لیتا ہے لیکن اس میں کچھ انتہائی تشدد آمیز مناظر بھی شامل ہیں۔ بہر حال ہم تو 1986 ء کی بات کریں گے۔ اس وقت بھی ’سپر مین‘ اور ’فرسٹ بلڈ‘ جیسی فلمیں دکھائی جانے لگی تھیں۔

اسی زمانے میں ”گولڈن ڈریم“ کے نام سے ایک چینی فلم نمائش کے لئے پیش کی گئی تھی۔ اڑتالیس سالہ چینی اداکارہ زہاؤ نے ا س میں ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ایک سین میں وہ اپنے ڈانسنگ پارٹنر سے کہتی ہیں، ”مجھے رقص سے محبت ہے، مجھے اپنے شوہر سے بھی محبت ہے۔ میں دونوں کے بغیر نہیں رہ سکتی“ ۔ ناقدین کے خیال میں اس وقت بیشتر چینی گھرانوں کو جن مسائل کا سامنا تھا۔ اس فلم میں ان کی حقیقی تصویر کشی کی گئی تھی۔

اس فلم میں ایک ہنستے بستے گھرانے کی کہانی پیش کی گئی تھی۔ شوہر موسیقار ہے اور اپنے شعبے میں خاصا کامیاب ہے۔ اس کی بیوی رقص و سنگیت کے ایک طائفے کی سابقہ رقاصہ ہے اور اب ایک بینک میں کام کر رہی ہے۔ ان کی ایک پانچ سالہ پیاری سی بیٹی ہے۔

خاندان کا سکون اس وقت درہم برہم ہو جاتا ہے جب خبر ملتی ہے کہ وہ ثقافتی طائفہ پھر سے تشکیل پا رہا ہے۔ بیوی جا کے آڈیشن دیتی ہے اور اسے لے لیا جاتا ہے۔ اس کا شوہر بیوی کی بدلی ہوئی شخصیت کو دیکھ کر ہکا بکا رہ جاتا ہے اور بیوی کی کامیابی کو ذہنی طور پر تسلیم نہیں کر پاتا۔ میاں بیوی میں جھگڑے ہونے لگتے ہیں اور میاں گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

اپنے ذاتی دکھوں کو پس پشت ڈال کر بیوی اپنے کام میں مصروف رہتی ہے اور ایک کے بعد دوسری کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔ بالآخر شوہر اس کی قابلیت اور صلاحیتوں کا اعتراف کر لیتا ہے۔ آخر میں دونوں کی ایک کیفے میں ملاقات ہوتی ہے اور وہ آمنے سامنے بیٹھ کر آنسو بھری آنکھوں سے خاموشی کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ اس فلم کے حوالے سے اداکارہ زہاؤ کا کہنا تھا کہ وہ معاشرے کی توجہ عورت کے مقام کی طرف دلانا چاہتی تھیں۔ ”لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرد کے لئے کوئی کام کرنا یا پیشہ اپنانا تو لازمی سی بات ہے لیکن اگر عورت اپنی پسند کا کام کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے شوہر یا لوگوں کی مخالفت کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ یہ نا انصافی ہے۔“

اس زمانے میں چین میں سپر ویمن یا اسٹرانگ ویمن کی اصطلاح ان ساری خواتین کے لئے استعمال ہوتی تھی جو بہت سے کارنامے انجام دینا چاہتی تھیں۔ زہاؤ کا کہنا تھا کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتی تھیں کہ سپر ویمن اس قدر غیر حقیقی چیز نہیں ہے جتنا کہ لوگ سمجھتے ہیں۔ عورت اپنے کام کے لئے بے حد جوش و جذبہ رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کی بھی خواہشمند ہوتی ہے۔

قارئین! گولڈن ڈریم کے موضوع پر ان ہی دنوں برطانیہ میں بھی ایک فلم ”ریڈ شوز“ بنی تھی۔ اس کی ہیروئن میگی ایک ماہر بیلے رقاصہ تھی۔ فلم کے اختتامی منظر میں وہ بالکونی سے کود کر خودکشی کر لیتی ہے کیونکہ محبت اور کیرئیر کے درمیان ہونے والی جنگ نے اس کے وجود کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔

1986 ء کے اوائل میں بیجنگ میں جاپانی فلمی میلہ منعقد کیا گیاجس میں دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والی چالیس فلمیں دکھائی گئیں۔ میلے کے آغاز میں جو فلم دکھائی گئی، اس کا نام ”ٹویلائٹ زون“ تھا جو بڑھاپے کے مسائل پر بنائی گئی تھی اور ناظرین نے اسے بے حد سراہا۔ ان ہی دنوں بیجنگ میں تھائی فلمی ہفتہ بھی منایا گیاجو دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی دسویں سالگرہ کی تقریبات کا حصہ تھا۔

چین کے بیجنگ اوپیرا میں نسوانی کردار ادا کرنے والے چار مرد بہت مشہور ہوئے۔ ان میں سے ایک زون ہوئی شینگ تھا۔ ثقافتی انقلاب کے دوران وہ کرب اور تنہائی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اتنے سال گزرنے کے بعد اب بھی لوگ اس کا نام عزت سے لیتے تھے۔ ہمارے قیام کے ابتدائی مہینوں میں اس کی یاد میں ایک پانچ روزہ تھیٹریکل فیسٹیول منعقد کیا گیا اور اس کے مشہور کھیل پیش کیے گئے۔ ان دنوں چین کے صدیوں پرانے پرفارمنگ آرٹس کو نئی زندگی عطا کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ بیجنگ اوپیرا فیسٹول منعقد کیے جا رہے تھے کیونکہ اب چینی عوام ان روایتی چیزوں کی بجائے ٹیلی ویژن پروگرامز، پاپ میوزک اور ڈسکو ڈانس میں زیادہ دلچسپی لینے لگے تھے۔

اس سیریز کے دیگر حصےچینی من بھاتا نہیں صحت بھاتا کھاتے ہیںچین میں شادیاں اور بڑھاپے میں طلاقیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments