مطیع اللہ جان کا اغوا: وزیر اعظم بھی احتجاج میں شامل ہو جائیں


عام شہریوں، صحافیوں، سیاسی کارکنوں، لیڈروں، جرنلسٹ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ متعدد وزرا بھی صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا پر سراپا احتجاج ہیں۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ ’یہ بات تو واضح ہے کہ مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا ہے۔ ان کی باحفاظت واپسی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہم ان کی بازیابی کی پوری کوشش کررہے ہیں‘۔ اگر حکومت بھی نہیں جانتی کہ پاکستان کے دارالحکومت میں کون لوگ پراسرار انداز میں ایک معروف صحافی کو اغوا کرسکتے ہیں تو پوچھنا چاہئے کی اس ملک میں دراصل کس کی حکومت ہے؟

پاکستان میں ناپسندیدہ آوازوں کو خاموش کروانے یا دبانے کے لئے نامعلوم طورسے اٹھالینے کے مسلمہ طریقہ کار کی روشنی میں مطیع اللہ جان کو دن دہاڑے غائب کردینا بظاہر کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ وہ جمہوری سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف کھل کر بات کرنے والے چند لوگوں میں شامل ہیں۔ دو سال قبل فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائیریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس بریفنگ میں بعض صحافیوں پر ریاست مخالف پراپیگنڈے پر مبنی ٹویٹس کرنے کا الزام لگایا تھا اور ایسے اکاؤنٹس کا ایک چارٹ دکھایا تھا جن پر فوج کے مطابق ’ناقابل قبول‘ خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس فہرست میں مطیع اللہ جان کا اکاؤنٹ نمایاں کر کے دکھایا گیا تھا۔ اس پس منظر میں یہ بات شبہ سے بالا ہونی چاہئے کہ کون لوگ مطیع اللہ جان جیسی آوازوں کو خاموش کروانا قومی مفاد کے عین مطابق سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ بات واضح ہونا باقی ہے کہ کیا پاکستان میں اس حکمت عملی کو ریاستی پالیسی کے طور پر اختیار کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کو قانونی طریقے سے خاموش نہیں کروایا جاسکتا انہیں ماورائے قانون ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ڈرانے دھمکانے اور چپ کروانے کی کوشش کی جائے۔

حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے علاوہ، وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد سے مطیع اللہ جان کے اغوا کے بارے میں معلومات سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسا ہی مطالبہ اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی کیا ہے۔ لاپتہ صحافی کی اہلیہ، صاحبزادے اور بھائی بھی یہی تقاضہ کررہے ہیں۔  اسلام آباد ہائی کورٹ ایک درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے مطیع اللہ جان کی بازیابی کا حکم دے چکی ہے اور سیکرٹری داخلہ، آئی جی پولیس اور اسلام آباد کے چیف کمشز کو بدھ کے روز ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہوکر اس معاملہ میں پیش رفت سے آگاہ کرنے کا حکم دیا گیاہے۔ اس صورت حال میں وزیروں کے مذمتی بیانات اور معاملہ کی تفصیلات جاننے کی کوشش کے دعوے کیا کوئی اہمیت و حیثیت رکھتے ہیں؟ شبلی فراز، شیریں مزاری اور فواد چوہدری کیا اپنی ٹویٹس اور بیانات سے اس بے بسی کا اظہار کررہے ہیں کہ وہ بھی ایک صحافی کے غیر قانونی طور پر اغوا کئے جانے پر اسی طرح لاچار ہیں جس طرح مغوی صحافی کے اہل خاندان یا دیوار سے لگے اپوزیشن لیڈر ہیں۔ حکومت کے زیر نگرانی کام کرنے والے اداروں پر خود حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ کیا یہی وہ صورت حال نہیں جس کے خلاف مطیع اللہ جان جیسے لوگ آواز اٹھاتے ہیں؟

وزیر اطلاعات شبلی فراز کو بظاہر حکومت کا باخبر ترین وزیر ہونا چاہئے۔ حکومت اپنے وزیر اطلاعات کے ذریعے تمام سرکاری امور کے بارے میں معلومات عام کرتی ہے۔ ان کے ذریعے حکومتی کارکردگی کی تفصیلات میڈیا کو فراہم کی جاتی ہیں۔ وہ پالیسی معاملات میں وزیر اعظم کے قریب ترین ساتھی اور مشیر ہوتے ہیں کیوں کہ انہی کے ذریعے وزیر اعظم اور حکومت کسی معاملہ پر عوامی رد عمل اور اس کی قبولیت کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہے۔ تاہم تحریک انصاف کی حکومت کے ’طاقت ور ترین‘ وزیر کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ شبلی فراز نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ انہوں نے اس معاملہ پر بات کرنے کے لئے وزیر داخلہ اعجاز شاہ کو فون کیا تھا لیکن وہ اس وقت اپنے علیل بھائی کی عیادت کے لئے جارہے تھے۔ یعنی حکومت وقت میں قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار وزیر کے پاس ایک صحافی کے اغوا جیسے معاملہ پر اپنے ہمراہی وزیر اور میڈیا سے نمٹنے کے ذمہ دار شخص سے بات کرنے کا وقت نہیں تھا۔

یہ حقیقت بھی نوٹ کی جانی چاہئے مطیع اللہ جان کو غیر قانونی طور سے لاپتہ کرنے کے سنگین واقعہ پر چند وزیروں نے ضرور تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن ملک میں امن و امان کے ذمہ دار وزیر اعجاز شاہ کو اس موضوع پر کوئی بیان جاری کرنے یا عوام کو تسلی دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ سچائی بھی اہل پاکستان کو یاد رکھنی چاہئے کہ اعجاز شاہ کے علاوہ جس شخص نے اس سنگین جرم پر خاموش رہنا ضروری سمجھا ہے، وہ ملک کے وزیر اعظم عمران خان ہیں۔ وزیر اعظم نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں مدینہ ریاست کی طرز پر ایک فلاحی اور قانون کا پابند معاشرہ قائم کیا جارہا ہے۔ مدینہ ریاست کا سلوگن ہاتھ آنے سے پہلے عمران خان برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں قانونی بالادستی کی مثالیں دے کر سابقہ حکمرانوں اور ملکی انتظام پر تنقید کیا کرتے تھے۔

مدینہ ریاست ہو یا مغربی ممالک میں رواج پانے والا نظام : ان کی بنیادی خصوصیت عام شہری کے حقوق کی ضمانت و حفاظت ہے۔ نئے پاکستان کے وزیر اعظم کو اپنے ہی دارالحکومت میں دن دہاڑے ہونے والی ایک سنگین قانون شکنی پر ٹوئٹ کرنے یا بیان دینے اور قوم سے یہ وعدہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ وہ حکومت کے سربراہ کے طور پر ایک صحافی کی گمشدگی کو سنگین معاملہ سمجھتے ہیں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک یہ صحافی بازیاب نہیں ہوتا اور اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کو پوری قوم کے سامنے بے نقاب کرنے کے علاوہ ملکی قانون کے مطابق سزا دلوانے کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ وزیر اعظم یہ بات کہنے کا حوصلہ نہیں کرپائے۔ کیوں کہ وہ جس سول ملٹری اتحاد و اشتراک کے داعی ہیں اور جس کے طفیل وہ ملک کے وزیر اعظم بنائے گئے ہیں ، شہری آزادیوں پر حملہ اس کے منشور کا پہلا نکتہ ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کو دبائے بغیر کسی بھی ملک میں کوئی ایسی حکومت قائم نہیں رہ سکتی جس کی بنیاد ریاستی بدعنوانی اور دھاندلی کے ہتھکنڈوں پر استوار ہو۔

ایسی صورت میں عمران خان کو مطیع اللہ جان کے اس ٹوئٹ کو پڑھنے اور شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے جو اغوا ہونے سے پہلے انہوں نے جاری کیا تھا: ’ ان کی توجہ کے لئے جو رول آف لا کے ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں رہتے ہیں اور جن کے نزدیک ان پر تنقید، ایک انسان کے ناقابل تسخیر وقار کو مسترد کرنےسے زیادہ بڑا جرم ہے‘۔ ملک کے غریبوں کے فکر میں دبلے ہونے والے وزیر اعظم اور مافیا کو ختم کرکے قانون کو بالادست بنانے کے دعوے کرنے والے عمران خان اس آئینے میں اپنی وہ تصویر دیکھ سکتے ہیں جسے وہ سابقہ حکمرانوں پر بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے ہوئے خود بھی دیکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ عمران خان خود کو دیانت دار اور بہادر قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کی دیانت سیاسی مخالفین سے مناقشے تک محدود ہے اور بہادری کا یہ عالم ہے کہ وہ ایک صحافی کے چند تند و تیز جملے برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ عمران خان اگر روایت شکن ہیں اور اللہ کے بعد عوام کے علاوہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں تو بتائیں کہ ان کی حکومت میں ان کی اجازت کے بغیر کون لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے کا حوصلہ کرتے ہیں۔ اور وعدہ کریں کہ وہ ان عناصر کو سب کے سامنے لائیں گے اور ملکی قانون کے مطابق نشان عبرت بنا دیں گے۔ ہمارے ’ دلیر‘ وزیر اعظم اس صورت حال کا تصور کرتے ہوئے بھی لرزنے لگیں گے۔ انہیں قانون سے نہیں، اقتدار سے پیار ہے۔ حالانکہ کوئی عوام دوست جمہوری لیڈر اپنے دور میں کسی سنگین لاقانونیت پر ایک کائر کی طرح خاموش نہیں رہ سکتا۔

مطیع اللہ جان کو بدھ کے روز سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ان کے ایک ٹوئٹ میں عدلیہ کے ججوں کی توہین محسوس کرتے ہوئے سو موٹو اختیار کے تحت انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔ جن لوگوں نے مطیع اللہ جان کو اغوا کیا ہے ، وہ اتنے بے خبر نہیں ہوسکتے کہ انہیں عدالت عظمیٰ کے نوٹس کا علم نہ ہو۔ چیف جسٹس گلزار احمد جب کل عدالت لگائیں گے تو اپنے طلب کردہ شخص کے بارے میں انہیں بتایا جائے گا کہ ریاست کے بعض ’مضبوط ہاتھوں‘ نے کسی نامعلوم فرد جرم پر انہیں اغوا کر لیا ہے۔ چیف جسٹس یہ جاننے کے بعد کیا مطیع اللہ جان کی بے گناہی پر یقین کرتے ہوئے تسلیم کریں گے کہ اس ملک کا کوئی حساس شہری کیوں ایک ٹوئٹ میں اپنی بے بسی کا اظہار کرنے پر مجبور ہو چکا ہے؟ اس کے ساتھ ہی کیا اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف ایک شہری کی آزادی محدود کرنے کے جرم میں کارروائی کے علاوہ توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کریں گے؟ مطیع اللہ جان کو اٹھانے والوں نے ان کی آزادی کے علاوہ عدالت عظمیٰ کے وقار اور آبرو پر بھی حملہ کیا ہے۔

یا پھر چیف جسٹس عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر اور سابق سینیٹر آفراسیاب خٹک کے اس مشورہ پر عمل کرنا پسند کریں گے کہ ’لوگوں کو لاپتہ کرنے کے اس جرم کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے ارکان پارلیمنٹ، ججوں اور صحافیوں کو شارع دستور پر احتجاج کرنا چاہئے‘ ۔ مناسب ہوگا کہ وزیر اعظم بھی اپنی بے بسی کے اظہار کے لئے اس اجتماع میں شامل ہو جائیں۔ اس طرح وہ کم از کم اپنی بے بسی کا اعتراف کرنے کا حوصلہ تو کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments