آن لائن کلاسز کی مصیبت


کورونا کی وجہ سے طلبہ، اساتذہ اور والدین آن لائن کلاسز کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ چار سال سے چوبیس سال تک کی معصوم مخلوق آن لائن کلاسز اور امتحانات کے نام پر ایک طرح کی تعزیری مشقت سے گزر رہی ہے۔ دوسری طرف بڑی تعداد ان والدین پر مشتمل ہے جو انٹر نیٹ اور آن لائن کلاسز کی مخصوص ٹیکنالوجی سے عدم واقفیت کی وجہ سے عجیب الجھن کا شکار ہے۔

میرے بہت سے دوست گورنمنٹ کالجز میں پڑھا رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ، طلبہ اور والدین میں سے کم و بیش چالیس فیصد سے زائد کسی نہ کسی طرح اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہے ہیں مگر سب سے زیادہ مسئلہ گورنمنٹ کے اداروں کے اساتذہ اور طلبہ کو درپیش ہے۔ دیہی علاقوں میں واقع سکولوں اور کالجوں کے مسائل اور بھی دو چند ہیں جہاں بمشکل دو سے پانچ فیصد طلبہ اس سسٹم سے مستفید ہورہے ہیں۔

میرے ایک دوست گوجر خان کے ایک گورنمنٹ کالج میں کمپیوٹر کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا افتاد کے دوران حکومت نے بغیر کسی مناسب ہوم ورک کے انتہائی عجلت میں آن لائن کلاسز کے اجرا کا اعلان کر دیا مگر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ تو کجا بہت سے اساتذہ کے پاس بھی سمارٹ فون نہیں ہیں۔ جن چند ایک کے پاس یہ سہولت موجود ہے وہ اسے استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔

اسی طرح تقریباً نوے فیصد طلبہ کا تعلق ان گھرانوں سے ہے جو آٹھ دس ہزار روپے کا فون افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ میرے بہت سے شاگرد کالج کے بعد جز وقتی ملازمت کر کے بمشکل اپنے تعلیمی اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔ ایسے طلبہ کے لیے سمارٹ فون کی دستیابی کسی سہانے خواب کی طرح ہے۔

پچھلی حکومت جب تعلیمی میدان میں شاندار کارکردگی دکھانے والے مستحق طلبہ کو مفت لیپ ٹاپ فراہم کرتی تھی تو آج کے حکمران اسے کار فضول کہہ کر اس پر کرپشن کا الزام لگاتے تھے مگر وقت نے ثابت کیا کہ ان حکمرانوں کی بصیرت قابل داد تھی اور تنقید کرنے والے جب خود حکومت میں آئے تو لیپ ٹاپ کی جگہ نوجوانوں میں مرغیوں، انڈوں، بھینسوں، کٹے کٹیوں اور سالن کی پلیٹوں وغیرہ کی تقسیم سے ان کی تضحیک کی۔

آن لائن کلاسز کے انعقاد کے حوالے سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انٹر نیٹ تک رسائی ہر جگہ نہیں ہے۔ خاص طور پر ملک کے دور افتادہ دیہی علاقوں میں سگنلز بالکل ہی ناپید یا اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ طلبہ لیپ ٹاپ اٹھائے کسی درخت یا پہاڑ کی چوٹی پر یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ سر! اب میری آواز آ رہی ہے؟

ایک دن مابدولت جب آن لائن کلاس کے دوران طلبہ کو علامہ اقبال کی غزل کی تشریح کروا رہا تھا تو پس پردہ کسی خاتون کی غصیلی آواز بھی آ رہی تھی جو غالباً اپنے مجازی خدا پر برس رہی تھی۔ ہم ان کی ڈانٹ ڈپٹ سن کر فوراً سہم گئے، اس سے اندازہ لگا لیں کہ اس خاتون کے شوہر نامراد کی کیا حالت ہوئی ہو گی۔

جو عمر رسیدہ اساتذہ آن لائن کلاسز لینے میں نیم پختہ یا نو آموز ہیں، بعض شریر، شوخ اور حصول تعلیم سے راہ فرار اختیار کرنے والے طلبہ فیک آئی ڈیز بنا کر انہیں طرح طرح سے تنگ کرتے ہیں۔ ان کلاسز کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ طلبہ بعض اوقات بات پوری طرح سمجھ نہیں پاتے اور نہ بروقت سوال پوچھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ایک بوجھل اور طولانی طریق تدریس ہے جس کی وجہ سے کلاسز کا کورس بروقت مکمل کرنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تفویض کار کی جانچ پڑتال بھی بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ای میل یا وٹس اپ کے ذریعے ایسا کرنا کار محال ہے۔

حکومت اور وزارت تعلیم کوچاہیے کہ وہ جلد از جلد کوئی ایسا جامع، ٹھوس اور قابل عمل طریقہ اختیار کریں تاکہ طلبہ کا سال ضائع نہ ہو کیونکہ کورونا کی موجودہ سنگین صورت حال کے تناظر میں یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ دسمبر جنوری تک تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments