کیا وہ عمران خان کو نکالیں گے؟


آج کل ہر طرف سے ایک ہی بات ہو رہی ہے کہ مائینس عمران فارمولا طے پا گیا ہے؟ عمران ناکام ہو گیا ہے؟ سیلیکٹرز عمران خان سے جلد سے جلد نجات چاہتے ہیں؟ یہ سب بچوں والی باتیں ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان ناکام ہوا ہی نہیں، ناکام تو وہ ہوئے ہیں جو اسے لائے تھے۔ بیچارہ عمران تو حکومت کررہی نہیں رہا۔ حکومت تو وہ کر رہے ہیں۔ جب حکومت وہ کرررہے ہیں تو پھر کیسے ناکامی کی ساری ذمہ داری عمران خان پر ڈالی جاسکتی ہے؟

دوسری جو سب سے اہم بات یہ ہے کہ سلیکٹڈ ناکام ہو جائے یا ناکام کر دیا جائے اس سے بھائیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ غربت بڑھ جائے، لوگ بے روزگار ہوجائیں اس سے بھی بھائیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عمران خان کو ہر لمحے لاکھوں انسان گالیاں دیں اس سے بھی بھائیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عمران خان کو بھائی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے لائے تھے۔ ان کے وہ مقاصد پورے ہورہے ہیں۔ ان کے تمام کام ہورہے ہیں۔ انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں۔ پھر وہ کیسے عمران خان کو فارغ کریں گے؟

یہ جو تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جلد ہی ان ہاؤس تبدیلی آئے گی، عمران خان کو فارغ کر دیا جائے گا اور اس کی جگہ پر کوئی اور سیلیکٹڈ آ جائے گا۔ اس کا وقت نہیں آیا اور نہ ہی آئے گا۔ بھائی چاہے تو اگلے پانچ سال بھی عمران خان کو کرسی پر بٹھادیں گے اور ایسا ہی ہوگا کیونکہ عمران خان ان کی بہترین چوائس تھی ہے اور رہے گی۔ عمران خان نہ ڈیموکریٹ ہے، نہ ہی سوشلسٹ اور نہ ہی انقلابی۔ وہ صرف کرسی پر بیٹھ کر زندگی انجوائے کرنا چاہتا ہے۔ وہ کبھی نواز شریف اور بے نظیر جیسا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی بھٹو اور جناح جیسا۔

وہ پیدائش سے اب تک کپتان ہے اور کپتان رہے گا۔ وہ میڈیا جو اب عمران خان کو گالیاں دے رہا ہے اس سے کوئی پوچھے کہ عمران خان کو کیوں گالیاں دیتے ہو؟ عمران خان کا کیا قصور ہے؟ وہ قصور بتائیں۔ جن کا قصور ہے ان کے بارے میں کوئی ایک لفظ بول یا لکھ کر دکھائے؟ بیچارے عمران خان کو گالیاں دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ عمران چلا گیا تو کوئی اور عمران آ جائے گا چاہے اس کی شکل شہباز شریف جیسی ہی یو پھر شاہد خاقان عباسی یا اسد عمر جیسی۔ جمہوریت ایسی ہی رہے گی جیسی تھی۔ مسئلہ کہیں اور ہے اور وہاں دیکھنا منع ہے۔

کچھ عرصہ پہلے میں ایک ٹی وی چینل میں کام کرتا تھا۔ ہر روز مجھے بلوچ ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ بزدار کی گورننس کی وجہ سے مجھے روزانہ طعنے ملتے تھے۔ یہاں تک میرے دوست کہتے تھے یار اس بزدار کو یہاں سے جنوبی پنجاب لے جاؤ اور جنوبی پنجاب کو نیا پاکستان بنادو، ہماری جان چھوڑ دو۔ یہ باتیں سن سن کر مجھے رات کو نیند نہیں آتی تھی ہالانکہ میرے دوست مذاق کرتے تھے۔ پھر کرونا آ گیا اور میں اس نیوز چینل میں نہ جاسکا۔

میری دوستیاں بھی ختم ہو گئی۔ نوکری بھی چھوٹ گئی۔ اب اس نیوز چینل میں داخل ہوتا ہوں تو مجھے ہر طرف بزدار بیٹھا نظرآتا ہے۔ میرے لئے جنوبی پنجاب کا ہونا عذاب بن گیا ہے۔ اشارے سے، مسکرا کر اور تنقید کرکے دوست کہتے ہیں دیکھو یہ بھی بلوچ ہے یہ بھی بزدار کے علاقے سے ہے۔ اس ایک طعنے نے میرے پروفیشنل کیرئیر کو تباہ کر ڈالا ہے۔

اب بتائیں اس پوری صورتحال میں میرا یا بزدار کا کیا قصور ہے؟ بھائیوں نے عمران خان کو سلیکٹ کیا؟ عمران خان نے اپنے جیسا پنجاب میں سلیکٹ کیا؟ اب عثمان بزدار کا کیا قصور ہے؟ اور اجمل شبیر کا کیا قصور ہو سکتا تھا؟ اجمل شبیر نے تو حل نکال لیا وہ جنوبی پنجاب میں کچھ عرصہ کے لئے اپنے گاؤں میں بیٹھ گیا۔ اصل مسئلہ تو بھائیوں کا ہے کہ وہ جمہوریت کو شفاف چلنے دیں اور اپنا کام کریں۔ یہ عوام پر چھوڑ دیں کہ انہوں نے کس سیاسی جماعت کو ووٹ دینے ہیں اور کس کو نہیں؟

میڈیا کی تو صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر بحث کریں؟ لیکن گالیاں کس کو پڑ رہی ہیں عمران خان کو جو بیچارہ حکومت ہی نہیں کررہا۔ عثمان بزدار کو جس کو آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ پنجاب کا وزیر اعلی ہے بھی یا نہیں۔ گالیاں پڑ رہی ہیں اجمل شبیر کو جو بارہ سال سے زائد جرنلسٹ رہا اور ہر روز اسے طعنے دیے جاتے تھے کہ وہ بزدار کے علاقے کا ہے اور بلوچ ہے۔

بڑے بڑے تجزیہ کار اور اینکر پرسنز جو بیس بیس گھنٹے عمران خان کے لئے لائیو میراتھن کرتے تھے اور تبدیلی کو پاکستان کے تمام مسائل کا حل سمجھتے تھے ان سے سے تو کوئی نہیں پوچھتا؟ ان سے حقیقی اقتدار والوں نے کہا تھا یہ کرو یہ نہ کرو وہ ایسا کرتے تھے۔ آج بھی وہ عظیم صحافی ایسا کر رہے ہیں اور ہمیشہ ایسا ہی کرتے رہیں گے۔ یہی صحافت کا کردار ہے۔ عوام مایوس ہیں، جی عمران کچھ نہیں کررہا۔ سوال عمران کیا کرے؟ جب عمران حکومت ہی نہیں کر رہا تو الزام اس پر کیوں؟

اس ملک میں جس دن عمران خان کو گالیاں دینے کا سلسلہ بند ہو جائے گا اور عمران خان خود مستعفی ہو کر گھر چلا جائے گا اور حکومت براہ راست حقیقی طاقت والوں کے ہاتھوں میں ہوگی تب ہی تبدیلی آئے گا۔ اب بھائی پس پردہ حکومت کر رہے ہیں اور گالیاں کسی اور کو۔ یہ تو انصاف نہیں، یہ زیادتی ہے۔ چینل بند ہو جائے عمران ذمہ دار، کرپشن بڑھ جائے عمران ذمہ دار، غیر منتخب لوگ آ جائیں عمران ذمہ دار۔ معیشت کا بیڑہ غرق ہو جائے عمران ذمہ دار؟

اب عمران کی جگہ فلاں آ جائے تو کیا ہو جائے گا۔ ایک اور عمران اور پھر اسی کو گالیاں؟ مسئلہ کچھ اور ہے اور جہاں مسئلہ ہے وہاں کوئی جا نہیں سکتا۔ اس لئے عوام سے اپیل ہے کہ وہ زندگی انجوائے کریں۔ عوام نے تو خان صاحب کا انتخاب بھی نہیں کیا تھا۔ کیوں پھر عمران عوام کے بارے میں پریشان ہوں؟ عوام نے جن کو ووٹ دیا تھا انہیں ہمت دکھانی ہوگی وہ تو دوسرے ملکوں میں بیٹھے ہیں اور ہمیشہ بکنے کے لئے تیار ہیں۔ یہاں جب تک سیاستدان ہمت نہیں دکھائیں گے اور عوام ان کا ساتھ نہیں دیں گے کچھ نہیں ہونے والا۔ میڈیا کی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے اسے بھی بھائی لوگ ہمیشہ سے چلاتے آئے ہیں اور ہمیشہ چلاتے رہیں گے۔ جن کے یہ میڈیا ہاؤسز ہیں وہ بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ اس لئے بیچارے اجمل شبیر کو نیوزروم میں کوسنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اجمل شبیر تو ہنسنے ہنسانے والا انسان ہے اب وہ بلوچ ہے تو اس میں اس کا کیا قصور؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments