وزیر اعظم عمران خان کو اٹھارہویں ترمیم سے بیر کیوں ہے؟


کچھ دن پہلے ہی کپتان نے کراچی میں اٹھارہویں ترمیم کے خلاف دل کی بھڑاس یہ کہہ کر نکالی تھی کہ اٹھارہویں ترمیم نے وزیر اعلیٰ کو اتنے اختیارات تفویض کر دیے ہیں کہ وہ ڈکٹیٹر بن گئے ہیں۔ یہ الفاظ بولتے وقت اگر کوئی ہمدردی سے خان صاحب کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ دیتا تو شاید ان کی آنکھیں چھلک پڑتیں مگر کیا یہ کہنا کہ وزیراعلی ڈکٹیٹر بن گئے ہیں اپنی کمزوری اپنی بے بسی اپنی بے چارگی کا اظہار نہیں تھا۔

وزیراعظم عمران خان اٹھارہویں ترمیم سے خفا ہیں ان کی خفگی کی وجہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بجٹ کی تو ابتدا ہی خسارے سے ہوتی ہے تو سمجھ میں آجاتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ صوبے ستاون فیصد لے جاتے ہیں جبکہ وفاق کے پاس صرف تینتالیس فیصد رہ جاتا ہے، وہ یہ کس کے لیے کہہ رہے ہیں، اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق کے زیادہ تر محکمے صوبوں کے پاس جا چکے ہیں، پانی و بجلی، قدرتی گیس کا محکمہ اور ریلوے بھی صوبوں کو منتقل ہونے ہیں بلکہ اب تک منتقل ہو جانے چاہئیں تھے، مگر ابھی تک وفاق اپنے پاس رکھ کے بیٹھا ہے، جب وفاق کو سارے وسائل صوبوں سے حاصل ہوتے ہیں تو آخر وہ وسائل صوبوں کو واپس ملنے میں کیا قباحت ہے آخر کیوں اتنی بے چینی و بے قراری ہے کہ اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی میں تبدیلی ہونی چاہیے۔

وفاق کی اکائیاں صوبائی خودمختاری ملنے سے مضبوط ہوئی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وفاق کی وحدانیت مضبوط ہوئی ہے مگر نجانے کیوں وزیراعظم صاحب جو خود اپوزیشن میں تھے تو اٹھارہویں ترمیم کی افادیت اور فوائد گنواتے نہیں تھکتے تھے آج ہاتھ دھو کر اٹھارہویں ترمیم کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی غم کچوکے لگاتا ہے کہ کورونا وائرس کے معاملے پہ پوری قوم سمیت دنیا نے سندھ کی پذیرائی کیوں کی، یہاں بھی بجائے کارکردگی دکھانے کے وہ نہ صرف اپنے ترجمان طوطوں کی پوری بٹالین سمیت سندھ حکومت پہ ٹوٹ پڑتے بلکہ اس کا ملبہ بھی اٹھارہویں ترمیم پہ لاد دیتے ہیں۔

پھر وہ حملہ کرتے ہیں این ایف سی ایوارڈ پہ جبکہ خود دسواں این ایف سی ایوارڈ غیر آئینی طور اناؤنس کر کے اسے متنازعہ بنا چکے ہیں، جبکہ بجٹ 2020۔ 21 بھی ساتویں این ایف سی کے تحت ہی بنایا گیا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ پہ سندھ حکومت ایک خط کے ذریعے اپنے خدشات کا اظہار کر کے اسے مسترد کر چکی ہے اور آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت نئے نوٹیفکیشن کے اجرا کا مطالبہ بھی کر چکی ہے۔

وزیراعظم عمران خان جانتے ہیں کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کو تبدیل نہیں کر سکتے اس لیے انہوں نے ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو انتقامی احتساب کے جال میں جکڑنا شروع کر دیا اور وہ سب حربے استعمال کیے جو عام طور پر پاکستان کی سیاست میں استعمال کیے جاتے ہیں مگر اس بار چونکہ تبدیلی آ چکی تھی اس لیے حربوں میں بھی تبدیلی آ گئی اب اقتدار اور اختیار کو بے دریغ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ غیر منتخب کٹھ پتلی طوطے بھی راگ الاپنے اور گالم گلوچ کے لیے مخالفین پہ چھوڑ دیے تاکہ کسی نہ کسی طرح اپوزیشن کو بلیک میل کر کے اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی میں تبدیلی پہ راضی کیا جا سکے۔

مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کو سزائیں دلوا کر نا اہل کیا جا چکا، جبکہ باقی بچ جانے والے آئے دن نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں، پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پہ منی لانڈرنگ، بے نامی اکاؤنٹس سمیت مختلف مقدمات میں الجھا کر اور انہیں ذہنی اور جسمانی اذیت سے دوچار کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے انہیں اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی میں تبدیلی کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن حکومت کو تاحال اپوزیشن کے شدید ردعمل اور مزاحمت کا سامنا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو اٹھارہویں ترمیم سے اچانک اتنا بیر کیوں پیدا ہوا یہ سمجھ سے بالاتر ہے شاید انہیں آئین سے آمر ضیاء الحق کا نام ہمیشہ کے لیے نکالنا پسند نہیں آیا کہ جنہوں نے 73 کے آئین میں بدنام زمانہ 8 ویں آئینی ترمیم کر کے آئین پاکستان کو فرد واحد کے اشاروں کے طابع کر دیا تھا، اسی آٹھویں ترمیم کی وجہ سے آئین کے نوے کے قریب آرٹیکلز تقریباً غیر موثر ہو کر رہ گئے تھے اور 1973 کا اسلامی، جمہوری متفقہ آئین اپنی افادیت کھو چکا تھا، یا پھر خان صاحب کو جنرل پرویز مشرف کی جانب سے کی گئی سترویں آئینی ترمیم کے خاتمے کا قلق تھا جس کی وجہ سے 1973 کے آئین کے 83 آرٹیکلز میں ایک سؤ کے لگ بھگ تبدیلیاں کی گئیں جس سے آئین کی اصل روح مکمل طور پر ختم ہو کر رہ گئی تھی جو پھر اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے مکمل طور پر بحال کی گئیں۔

یا پھر خان صاحب کو یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 6 میں ذیلی شق 6 ( 2 ) کا اضافہ کر کے آئین توڑنے والے کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دے کر اس کی سزا میں معافی کا راستہ روک دیا گیا، یا پھر انہیں یہ تکلیف بے چین کیے دیتی رہی کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کے حصے کو ساڑھے ستاون فیصد اور مرکز کے ساڑھے بیالیس فیصد کر دیا گیا۔

اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم آبادی کے تناسب کے علاوہ صوبوں سے حاصل ہونے والے محاصل، قدرتی وسائل اور غربت کے حساب سے تقسیم کرنے کا فارمولا طے پایا جس کی وجہ سے سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان اور دیگر چھوٹے صوبوں کو ہوا جبکہ پنجاب نے بڑے بھائی ہونے کے ناتے اس فارمولے کو دل سے قبول کر کے اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ملک کے دونوں مقتدر ایوانوں سے دو تہائی سے زائد اکثریت سے منظور ہونے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

وزیراعظم عمران خان صاحب کی جانب سے وزیراعلی کو ڈکٹیٹر کا خطاب دینے پہ سپریم کورٹ نے بھی تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم کے ریمارکس پہ سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا لیکن ہمارے وزیراعظم کی اب یہ عادت بن چکی ہے کہ وہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ ریمارکس دے کر خود پہ تنقید کے دروازے خود ہی کھول دیتے ہیں، اس طرح کے ریمارکس وزیراعظم صاحب کے متزلزل ہوتے اعتماد، گھبراہٹ اور سیاسی عدم تحفظ کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ایک حقیقی منتخب عوامی جمہوری وزیراعظم مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنی گفتگو اپنے انداز سیاست سے اپنی کمزوریوں اور مشکلات کا احساس تک نہیں ہونے دیتا بلکہ اپنے عزم و حوصلے، اپنی دانش و فراست اور عوامی اقدامات سے اپنے خلاف ہونے والی نہ صرف سازشوں کا مقابلہ کرتا ہے بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کو سیاسی میدان میں پچھاڑنے کی تدابیر اختیار کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو وزراء اعلیٰ کو ڈکٹیٹر کہنے کے بجائے اپنی طرز حکمرانی اور اپنے انداز گفتگو اور سیاست پہ نظر ثانی کرنی چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments