شریک درد (ایک ایکٹ کا ڈراما)



کردار
وحیدہ (عمر 48 سال) ایک بیوہ
راشد (عمر 24 سال) اس کا بیٹا
جمیلہ (عمر 26 سال) اس کی بیٹی

[فروری 1993، جمعہ 5 بجے شام۔ شمالی انگلستان کا ایک شہر۔ وحیدہ اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں ایک صوفے پر سستا رہی ہے۔ دروازے کا تالا باہر سے کھولے جانے کی آواز آتی ہے۔ دروازہ کھلتا ہے اور راشد اندر داخل ہوتا ہے۔ ]

راشد: اتنی خاموشی؟ ٹمی اور جینا کہاں ہیں؟
وحیدہ : ابراہیم صاحب کے گھر گئے ہوئے ہیں۔ ان کے بچوں کے ساتھ کھیلنے۔ (وقفہ) کامیابی؟
راشد: وہی پرانی بات۔ ملازمتیں بے شمار، جدھر دیکھو اشتہار، لیکن ہم بیکار کے بیکار۔
وحیدہ : ہوں۔ (وقفہ) تمہیں اپنی پڑھائی ادھوری نہیں چھوڑنی چاہیے تھی۔
راشد: پھر کیا ہوتا؟ آج کل تو پڑھے لکھوں کو کام نہیں مل رہا۔

وحیدہ : امکانات، میرے چاند، امکانات۔ ڈگریاں اور ہنر آپ کے امکانات بڑھا دیتے ہیں۔ ہنرمندوں میں مقابلہ کم ہوتا ہے۔ جمیلہ کی مثال لے لو۔

راشد: اسے تو نوکری مل ہی جانی تھی۔
وحیدہ : کیسے؟ کیوں؟
راشد: کیونکہ وہ ایک لڑکی ہے، اور لڑکیوں کے لیے ملازمتیں لڑکوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتی ہیں۔
وحیدہ : (نیم طنزیہ انداز میں ) واقعی؟ میرا خیال تھا کہ معاملہ الٹ ہے۔

راشد: دفتر، بینک، ٹریول ایجنسیاں، دکانیں، بڑے سٹور، سب خاتون ملازموں سے بھرے ہوتے ہیں۔ گھر دار عورت کمیاب ہے اور برسر روزگار مرد۔ سپر سٹار!

وحیدہ : عورتیں صرف چھوٹے موٹے کام کرتی نظر آتی ہیں۔ بہتر کام مردوں نے اپنے لیے رکھے ہوئے ہیں۔ (وقفہ) اسی لیے کئی سال پہلے میں نے او لیول کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ اگرچہ میں نے بہت اچھے گریڈ لیے تھے۔ اور میں نے ہمیشہ اس بات پہ افسوس کیا ہے۔

راشد: اور مجھے افسوس ہوتا اگر میں اپنی پڑھائی جاری رکھتا۔
وحیدہ : ہمیں اپنی غلطیوں کا اس وقت احساس ہوتا ہے جب ان کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔
(طویل وقفہ)
راشد: آپ نے کھانا کھا لیا؟
وحیدہ : کہہ سکتے ہیں۔
راشد: اور گولیاں؟
وحیدہ : اوہ! میں بھول گئی۔
راشد: میں لا دوں؟ ( وحیدہ اثبات میں سر ہلاتی ہے ) دودھ سے یا پانی سے؟

وحیدہ : پانی۔ مہربانی۔ (مسکراتی ہے۔ راشد ملحقہ کھانے کے کمرے / باورچی خانے میں جاتا ہے اور ایک گلاس پانی اور دوائیں لے آتا ہے۔ )

راشد: یہ لیں۔
وحیدہ : شکریہ۔ (دوائیں کھاتی ہے )
راشد: (اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے ) جمیلہ کسی بھی وقت آتی ہو گی۔
وحیدہ : ہاں۔ (وقفہ) راشد، میں سوچ رہی تھی اگر جمیلہ داؤد سے شادی کر لے؟
راشد: کیا؟
وحیدہ : ہاں، داؤد۔
راشد: وہ ایک رنڈوے سے شادی کرے گی؟

وحیدہ : لیکن کس کا رنڈوا؟ اس کی سگی بہن کا۔ اور اس کے بھانجے اور بھانجی کا باپ جنہیں وہ اتنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ وجیہ ہے، ذہین ہے، اچھا سیٹ ہے۔ یہ شادی جمیلہ کے لیے ایک اچھا شوہر لائے گی، ٹمی اور جینا کے لیے بہترین ماں، اور میرے لیے ذہنی سکون اور آرام۔

راشد: ہو سکتا ہے جمیلہ کے لیے مشکل ہو، ایک ایسے شخص کو شوہر کے طور پر قبول کرنا جسے وہ اتنے سال بھائی سمجھتی رہی۔

وحیدہ : وہ اس کا بھائی نہیں ہے۔ اس طرح کی شادی ساری دنیا میں عام ہے۔ اور وہ انتطار کس بات کا کر رہی ہے؟ چاہتی کیا ہے؟ خوبصورت وہ نہیں، اتنی کم عمر بھی نہیں۔ 26 کی ہے۔ نہ امیرہے۔ اسے مستقبل سے کیا توقع ہے؟ وہ بیوقوف ہو گی اگر اپنی جوانی کا باقی حصہ جھوٹی امید کی پرورش میں گزار دے۔

راشد: وہ اپنے مستقبل کے ساتھ جو چاہے کرے، اسے پورا پورا حق ہے۔ ظاہری حسن ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ بالآخر شخصیت ہی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اور۔ بہت خوبصورت نہ سہی، لیکن۔ ٹھیک ٹھاک لگتی ہے۔

وحیدہ : مرد صرف جسمانی خوبصورتی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ انیلہ ابھی سترہ اٹھارہ ہی کی تھی کہ اس کے بے شمار رشتے آنا شروع ہو گئے تھے۔ اس کی شخصیت کو کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

راشد: اگر ایسا ہے توجو شخص ایک حسین عورت کا شوہر رہ چکا ہو وہ ایک عام شکل و صورت والی کے ساتھ کیسے خوش رہے گا؟ وہ اسے محض اپنے بچوں کی آیا ہی سمجھے گا۔

وحیدہ : میں ان نوجوان کنواروں کی بات کر رہی تھی جن کے بارے میں شاید جمیلہ منتظر ہو کہ شادی کی پیشکش کریں۔ داؤد ایک حسین لڑکی سے شادی کر چکا ہے۔ اب وہ ایک پختہ عمر اور گہری شخصیت والی لڑکی کی رفاقت پسند کرے گا۔ اس نے ہمیشہ جمیلہ کی ذہانت اور تعلیم حاصل کرنے کے جذبے کی تعریف کی ہے۔ پھر اس کے بچے جمیلہ سے بہت مانوس ہیں۔ یہ بات اسے اس کے قریب لے آئے گی۔

(فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ راشد فون سنتا ہے اور اپنی جگہ واپس آ جاتا ہے۔ )
راشد: (ہچکچاتے ہوئے ) امی۔ ۔ ۔ آپ کو پتہ ہے ’ویک اینڈ‘ ہے۔ ۔ ۔ مجھے کچھ ادھار۔ ۔ ۔
وحیدہ : ادھار۔ ۔ ۔
راشد: مجھے پتا ہے میں واپس کرنے کی حیثیت میں نہیں ہوں۔
وحیدہ : پھر کیوں مانگتے رہتے ہو؟
راشد: امی! اتنی ظالم نہ بنیں۔

وحیدہ : لیکن میرے پاس کیا رکھا ہے؟ میں پہلے ہی مشکل سے گزارہ کر رہی ہوں۔ بجائے اس کے کہ گھر چلانے کے لیے کما کے لاؤ، الٹا اپنی فضول خرچیوں کے لیے مانگتے رہتے ہو۔

راشد: (اونچی آواز میں ) امی! آپ پھر میری کمزوری پر چوٹ کر رہی ہیں۔
وحیدہ : تم نے یہی چاہا تھا۔

راشد: کبھی عورت کو اس کی صورت کا طعنہ نہ دیں اور مرد کو اس کی کمائی کا۔ ( راشد اپنے جذبات پہ قابو پانے کی کوشش کرتا ہے، نارمل ہو کر ماں کے نزدیک آ جاتا ہے اور اس کے قریب قالین پر بیٹھ جاتا ہے، اپنی کنپٹی اس کے گھٹنے کے ساتھ لگا کے۔ )

وحیدہ : میں آئندہ احتیاط کروں گی۔ (وقفہ) میرا پرس لے کے آؤ، اوپر سے۔
راشد: کوئی بات نہیں۔ اب باہر جانے کو طبیعت نہیں کر رہی۔

وحیدہ : اچھے بچے بنو۔ جیسا امی کہتی ہے ویسا کرو۔ ( راشد قدرے تامل سے اٹھ کر آہستہ آہستہ اوپر جاتا ہے اور پرس لا کے ماں کو دیتا ہے۔ وہ اسے کچھ پیسے دیتی ہے۔ )

راشد: شکریہ (صوفے پر بیٹھ جاتا ہے۔ )
وحیدہ : اب جاتے کیوں نہیں؟
راشد: غفور نے کہا تھا وہ مجھے پک کر لے گا۔

وحیدہ : اچھا۔ (وقفہ) جمیلہ کو دیر ہو گئی۔ راشد! ایک بات بتاؤں تمہیں۔ ایک بار جمیلہ نے ایک شخص مالک کا ذکر کیا تھا جو اس کے ساتھ دفتر میں کام کرتا ہے۔ اس نے کھل کے تو بات نہیں کی لیکن مجھے خیال ہوا کہ شاید وہ اسے پسند کرتی ہے۔ لیکن مالک اس سے شادی نہیں کرے گا اور شاید وہ یہ بھی جانتی ہے۔

راشد: کیوں؟

وحیدہ : وہ اس کی نسبت کہیں زیادہ اچھا ہے۔ ۔ ۔ ایک وجیہہ اور ذہین نوجوان۔ ۔ ۔ بہت سی عورتیں اس کے لیے مقابلہ کریں گی۔ ۔ ۔ بے چاری عورتیں!

راشد: آپ ہمارے لیے پریشان ہونا بند کر دیں۔ برائے مہربانی۔ آپ بچوں کے کام سے فارغ ہو چکی ہیں۔

وحیدہ : لیکن بچوں کے بچوں سے نہیں۔ (اٹھتے ہوئے ) اچھا، تم اپنے دوستوں کا انتظار کرو اور میں اپنے بچوں کا۔

(وحیدہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف جاتی ہے اور اوپر سونے کے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ کچھ دیر بعد باہر سے دروازے کا تالا کھولنے کی آواز آتی ہے اور پھر جمیلہ داخل ہوتی ہے۔ )

راشد: ہیلو!
جمیلہ: ہیلو! امی کہاں ہیں؟
راشد: ابھی اوپر گئی ہیں، کچھ آرام کرنے۔
جمیلہ: وہ ٹھیک ہیں؟
راشد: اس بیمار کا کیا پوچھنا جو چند نوالے محض اس لیے کھائے کہ خالی پیٹ دوا نہیں کھائی جا سکتی۔
جمیلہ: (چونکتے ہوئے ) تم کبھی اتنے قنوطی نہیں لگے۔
راشد: جمیلہ، مجھے پتا ہے، تم بہت تھک چکی ہوگی لیکن میں پھر بھی تمہارے چند منٹ لوں گا۔
جمیلہ: بولو۔

راشد: تمہیں پتا ہے، ہم بہت چھوٹے تھے جب ابو کا انتقال ہوا۔ اور امی نے اکیلے ہمیں پالا ہے۔ پھر انیلہ ان کے لیے دو بچے چھوڑ گئی۔ (وقفہ) تم ایک کام کرکے انہیں کافی ذہنی اور جسمانی آرام دے سکتی ہو۔ اور اس میں تمہارا بھی بھلا ہے۔

راشد: اوہ، میں سمجھی۔ تو انہوں نے تم سے بات کر دی۔ (وقفہ) داؤد؟ ( راشد اثبات میں سر ہلاتا ہے ) اگر میں کہوں کہ میں نے اسے کبھی اس آنکھ سے نہیں دیکھا تو مجھے معلوم ہے جواب کیا ہو گا۔ میرے انکار کی وجوہات مختلف ہیں۔ جس شخص نے انیلہ کا انتخاب کیا اسے مجھ سے بالکل مختلف قسم کی لڑکی کا ساتھ چاہیے تھا۔

راشد: کسی کو پسند کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ناپسند ہیں۔

جمیلہ: کسی کو پسند کرنا اور بات ہے اور کسی کو شادی کے لیے چننا اور بات۔ میں انیلہ سے ایک سال ہی تو چھوٹی تھی۔

راشد: (مسکراتے ہوئے ) تو تمہیں اس بات کا غصہ ہے۔

جمیلہ: (جھینپتے ہوئے ) بکو مت۔ میرا مطلب ہے جو شخص میرا ہاتھ مانگے گا وہ داؤد سے بہت مختلف ہو گا۔

راشد: ہو سکتا ہے اسے تم جیسی لڑکی بھی اتنی ہی پسند آتی، لیکن اس نے انیلہ کو اس لیے چناکیونکہ وہ پہلے اس سے ملا۔

جمیلہ: ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے۔ لیکن اب وہ مجھ سے صرف اس لیے شادی کرے گا کہ میں اس کے بچوں کی موزوں ترین آیا بن سکتی ہوں۔

راشد: ہر ماں اپنے بچوں کی آیا ہوتی ہے، سگے ہوں یا سوتیلے۔

جمیلہ: بہر حال، اسے اس سے کہیں زیادہ ہونا چاہیے۔ اگر میں داؤد سے شادی کر لوں تو کبھی خوش نہیں رہوں گی۔ قربانی کا یہ تصور فلموں میں اچھا لگتا ہے، شاید اس لیے کہ فلمیں جلدی ختم ہو جاتی ہیں۔

راشد: انسان کو سب کچھ اپنی پسند کا نہیں ملتا۔ یہاں وہاں، ہمیں سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔

جمیلہ: سچ بتاؤں، لفظ ’شادی‘ ہی میرا موڈ خراب کر دیتا ہے۔ اگر مرد شادی نہ کرے تو کوئی پروا نہیں کرتا، لیکن عورت تو شاید پیدا ہی شادی کے لیے ہوتی ہے۔ (طنزیہ) اس کا سب سے بڑا کارنامہ شادی کرنا ہے۔ اس کے والدین اس کی پیدائش کے دن سے ہی اسے شادی کے لیے تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور وہ ہوش سنبھالتے ہی ان تیاریوں میں خود بھی شریک ہو جاتی ہے۔ (وقفہ) وہ سنتی ہے کہ وہ ماں باپ کے گھر میں ایک مہمان ہے۔ ایک دن آئے گا جب کوئی آئے گا اور اسے دور لے جائے گا۔

اور یہ دن جتنی جلدی آئے اتنا ہی اچھا ہے کیونکہ اسی دن سے اس کی اصل زندگی شروع ہو گی۔ (وقفہ) وہ سراپا انتظار بن جاتی ہے۔ اس کی توجہ گھر سے زیادہ گھر کے راستے پہ مرکوز ہوتی ہے، اور اپنی ذات سے زیادہ آنے والے پر۔ (وقفہ) وہ اپنی نشو و نما نہیں کرتی بلکہ اپنے آپ کو اس طرح ڈھالنے کی کوشش کرتی کہ اپنے ارد گرد کے لڑکوں کی توجہ کھینچ سکے۔ کبھی کبھی تو مجھے یہ تصوف کی بگڑی ہوئی شکل لگتی ہے۔ یعنی والدین کا گھر ایک قید خانہ ہے جہاں لڑکی بے قرار، تڑپتی رہتی ہے، ایک ان دیکھے، ان جانے کی ذات میں، اس کے ماحول میں خود کو فنا کر دینے کی آرزومند، جس کے نتیجے میں اسے نروان حاصل ہو۔

(طویل وقفہ)

سوجب کسی لڑکی کی شادی میں تاخیر ہو جائے تو وہ یہ سوچنے لگتی ہے کہ ضرور اس میں کوئی کمی ہے۔ وہ گھبرا ٹھتی ہے۔ منزل کی آرزواتنی شدید ہو جاتی ہے کہ اب اسے بیاہ کے لے جانے والے اور بھگا کے لے جانے والے میں فرق نظرآنا بند ہو جاتا ہے۔

راشد: مجھے افسوس ہے۔ میں تمہارے جذبات کو نہیں چھیڑنا چاہتا تھا۔ مجھے یہ رشتہ مناسب لگا۔ میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ ایک اچھا موقع گنوا دینا اچھا نہیں۔

جمیلہ: وہ پرندے اور جانور جو کسی پھندے میں پھنس جاتے ہیں انہوں نے ایک سنہری موقعے سے ہی فائدہ اٹھانا چاہا ہوتا ہے۔ (ہنستی ہے )

راشد: بیشتر لڑکیاں، مرد بھی، اپنے خوابوں کے برعکس شادی کرتے ہیں۔ اور انہیں یہ معلوم ہوتا ہے۔ انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں اندیشے ہوتے ہیں، لیکن بخوشی سمجھوتا کرتے ہیں، اور عام طور پر اچھی خاصی زندگی گزارتے ہیں۔

جمیلہ: اگر میں ایک ان پڑھ، بے سہارا لڑکی ہوتی، اپنے والدین پر ایک بوجھ، جن کے بعد کوئی میرا والی وارث نہ ہوتا؛ شادی میرے لیے ایک محفوظ مستقبل کی ضمانت ہوتی، جیسے ایک بے روزگار شخص کے لیے معمولی ترین نوکری بھی ایک نعمت ہوتی ہے۔ لیکن شکر ہے میں شادی کے پیغام کو ملازمت کے طور پر قبول کرنے کی پابند نہیں۔ (وقفہ) میرا مطلب ہے، یہ عجیب بات نہیں کہ ایک بہن بچے پیدا کرنے کے لیے شادی کرے اور دوسری انہیں پالنے کے لیے۔ گھر اور پولٹری فارم میں کچھ فرق ہونا چاہیے۔

راشد: ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔
(ایک کار کا ہارن بجتا ہے۔ راشد جانے کے لیے اٹھتا ہے۔ )

جمیلہ: تمہیں جانے سے پہلے ایک بات بتا دوں۔ میں اس ایگزیکٹو سکیل کی جاب کے لیے شارٹ لسٹ ہو گئی ہوں جس کے بارے میں تمہیں بتایا تھا کہ میں نے درخواست دی تھی۔

راشد: واہ! مبارک ہو!

جمیلہ: شکریہ۔ پہلی بار مجھے موقع ملا ہے کہ میں اپنی کوالیفکیشنزاور تجربے کے مطابق جاب حاصل کر سکوں۔

راشد: میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ خدا حافظ۔ (چلا جاتا ہے )
(پردہ)

] ’موک بیگر‘ (Mock Beggar) تھیٹر کمپنی نے 25۔ 27 مارچ 1993 کو یونیٹی تھیٹر، لیورپول اور 17 اپریل 1993 کو ’گرین روم‘ مانچسٹر میں Something to Share کے عنوان سے اس ڈرامے کا انگریزی ترجمہ، ثقافتی فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے چھوٹی موٹی تبدیلیوں کے ساتھ، پیش کیا۔ کرداروں کے نام تبدیل کرکے Joanne Philips، Robert Philips، Valerie Philips رکھ دیے گئے تھے جو انگریز اداکاروں نے ادا کیے۔ ہدایت کار Di Christian تھیں۔ ]


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments