پانچ منٹ میں کالم نگار بنئے


اگر آپ کے پاس دو آنکھیں، دو کان، ایک ناک اورایک عدد قلم ہے تو مبارک ہو۔ آپ کالم نگار بن سکتے ہیں۔ اس نفسا نفسی کے عالم میں جب ہر کسی کو اپنی پڑی ہے۔ وہاں ہمیں بھی اپنی پڑی ہے۔ معاف فرمائیے گا، کہنے کا مطلب ہے کہ وہاں ہمارے جیسے چند لوگوں کی وجہ سے ہی یہ دنیا چل رہی ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ ہمارے ادارے ”ادارہ سارے علوم“ نے ان گنت مختصر مدتی کورسز کا اجرا کرکے قوم کو کم وقت میں عالم فاضل بنانے کا بیڑا اٹھا لیاہے۔

وہ آپ نے کسی ستم ظریف سے سنا تو ہوگا کہ ایک انگریز لاہور لاری اڈے پہ بے ہوش ہو کے گر گیا تھا۔ دراصل اس نے بھی ہماری مشہور زمانہ کتاب ”پندرہ دن میں ڈاکٹر بنئے“ دیکھ لی تھی۔ آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر وہ کم نصیب ہماری دیگر مطبوعات ”اپنا پاسپورٹ اور ویزہ خود بنائیے“ ، ”گھر کے کچرے سے ٹائی ٹینک بنائیے“، ”خربوزے سے کینسر کا علاج“ اور ”اپنی یونین کونسل کے وزیر اعظم بنئے“ دیکھ لیتا تو اس کا کیا حشر ہوتا؟

بہر حال، اس تمام مغز ماری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ کتابچہ جو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے سرورق پہ ”خط سرکوزی“ میں یہ جو بڑا بڑا لکھا ہے کہ ”پانچ منٹ میں کالم نگار بنئے“ ۔ تو ہم اسی سلسلے میں حاضر ہوئے ہیں۔ اس کتابچے میں ہم آپ کو ”دروازہ توڑ“ کالم نگار بننے کے گر بتائیں گے۔ یوں تو اس کتابچے کی قیمت مبلغ پچاس روپے ہے لیکن فی الوقت ہمیں اپنے ادارے کی تشہیر مقصود ہے۔ اس لیے آپ کے لیے اس کی قیمت ہے۔ دس روپے۔

دس روپے۔ دس روپے۔ جس جس بھائی کو چاہیے وہ آواز کرا کے خرید سکتا ہے۔ افوہ! ایک دفعہ پھر معاف کیجئے گا۔ دراصل ہمیں بسوں میں پھکی بیچنے والی عادت سے ابھی مکمل چھٹکارا نصیب نہیں ہوا۔ اور ہاں، یہاں پہ ایک ضمنی بات بھی کرتا چلوں۔ اگر آپ کو بھی میری طرح کسی کی یاد کے دورے پڑتے ہیں تو ”ادارہ سارے علوم“ کی ”محبوب فراموشی کے 101 ٹوٹکے“ آزمائیے۔ آرام نہ آیا تو کتاب واپس۔ بہرحال، باتیں تو بہت ہیں لیکن ہمیں پبلشرکا وقت اور پیسہ عزیز ہے لہٰذا دیباچہ ختم سمجھئے اور صفحہ پلٹ کر ہو جائیے شروع۔ بس آزمائش اور گرمائش شرط ہے۔ اور اگر ”خدانخواستہ“ یہ دونوں صلاحیتیں موجود ہیں تو پھر آپ کو کالم نگار بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بہبود آبادی والے بھی نہیں۔

1۔ سب سے پہلا اصول تو یہ ہے کہ کالم نگار کو کالم اور مضمون کا بنیادی فرق معلوم ہو۔ ویسے اگر معلوم نہ بھی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں۔ بس دوسروں کو اس کا علم نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے آپ کی معلومات کے لیے ہم بتائے دیتے ہیں کہ کالم، کالم ہوتا ہے اور مضمون، مضمون۔ بس اتنا سا فرق ہے۔

2۔ اگر آپ پہلے اصول کو سمجھ گئے ہیں تو ایک دفعہ پھر مبارک ہو۔ آپ کے کالم نگار بننے میں صرف چار منٹ رہ گئے ہیں۔ پہلا اصول سمجھنے کے بعد خود سے سوال کیجیے کہ کیا آپ کواردو زبان و ادب سے شناسائی ہے؟ کیا کہا؟ بالکل نہیں؟ اجی رکیے! کہیں مت جائیے۔ گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ یہاں اگر آپ کا جواب ’ہاں‘ میں ہوتا تو زیادہ مسئلہ ہونا تھا۔ ہمارے ہاں اکثر شادیاں بھی تو اسی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہیں کہ بے وقوف لوگوں کو علم ہی نہیں ہوتا ہے کہ ’ہاں‘ اور ’نہ‘ میں سے کس کا استعمال زیادہ صحیح ہے۔ تو طے یہ ہوا کہ اگر تو آپ کا جواب ’ہاں‘ ہے تو کتاب بند کر دیجئے، کالم نگاری آپ کے بس کا روگ نہیں ہے۔ آپ کبوتر پال لیجیے۔ البتہ، اگر آپ کا جواب ’نہ‘ ہے تو خوش ہو جائیے۔ خوشی کے اظہار کے طور پر سامنے دیوار کو دو ٹکریں ماریئے۔ آپ واقعی ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں دنیا کالم نگار کہتی ہے۔

3۔ کالم نگاری کا تیسرا اور غالباً سب سے اہم اصول یہ کہ کیاآپ کو گالیاں آتی ہیں؟ یہاں تھوڑا سا تکنیکی مسئلہ ہے۔ اگر محلے یا علاقے کے کسی لڑکے بالے کے بارے میں یہ معلوم کرنا ہو تو یہ چنداں مشکل نہیں۔ بس ان کی کسی عزیزہ کو چھیڑیئے۔ اگر یہ عزیزہ موصوف کی گرل فرینڈ ہو تو سونے پہ سہاگہ ہی سمجھئے۔ البتہ ایک احتیاط یہ ضرور کرئیے کہ یہ تجربہ ہیلمٹ پہن کر کیجئے۔ اور اگر متذکرہ شخص اور آپ کا درمیانی فاصلہ کچھ میٹر سے لے کر چند فٹ تک ہو تو زرہ بکتر زیادہ مناسب رہے گی۔

لیکن ہمیں مشکل یہ درپیش ہے کہ خود اپنے بارے میں معلوم کرنا ہے کہ ’آیا ہم گالیاں دیتے ہیں یا نہیں؟‘ ۔ اس ضمن میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔ کبھی بھی اپنی یاداشت یا توثیق پہ یقین مت کیجئے گا کیونکہ ہم نے اپنی ان گنہ گار آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے کہ چند لوگ اپنے ایک دوست سے کہہ رہے تھے کہ ’تم گالیاں بہت دیتے ہو اس کی کیا وجہ ہے؟‘ تو ان حضرت نے فرمایا کہ ”بھنگیو، فرنگیو! میں نے کب کسی کو گالی دی ہے؟

بات ہوتی نہیں ہے اور سالے بتنگڑ بنا کے رکھ دیتے ہیں“ ۔ لہٰذا ہم آپ کو یہی مشورہ دیں گے کہ اس معاملے میں اپنے دوستوں کی آپ کی پیٹھ پیچھے کی گئی باتوں پہ یقین کیجئے۔ یہاں اگر آپ کا جواب ’ہاں‘ ہے تو چشم بد دور، آپ جلد ہی کالم نگاری کی دنیا پہ راج کریں گے۔ لیکن جن حضرات کا جواب بدقسمتی سے ’نہ‘ میں ہو، ہم انہیں حرف تسلی کے ساتھ ایک معروف سیاسی پارٹی کے رہنما کی تقریریں سننے کا مشورہ دیں گے۔

4۔ کالم نگاری کا چوتھا اصول یہ ہے کہ جس چیز یا شخصیت سے متعلق آپ کالم لکھ رہے ہیں۔ کیا آپ کو اس کے بارے میں کچھ جانکاری ہے؟ اگر کوئی واقعہ آپ قلمبند کرنے جا رہے ہیں تو کیا اس کی تمام جزیات ازبر ہیں؟ اگر وہ کوئی تاریخی تمثیل ہے تو کیا آپ کو تمام سنہ صحیح صحیح یاد ہیں؟ ارے ارے! یہ سوال سن کر بالکل مت گھبرایئے۔ اگر آپ ایک مرتبہ پھر ’نہ‘ کہہ رہے ہیں تو آپ اب تک کہاں تھے؟ آپ کے کالم نگاری نہ کرنے سے دنیا بھر کی صحافت اور زبان و ادب کو جو نقصان پہنچاہے۔ اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟ آپ ایسا کیجیے کہ فوراً اٹھیے۔ گھر کی دیوار پھلانگ کر گلی میں سے ہوتے ہوئے دوبارہ گیٹ سے گزر کر گھر آجائیے اور دھڑا دھڑکالم لکھنا شروع کر دیجئے۔ خدارا! دیر نہ کیجیے گا۔ ورنہ ایک عالم آپ کی تحریروں سے محروم رہ جائے گا۔ جس پہ یقیناً اگلے جہان میں آپ سے جواب طلبی ہوگی۔

5۔ پانچواں اصول یہ ہے کہ کیا آپ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں؟ دیکھئے، یہاں آپ کا جواب صرف اور صرف ’ہاں‘ میں ہی ہونا چاہیے ورنہ اب تک کے سارے کیے کرائے پہ پانی پھر جائے گا۔ ویسے پاکستان میں ہوتے ہوئے بھی اگر آپ ابھی تک کسی پارٹی کے کارکن نہیں ہیں۔ تو یا تو آپ جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ یا پھر لخ لعنت ہے آپ پر۔

خیر، اب جو ہو گیا۔ وہ تو بدل نہیں سکتا۔ لہٰذا مشورہ یہی ہے کہ فوراً کسی سیاسی جماعت کی مریدی اختیار کیجئے۔ اور ایک بات یاد رکھئے کہ صرف کارکن مت بنئے کیونکہ ’کارکن‘ اور ’کان کن‘ میں تھوڑا ہی فرق ہوتا ہے۔ آپ اپنی سیاسی جماعت کے آمدہ جلسے میں اس کے راہنما کو شیر، چیتا، ہاتھی، ریچھ، عقاب، گدھ غرض کہ کہ جملہ جانوروں میں سے کوئی بھی نام دے دیجئے اور تمام جلسے میں ”ہاتھی دے نعرے، وجن گے بھئی وجن گے“ چلاتے رہیں۔

ان شا اللہ مراد بر آئے گی اور آپ پارٹی لیڈر کے چہیتوں میں شمار ہوں گے۔ اب ذرا آتے ہیں کالم نگاری کی طرف۔ آپ اپنے ہر کالم میں پرانے انداز اور نئے الفاظ کے ساتھ صرف اپنی پارٹی کو دودھ دھلی ثابت کریں اوراپنے اور اپنی پارٹی کے تمام کالے کرتوت ملا کر دوسری پارٹیوں پر ڈال دیں۔ اگر چند کالموں کے بعد ہی آپ کے بینک اکاؤنٹس اپنی پارٹی کی طرف سے دیے گئے روپوں اورسماجی رابطے کے اکاؤنٹس دوسری پارٹیوں کی طرف سے ”ہدیہ تبریک“ کے طور پہ دی گئی گالیوں سے نہ بھر جائیں تو کہنا۔ یاد رکھئے! یہ دونوں چیزیں آپ کے معیاری کالم نگار ہونے کا سرٹیفکیٹ تصور کی جائیں گی۔ اگر ان میں سے کسی ایک میں بھی کمی واقع ہو (خاص کر پہلے معیار میں )، تو پہلی فرصت میں پارٹی بدل دیں۔ محض چند ہی برس میں قوم آپ کے احسانوں اور مکانوں تلے دب نہ جائے تو جو چور کی سزا، وہی ڈاکو کی سزا۔

6۔ چھٹا اصول دراصل کالم نگار بننے کے بعد کا ہے۔ یہ یوں بھی ضروری تھا کہ کہیں آپ کالم نگار بننے کے ہمیں بھول ہی نہ جائیں۔ یہ درست ہے کہ ایک کالم نگار کو احسان فراموش ہی ہونا چاہیے۔ لیکن محض اتنی سی بات یاد رکھئے کہ اگرچہ رزق آ پ کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے لیکن اس کار خیر کا ذریعہ کون بنا؟ لہٰذا ہمیں آپ سے اور کچھ نہیں چاہیے۔ بس ہر دوسرے کالم میں ہمارے ادارہ کی تشہیر کے لیے ایک آدھ فقرہ لکھ دیجئے گا۔ اور ہاں، اگریہ کتابچہ پڑھنے کے دوران کہیں بھی آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ ہم خود کالم نگار کیوں نہیں بن جاتے تو ایک تھپڑ میری طرف سے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے منہ پہ ماریئے۔ وہ آپ کو بتائے گا کہ استاد کی بے حرمتی کا انجام کیا ہوتا ہے۔

ضروری نوٹ :یہاں کتابچے کو ختم ہونا تھا لیکن ہم دیباچے میں ایک بات بھول گئے تھے۔ ذرا وہ سن لیں۔ اگر آپ غور سے تمام اصولوں کو دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے کہ پہلے اصول کو چھوڑ کر اگلے چار اصولوں میں کالم نگار کو بالترتیب ’نہ، ہاں، نہ، ہاں‘ کی قابلیت درکار ہے۔ اس ترتیب کو علم ریاضی میں Arithmetic Sense کہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments