بنکوں کا کرونا ریلف پیکج۔ گلاس توڑا بارہ آنے


ہم میں سے ہر شخص کو بازاروں میں قائم ہوٹلوں میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ ہوٹل میں جاکر سب سے پہلی کوشش صاف میز کی تلاش ہوتی ہے، جس کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔ بہرحال بیرا ایک میلا سا کپڑا لے کر آتا ہے اوراپنے تئیں میز کو صاف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک ہی سانس میں پندرہ پکوانوں کے نام بتا کر آپ سے آڈر وصول کرتا ہے۔ جسے کھانے کے بعد ہم کاؤنٹر پر جاتے ہیں اور بل کی ادائیگی کرتے ہیں، اسی دوران بیرا زور کی آواز لگا کر بل کی رقم بتاتا ہے اور ساتھ ہی لپک کر خود بھی بخشش کے لیے پہنچ جاتا ہے۔ اکثر ایسی صورتحال بھی ہوتی ہے کہ چند بے چارے ایسے بھی ہوٹل جاتے ہیں جن کے لیے بیرا کاونٹر پر بل کی رقم کی بجائے اردو کو وہ محاورہ دہراتا ہے کہ ”کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے“ اور بخشش کے لیے بھی دوڑ نہیں لگاتا ہے۔

کرونا کی وبا سے پیدا ہونے والی معاشی بد حالی سے بچاؤ کے لیے بنک دولت پاکستان نے تمام بنکوں اور مالیاتی اداروں کو ہدایت کرتے ہوئے 236 ارب روپے کے قرضے کی وصولی مؤخر کردی ہے۔ بنک دولت پاکستان نے پاکستان بنکس ایسوسی ایشن کے اشتراک سے قرض داروں کے لیے ایک جامع ریلف پیکج کا اعلان کیا ہے۔ جس کے تحت اصل رقم کی وصولی ایک سال کے لئے مؤخر کردی ہے لیکن قرض دار شرائط و ضوابط کے مطابق قرض پر لاگو ہونے والا سود ادا کرنے کے پابند ہوں گے ۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ پکیج چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کی ریلیف کے لئے جاری کیا ہے۔

میرے ایک دوست جنھوں نے ایک بنک سے دو گاڑیاں لیز پر حاصل کررکھی تھیں۔ ریلیف پیکچ سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے ”مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے“ کے مصداق متعلقہ بنک کی ہیلپ لائن پر کال کی اور ریلیف پیکج سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے معلومات حاصل کرنا چاہیں۔ جس پر انھیں بتایا گیا کہ آپ کی درخواست باقاعدہ منظوری کے لیے آگے بھیجی جائے گی اور اگر آپ کی درخواست منظور کر لی گئی توآپ کو اطلاع کردی جائے گی۔ لیکن دوست کو کوئی کال موصول نہیں ہوئی اور اس دوران گاڑیوں کی اقساط معمول کے مطابق ان کے بنک اکاؤنٹ سے منہا کی جاتی رہیں۔

اس دوران دوست کو ایک اور گاڑی کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے اسی بنک سے دوبارہ رجوع کیا، اور بنک نے ایک اور گاڑی کے لیے ان کی درخواست پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ چند دن کے بعد بنک نے انھیں بتایا کہ آپ کی نئی گاڑی کی درخواست پر یہ اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ آپ نے بنک سے کرونا ریلیف پیکج حاصل کیا ہے جس پر بنک کا کہنا یہ ہے کہ اگر ایک شخص ادائیگیوں میں سہولت کا طالب ہے تو ایسے شخص کو نئی گاڑی کیوں کر دی جائے؟

جس پر انہوں نے بنک کو بتایا کہ انہوں نے ریلیف پیکج کے لیے کال ضرور کی تھی لیکن انھیں درخواست کی منظوری کی کوئی اطلاع نہیں ملی اور ان کی اقساط معمول کے مطابق منہا کی جاتی رہی ہیں۔ بنک کے متعلقہ افسر نے انھیں بتایا کہ آپ بنک کی ہیلپ لائن پر کال کریں اور اس پیکج کو ختم کروانے کے لیے دوبارہ درخواست دیں۔ خیر انہوں نے بنک کی ہیلپ لائن پر کال کی تو انھیں یہ بتایا گیا کہ اس پیکج کو ختم کروانے کے لیے تین ماہ کی اقساط کی رقم پر 6 / 7 فیصد چارجز ادا کرنے ہوں گے اس کے بعد یہ پیکج ختم کر دیا جائے گا۔ یعنی وہی بات کہ ”کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے“ ۔

اس سارے قصے کو سن کر اقبالؔ کی نظم ”لینن خدا کے حضور“ کے اشعار یاد آرہے ہیں کہ:
آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت
میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات
ہم بند شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
تو خالق اعصار و نگارندہ آفات!
اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں
حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات
وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود
وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیر سماوات؟
رعنائی تعمیر میں رونق میں صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کر ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات

بنیادی بات یہ ہے کہ ریاست کام عوام کو سہولیات پہنچانا ہے۔ اس کے لیے ہونا یہ چاہیے تھا کہ قرض کی رقم میں سہولت دی جاتی اور اقساط کی رقم کم کرکے ادا کی جانے والی اقساط اصل رقم میں سے منہا کی جاتی، ناکہ اصل رقم کو جوں کا توں رکھتے ہوئے سود وصول کیا جائے۔ وہ جو ہم سنتے تھے کہ ”ریاست ہوگی ماں کے جیسی“ وہ کہاں ہے؟ اس پیکج سے تو لگتا ہے کہ یہ ریاست کی بجائے کسی منافع خور سیٹھ نے متعارف کروایا ہے۔ کرونا کی وبا نے تو غریب عوام پر تابوت کی آخری کیل کا کام کیا ہے۔ عوام تو پہلے ہی مافیا کے شکنجے میں ہیں۔ آٹا، چینی، اودیات سمیت دیگر شعبوں کے مافیا نے جس طرح غریب عوام کا لہو چوسا ہے وہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ نہ جانے عطا ء الحق قاسمی صاحب کی یہ دعا کب قبولیت کا شرف حاصل کر پائے گی؟ :

خوشبوؤں کا اک نگر آباد ہونا چاہیے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہیے
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments