پرندے کیوں نہیں آتے



پرندے کیوں نہیں آتے
کنکر کیوں نہیں برساتے

پرندے کیونکر آئیں گے، کنکر کیونکر برسائیں گے جب جیسے وحشی درندے کھلے عام پھرتے ہوں۔ جہاں اساتذہ کے نام پر دھبہ سارنگ جیسے جنسی بھیڑئیے بچوں کا جنسی طور پر قتل عام کرتے ہوں، وہاں پرندے نہیں آتے، کنکر نہیں برساتے۔

خبر ہے کہ سندھ کے ضلع خیر پور میں سارنگ نامی استاد نما درندے نے 135 بچوں کا خود ریپ کیا، بچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جنسی عمل کے لئے مجبور کیا اور اپنے جیسے دیگر بھیڑیوں کی دل پشوری کے لئے بچوں کی ویڈیوز بنائی۔

دنیا بھر میں حتی کہ یورپ و دیگر سیکس فری معاشروں میں بھی چائلڈ پورنوگرافی اور بچوں کے ساتھ ریپ کو شدید جرم تصور کیا جاتا ہے اور سخت سزائیں دی جاتی ہین۔ لیکن ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ یہاں معلمی جیسے معزز پیشے سے وابستہ درندے بچوں کا ریپ کرتے ہیں۔ اور اپنے اثر ورسوخ کی بناء پر قانون کے شکنجے سے بھی آزاد رہتے ہیں۔ مانا کہ قانوں کے ہاتھ لمبے سہی، مگر یہ کبھی کسی طاقت ور کے گریبان تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ درندے کی درندگی کی ویڈیوز لیک ہوئیں، اہل درد نے آواز اٹھائی، اور وہ بھیڑیا قانون کی گرفت میں آ گیا۔

درندے نے نہ صرف بچوں کا ریپ کیا، بلکہ اپنے جیسے دوسروں کی دل پشوری کے لئے ویڈیوز بنائی۔ اوریہ بھی ہو سکتا ہے کہ ڈارک ویب پر بیچ کر ان سے کروڑوں کمائے ہوں۔ ہاتھ کانپتا، قلم لرزتا ہے، درندگی کے ان واقعات کو بیان کرتے ہوئے آنکھوں سے آنسو ٹپکتے ہیں۔

تعفن زدہ، جنسی گھٹن زدہ، سڑاند سے بھرپور اس معاشرے میں بچوں کا پیدا ہوناہی شاید سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ اس جنسی گھٹن زدہ معاشرے میں طوائف کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ اس کا احسان عظیم ہے کہ درندگی کو اپنے جسم پر سمیٹ لیتی ہے اور معصوم کو محفوظ رکھتی ہے۔ لیکن جہاں جانور تک محفوظ نہ ہوں، وہاں معصوم بچے کیسے محفوظ ہوں گے ۔ کہیں قصور میں زینب بلک بلک کر روتی ہے تو کہیں خیر پور میں یہ معصوم بچے اور ان کی چیخیں کسی کو سنائی نہین دیتیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرندے نہیں آتے اور کنکر نہیں برساتے۔

کہیں اقبال جیسا بھیڑیا درندگی کا ناچ نچاتا ہے تو کہیں سارنگ جیسا درندہ اپنی بھوک مٹانے کی خاطر معصوم جسموں کو نوچتا ہے۔ ہائے ابھی تو قصور کی زینب کے زخم بھی مندمل نہ ہوئے تھے۔ اب اگر اس عادی مجرم کو سزا ہو بھی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کے ہونے والا نقصان کا ازالہ کون کرے؟ کسی کو کیا معلوم کہ خدا جانے یہ بچے کتنے جسمانی ونفسیاتی کرب سے گزرے ہوں گے ۔

سوچتا ہوں اس کیس کا کیا بنے گا؟ شاید چار دن شور شرابا اور پھر خاموشی؟ کیا وہی بنے گا جو اس سے پہلے سانحہ ساہیوال کے قاتل درندوں کا بنا؟ انہوں نے بھی تو معصوموں کے سامنے خون کی ہولی کھیلی تھی اور آج سب آزاد پھرتے ہیں۔ دیکھنا اس کیس میں بھی کہین ایسا نہ ہو کہ مثاترہ بچے کا مدعی والد روز کے تھانے کچہریوں کے چکر لگا لگا کر تھک ہار کر یا تو گھر بیٹھ جائے یا چند روپے لے کے مجبوراً صلح کر لے۔

ہم اہل مغرب کو کہتے ہین کہ انہوں نے فحاشی پھیلائی ہے اور وہ بے حیا ہین۔ ہمارا ماننا ہے کہ عورتوں کے برقع نہ پہننے سے عذاب آتے ہین مگر شاید ایسی درندگی کا ناچ نچانے سے من و سلوی اترتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے اس معاشرے میں یہ درندگی عام ہے۔ آئے روز کہین نہ کہین کوئی نہ کوئی معصوم بچہ کسی نہ کسی بھیڑئیے کا شکار بن جاتا ہے۔ کوئی روز ایسا نہین گزرتا جب اخبار میں ریپ کے جرم کی خبر نہ چھپی ہو۔

ایک مسئلہ ہمارا یہ بھی ہے کہ ہمیں تفریح نام کی کوئی چیز میسر نہین۔ ہمیں دال روٹی کمانے سے ہی فرصت نہین ملتی۔ ایسی مصروف اور پرکٹھن زندگی مین ہمارے لئے شاید واحد تفریح صرف اور صرف جنسی خواہش پوری کرنا اور لاتعداد بچے پیدا کرنا رہ گیا ہے۔ جن کی شادیاں ہوئی ہیں وہ لاتعداد بچے پیدا کرتے ہین اور جن کی نہیں ہوئیں وہ ان معصوموں کا ریپ کرتے ہیں۔ مگر شاید ہم نفسیاتی مریض ہیں۔ ہمارے ہاں شادی شدہ حضرات بھی اس طرح کے گھناونے جرائم میں ملوث رہے ہیں۔

بچے پر بچہ پیدا کرنے والے والدیں کو کون سمجھائے کہ صرف بچہ پیدا کر لینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ان کی تعلیم وتربیت کرنا، ان کا خیال رکھنا بھی والدین کی ذمہ داری ہوا کرتا ہے۔ اور اگر والدین یہ ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر ہوں تو ان کو بچہ پیدا ہی نہیں کرنا چاہیے تا کہ کل کلاں کو جنسی بھیڑیوں سے بھرے اس سماج میں آ کر ان معصوموں کو درندگی کا شکار نہ ہونا پڑے۔ اپنی اوقات سے بڑھ کر بچے پیدا کر لینا اور پھر ان کا خیال نہ رکھنا پانا، شاید یہی وجہ ہے کہ سارنگ جیسے عادی مجرموں کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملتا ہے اور پھر یہی والدین بھی ایسے درندوں کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہتے ہیں۔

مگر ہم شاید منافق ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر تو بدنامی کے در سے اس درندگی کے خلاف آواز نہین اٹھا سکتے۔ اور اگر کوئی اتھائے بھی تو یہی منافق معاشرہ مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دیتا ہے اور مظلوم کو جو شرمندگی و خفت اٹھانا پڑتی ہے وہ الگ۔ ہمیں میرا جسم میری مرضی کا نعرہ برا لگتا ہے۔ کیا ہم اب یہ نعرہ لگا لیں

میرا جسم، ماسٹر سارنگ کی مرضی
میرا جسم، پولیس والے قاتل کی مرضی
میرا جسم، جنسی بھیڑئیے کی مرضی
میرا جسم، نوچنے والے کی مرضی

حیرت زدہ ہوں کہ مندر بننے پر چیخنے والی زبانیں اس المناک سانحے پر خاموش کیوں؟ وہ جو مرد مجاہد مندر کی بنیادیں ڈھانے پینچ گئے تھے، وہ معصوموں کو بچانے کیوں نہ پہنچ سکے؟

ابھی تو ہم گومل یونیورسٹی کے پرفیسر صلاح الدین کے کالے کرتوتوں کو نہ بھولے تھے، ابھی تو ہم لاہور گرائمر سکول کی بچیوں کا دکھ نہ سہہ پائے تھے، اور پھر یہ بھیڑیا بھی سامنے آ گیا۔ اب اگر انہی نام نہاد اساتذہ کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو اساتذہ تنظیمیں، تکریم اساتذہ کا بھاشن لے کر میدان میں آ جائیں گی۔

بچوں کا ریپ مدرسے میں ہو یا سکول میں یا چاہے کسی بھی جگہ ہو غلط ہے۔ میرے خیال میں مدرسے میں بچوں کے ریپ میں وہ بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہین جو سکول میں ہونے والے ریپ پر تو اواز اٹھاتے ہین مگر مدارس میں ہونے والے ریپ کے واقعات پر انہیں ”علماء انبیاء کے وارث ہیں“ کا بھاشن یاد آ جاتا ہے۔ اور اس ریپ میں وہ بھی شریک ہیں جو مدارس میں ہونے والے ریپ کے خلاف تو آواز اٹھاتے ہیں مگر سکول کالج و یونیورسٹیز میں ہونے والے ریپ پر ان کی زبانین گنگ ہو جاتی ہیں۔ اس ریپ میں وہ بھی شریک ہیں جن کو اس استاد نما درندے کے کالے کرتوتوں کا علم تھا اور وہ خاموش رہے۔ اس ریپ مین وہ سب بھی شریک ہین جو بچوں کو پڑھنے تو بھیجتے تھے مگر پلٹ کر کبھی خیر خبر نہ لی۔

اگر دو برس پہلے سامنے آنے والی ویڈیوز پر ایکشن لیا گیا ہوتا توآج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ دنیا بھر کے مسائل یہ ہیں کہ آنے والے سالوں میں پٹرول کی زیادہ کھپت کو کس طرح قابو کرنا ہے۔ دنیا میں اس بات پر ریسرچ ہو رہی ہے کہ بڑھتی ابادی کی غذائی ضروریات کے پیش نظر ایسی کون سی خواراکیں تیار کی جائیں جو غذائی قلت نہ پیدا ہونے دیں اور ہمارے ہاں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی بھی یہ مسائل ہیں کہ جنسی درندوں سے کیسے نپٹنا ہے۔ ہمارے ہاں ابھی بھی یہ مسئلہ ہے کہ ڈی این اے کو بطور شہادت ماننا ہے کہ نہیں۔ ہمارے ہاں ابھی بھی قاری صاحب بچے کا ریپ کرکے ان سے قرآن پر حلف لے لیتے ہیں کہ کسی کو بتانا نہین۔

کسی کو کیا معلوم کہ سفید کرتا پہنے سارنگ نامی یہ بھیڑیا اندر سے کتنے کالے کرتوتوں کا حامل ہے۔ ابھی تو مجھے معصوم زینب کا دکھ نہیں بھولا تھا، ابھی تو مجھے قاری شمس الرحمان کی درندگی کا شکار مانسہرہ کا وہ بچہ بھی یاد ہے کہ جس کی انکھوں میں جنسی زیادتی کے باعث خون اتر ایا تھا۔ ابھی تو ڈیرہ اسمعیل خان کی اس معصوم بچی کی چیخیں بھی مجھے سونے نہیں دیتیں کہ جس کو جنسی تشدد کے بعد گلا گھونٹ کر مار دیا گیا تھا۔

ابھی تو مجھے وہ بچہ بھی یاد ہے کہ جس کی تشدد زدہ لاش دس روز بعد کھیتوں سے ملی تھی۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں کل کو یہی بچے میرا گریبان پکڑ کر یہ نہ کہہ دیں کہ ہمارے مجرم تم بھی ہو کہ تم نے ہمارے حق میں آواز نہ اٹھائی۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ بچے ہماری شکایت نہ کریں کہ الہی تیرا نام استعمال کر کے بننے والے اس ملک میں ہمارے ساتھ کیا کیا ظلم کیے گئے۔

سوچتا ہوں کہ اس باپ کی بے بسی کو کون محسوس کر سکتا ہے کہ جو روتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے انصاف ملنے کی امید تو نہیں مگر مجھے انصاف چاہیے۔ میرے ساتھ موجود بچے کی بے ہوش ماں کے کلیجے کو ٹھنڈ تب ہی پڑے گی جب ہمارے ساتھ انصاف ہو گا۔ اس بے بس باپ کے یہ الفاظ بھی ہمارے نظام انصاف کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ کہ جہاں جج صاحبان خود اپنے چیمبر میں انصاف کے لئے آنے والی سائلہ کے ریپ کے مجرم ہوں، وہاں کیسا انصاف۔ اس سے بڑھ کر ہم کچھ کہیں گے تو توہین عدالت ہو جائے گی۔

آج مجھے جواب مل گیا۔ بس یہی وجہ کہ پرندے نہیں آتے اور کنکر نہیں برساتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments