آیا صوفیا، ہنگامہ ہے کیوں برپا؟


بات اگر چل ہی نکلی ہے تو میں لبرل مافیا، موم بتی ہاتھوں میں پکڑے اندھیرے کے باسیوں اور غیر ملکی این جی اوزپر پلنے والوں کو بتاتا چلوں کہ بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ایک مسجد تھی جس کا نام جامع مسجد قیساریہ تھا جسے مشہور اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے تعمیر کرایا تھا۔ اسرائیل نے اس جامع مسجد کو نائٹ کلب اورشراب خانے میں تبدیل کر کے اسی ( 80 ) اقسام کی شراب مہیا کرنے کی منظوری دی اوراسے کامیاب بنانے کے لیے دنیا بھر کے امیر اور شرابی یہودیوں کے لیے ”سدوت یام“ نام کی ایک پوری بستی آباد کر ڈالی۔ اتنا بڑا ظلم ہوا لیکن مجھے تو یاد نہیں کہ کسی لبرل نے کھل کر اس کی مذمت کی ہو۔

بیت المقدس ہی کی ایک قدیم اور تاریخی مسجد الاحمر کو بھی اسرائیل نے نائیٹ کلب اور شادی ہال میں تبدیل کیا۔ نائیٹ کلب میں تبدیل کرنے سے پہلے اسے سکول اور الیکشن کمپنیز کے لیے استعمال کیا جاتا رہا تھا۔ یہ صرف دو مثالیں ہیں ورنہ اسرائیل نے اسی ( 80 ) کے قریب ایسی مساجد کو نائیٹ کلب، شراب خانوں، ریسٹورنٹس اور اصطبل بنانے کے لیے مختص کیا جو سیاحتی مقامات پر واقع تھیں۔ صدیوں جہاں اللہ اور اس کے رسول کا نام لیا جاتا رہا تھا، انہی مساجد کی عمارات میں اب ننگے بدن تھرکتے تھے، شراب کے جام لنڈھائے جاتے تھے، مر دو زن الف ننگے ہو کر روشن خیالی کا پرچار کرتے تھے اور میرا جسم میری مرضی کا عملی مظاہرہ ہوتا تھا اور اب تک ہو رہا ہے لیکن مجھے یاد نہیں کسی لبرل زدہ روشن خیال دانشور نے اسرائیل کی ان ناجائز حرکتوں کی مذمت کی ہو، احتجاج کیا ہو یامذہبی آزادی کا رونا رویا ہو۔

کیا ان دانشوروں کو جسٹن کروسن (Justin kroesen) کی مشہور کتاب Mosques to Cathedral کا علم ہے؟ جس کے مطابق جب مسلمانوں کو سپین سے زبردستی نکالا گیا تو تین ہزار مساجد کو چرچوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ صرف مساجد ہی نہیں وہاں تو مسلمانوں سے ان کے گھر اور سامان بھی چھین لیا گیا تھا؟ آیا صوفیا کی مسجد میں تبدیلی کو ظلم اور بین الاقوامی ہم آہنگی کے لیے خطرہ سمجھنے والے حضرات کیا سپین میں کسی ریلی یا جلسے کا اہتمام کر کے یہ مطالبہ کریں گے کہ مسلمانوں کو ان کے چھینے گئے گھر اور ان کا ضبط کیا گیا سامان واپس دیا جائے اورمحولہ بالا چرچوں کو دوبارہ مساجد میں تبدیل کیا جائے؟

ارے ہاں! یاد آیا 6 دسمبر 1992 میں انڈیا میں ایک بابری نام کی مسجد کو بھی شہید کیا گیا تھا۔ تب تو دنیا کو مذہبی آزادی کا خیال نہ آیا۔ سب نے انڈیا کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ مجال ہے جو کسی دانشور کے پیٹ میں مروڑ اٹھا ہو، کسی کو بین المذاہب ہم آہنگی کی یاد نے ستایا ہو؟ کسی نے احترام انسانیت اور تعظیم مذاہب کے افسوس میں آنسو بہائے ہوں؟

لیکن جب سے ترکی کے اعلی ترین اتھارٹی، سپریم کونسل آف اسٹیٹ کی جانب سے آیاصوفیا کو میوزیم سے تبدیل کرکے اس کی مسجد کی حیثیت کو دوبارہ بحال کیا ہے پوری دنیا سے غیرمعمولی ردعمل سامنے آ رہا ہے اور بہت سے افراد اسے غیرقانونی عمل قراردے کر اس کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن اگر یہ حضرات واقعی ”قانون“ کے سچے سیوک ہیں تو انہیں ترکی کے نیشنل آرکائیو میں رکھا دستاویزات کا وہ پلندہ نظر کیوں نہیں آتا جس کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سلطان نے آیا صوفیا کو باقاعدہ خرید ا اور پھر اسے مسجد کے لیے وقف کر دیا۔

یہ دانشور حضرات سلطان کی وقف کی ہوئی پراپرٹی کو اس کے مالک کے مرضی کے خلاف کیونکر استعمال کرنا چاہتے ہیں؟ اگر برا بھلا ہی کہنا ہے تو سلطان الفاتح یا طیب ایر دوان کی بجائے انہیں برا بھلا کہیں جنہوں نے اپنا یہ مقدس مقام سلطان کے ہاتھوں اس وقت فروخت کر دیا جب ان کی مدد کے لیے آسمان سے کوئی فرشتہ نازل نہ ہوا جیسا کہ ان کا عقیدہ تھا۔ شاید اس وقت ان کا دل ٹوٹ گیا ہو اور انہوں نے فیصلہ کیا ہو کہ ”جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی“ ۔

یوں سلطان نے اس پراپرٹی کو خریدا اور ”میری پراپرٹی میری مرضی“ کے تحت اللہ کی رضا کے لیے اسے مسجد میں تبدیل کر دیا۔ ان حضرات کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ جب سلطان الفاتح نے استنبول فتح کیا تھا تو وہاں صرف آیا صوفیا ہی نہیں بلکہ کئی اور چرچ بھی موجود تھے لیکن سلطان صرف آیا صوفیا میں کیوں داخل ہوا؟ اس نے صرف اسے ہی خرید کر مسجد میں کیوں تبدیل کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ آیا صوفیا محض چرچ ہی نہیں تھا بلکہ عیسائیت کا جنگی مرکز بھی تھا۔

مسلمانوں کے خلاف تمام تر سازشوں کا لاوہ یہیں پکتا تھا۔ اس لحاظ سے فتح کے بعد یہ سلطنت عثمانیہ کی قومی پراپرٹی بن گئی اور سلطان اسے خریدے بنا کسی بھی مقصد کے لیے استعمال کر سکتا تھا لیکن اس نے سوچا کہ جہاں مدتوں اسلام کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں کیوں نہ اسے مسجد میں تبدیل کر کے اسلام کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے؟ چونکہ اسلام کے برعکس عیسائیت میں مذہبی عبادت خانوں کی خرید وفرخت کی اجازت ہے۔ لہذا آرتھوڈکس کے مذہبی ذمہ داروں سے کہا گیا کہ مسلمان اس عمارت کو خریدنا چاہتے ہیں جسے انہوں نے قبول کیا اوریوں سلطان فاتح نے اس تاریخی عمارت کو خرید لیا۔

تاہم سلطان نے اس کار مقدس میں اتنی احتیاط برتی کہ اسے اپنی ذاتی دولت سے خریدا، بوقت خریداری خود کو سلطان کی بجائے ایک عام خریدار کی حیثیت سے متعارف کرایا اوراس عمارت خرید نے کے بعد ایک ٹرسٹ قائم کر کے اس کی نگرانی میں وقف کر دیا جسے آپ ”وقف ٹرسٹ“ یا ”وقف کمیٹی“ کہہ سکتے ہیں۔ یہی وقف کمیٹی اس مسجد کا نظام چلاتی رہی یہاں تک کہ 1934 میں مصطفیٰ کمال پاشا کی وزرا کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے اس مسجد کومیوزیم میں تبدیل کر دیاجسے اب ترکی کی عدالت عالیہ نے دوبارہ اپنی سابقہ اصل حیثیت یعنی مسجد میں بحال کر دیا ہے۔

اب یہ حضرات واویلا کر رہے ہیں حالانکہ اصول کی بات ہے کہ جب کمال پاشا اس مسجد کو میوزیم میں تبدیل کر رہا تھا تو دنیا کو اس وقت احتجاج کرنا چاہیے تھے کہ میاں تم کیونکر ایک چرچ کو میوزیم میں تبدیل کر رہے ہو؟ لیکن اس وقت کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کیونکہ سب کو پتا تھا کہ آیا صوفیا چرچ ہے نہیں بلکہ چرچ تھا جسے سلطان الفاتح نے عیسائیوں سے خرید مسجد کے لیے وقف کیا تھا۔ سب اس بات پر خوش تھے کہ ایک مسجد میوزیم بن گئی لیکن اب سب سراپا احتجاج ہیں۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے جس کا اعلان اللہ تعالیٰ نے صدیوں پہلے قرآن مجید میں کیا تھا کہ یہ یہود و نصاریٰ۔ تم مسلمانوں سے اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تم ان کی ملت میں داخل نہ ہو جاؤیعنی غیرمسلم نہ بن جاؤ۔ (مفہوم سورۃ البقرہ، آیت نمبر 120 ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments