روحانیت اور تصوف: انسان کا خالق کائنات کے ساتھ یکتائی کا تجربہ


تصوف، صوفی، اہل صوف یا انگریزی میں صوفی ازم کی اصطلاح اسلامی سلسلہ روحانیت کے لئے مستعمل ہے لیکن اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ اس کے پیچھے روحانیت کا جو عظیم تجربہ ہے اس کا تعلق صرف اسلام سے یا کسی ایک مذہب سے نہیں بلکہ یہ تجربہ انسان کا اپنے خالق کے ساتھ یکتائی کا تجربہ ہے۔ اس تجربہ کی جڑیں انسانی شعور کے فطری تجسس میں موجود ہیں۔

جب انسان اول اول اس دنیا میں آیا تو وہ خود کو اور اپنے ارد گرد پھیلی ہمہ جہت زندگی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور دھرتی کی آغوش میں پلنے والی مخلوق اور آسمان پر سورج، چاند ستارے کہاں سے آئے ہیں۔ اس کا یہ پہلا تجربہ حیرت کا تھا۔ پھر جب اس نے فطرت کی ستم ظریفیاں جھیلیں جن میں اندھیرا، موسموں کی شدت اور سب سے بڑھ کر موت کا خوف تھا۔ خوف کے اس تجربے سے اس کو یہ معلوم ہو گیا کہ وہ ان سب کے سامنے بے بس ہے۔

اسے اپنی کم مائیگی کا شدید احساس ہوا کہ وہ پیدا ہو نے پر قادر ہے نہ اپنے فنا ہو جانے پر۔ پہلے پہل اس پر طرح طرح کے خوف حاوی تھے جن میں سے بہت سوں کو تو اس نے اپنی تاریخ کے لمبے سفر میں مسخر کر لیا مگر موت کے خوف نے انسانی نفسیات پر ہمیشہ کے لئے اپنے پنجے گاڑ دیے۔ ایسی غیر یقینی اور غیر محفوظ صورت حال نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ کسی طاقتور سہارے کی پناہ ڈھونڈے۔ ابتدا میں اس کی سوچ صرف مظاہر فطرت میں پناہیں تلاش کر تی رہی۔

جب اس کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ مظاہر فطرت بھی اسی کی طرح بے بس ہیں تو بلآخر اس نے مظاہر فطرت اور اپنی زندگی کے خالق کی تلاش شروع کردی۔ یہ کوشش اس کی درون ذات کی پکار تھی۔ اس کا ظاہر باہر کی دنیا میں جکڑا ہو ا تھا اور وہ اپنی باطنی تگ و دو سے اپنے خالق تک پہنچنا چاہتا تھا تاکہ دکھ سے نجات حاصل کر سکے۔

انسان کا شعور رفتہ رفتہ ترقی کر تا رہا یہاں تک کہ آج وہ کرہ ارض کے ہر تہ و بالا کو جان لینے کے بعد چاند ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے لیکن انسان کے باطن میں اصل حقیقت کو پالینے کا جو سفر روز اول سے جاری ہو ا تھا وہ اب بھی جاری ہے اورہمیشہ جاری رہے گا۔ کیونکہ انسان صرف جسم ہی نہیں بلکہ اپنے شعور کی بنا پر اپنے باطن میں ایک پوری کائینات رکھتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دل میں نور کی ایک کرن موجود ہے۔

اگرچہ زندگی کی ضروریات اور مادی دنیا کی چمک دمک اس روشنی کو دھندلا دیتی ہے مگر یہ دنیا کے تلخ حقایق ہی ہیں جو اس کی کم مائیگی کا پردہ چاک کر دیتے ہیں اور وہ نہ صرف اپنے باطن کے اندھیرے میں چھپی روشنی کو دیکھ سکتا ہے بلکہ اس کا دل منبع نور میں ضم ہو جانے کی تڑپ سے معمور ہو جاتا ہے۔ جو ایک باراس رستے پر چل نکلے اس پر سفر کے پیچ و خم خود بخود آشکارہو تے چلے جاتے ہیں۔ انسانی روح روشنی کے منبع کا جزو ہے۔ یہ وہ قطرہ ہے جو سمندر میں اپنی ہستی کو گم کر نے کے لئے بیتاب ہے۔ اس منزل کی طرف جہد مسلسل ہی رو حانیت ہے۔

روحانیت کے رخت سفر میں سب سے اہم چیز سچی لگن اور ہر شے کے ظاہری وجود کے پار حقیقت کو دیکھنے کا حوصلہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان خصوصیات کی پرورش اور تعلیم ہمیشہ سے دنیوی علوم کی فہرست میں شامل نہیں رہیں۔ اسی وجہ سے انسانی تاریخ میں خال خال ہی روحانیت کے تجربات سے معمور لوگ نظر آتے ہیں۔ اس بنا پر لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے کہ اس راستے پر چلنا یا اس سفر کو سمجھنا صرف مخصوص لوگوں کا کام ہے حالآنکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ بس انسان میں اس شعور کی افزایش شرط ہے۔

بات یہ ہے کہ جب انسان پیدا ہو تاہے تو وہ اپنے ارد گرد کی چیزوں کو سب سے پہلے لمس سے پہچانتا ہے۔ جوں جوں بڑھوتی ہو تی ہے تو وہ اپنے تمام حواس خمسہ سے کام لینے کے قابل ہوجاتا ہے لیکن یہ حواس اسے صرف باہر کی مادی دنیا سے متعارف کر واتے ہیں۔ بالغ ہو کر وہ اس دنیا میں اپنی پہچان اپنی جنس، اپنے خاندان، اپنے وطن، اپنی زبان یا اپنے مذہب کے حوالوں ہی سے جانتا ہے۔

اس طر ح کی سوچ جو ا نسان کو اس کی معاشرتی اور مادی حقیقتوں نے دی ہے اسے اپنی باطنی طہارت اور کائینات سے اپنے رشتے کے بارے میں تفکر کی فرصت ہی نہیں دیتی ورنہ کوئی بھی انسان جو اس راستے کو اپنائے گا وہ اعلی منازل طے کر سکتاہے۔ یہ سر بلندی مخصوص لوگوں کے لئے مختص نہیں۔ ایسا ہر گز نہیں کہ معدودے چند کے سوا باقی انسانوں کو قدرت نے روحانی طور پر اپاہج پیدا کیا ہے۔ بات فقط اتنی ہے کہ دنیوی تعلیم و تربیت کی کی طرح روحانیت بھی تعلیم و تربیت، یکسوئی، لگن اور محنت چاہتی ہے۔

ہر نئے میدان کی طرح یہ مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ روحانیت کو لوگوں نے اپنی لا علمی کے باعث اسرار کے حجاب میں لپیٹ دیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ حجاب اتارا جائے اور انسانیت کی سر بلندی کے راستے کا سفر عام کر دیا جائے کیونکہ نسل انسانی اب تاریخ کے ایسے مقام پر ہے کہ کرہ ارض اور اس کے دامن میں پلنے والی ہر مخلوق کی بقا صرف روحانیت کی امن پسند فضا ہی میں ممکن ہے۔

انسان کے بڑھتے ہوئے شعور کے ساتھ روحانیت کے راستے کو سمجھنا ناممکن نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسے مذہب، معیشت اور معاشرت کے معاملات از بر ہو سکتے ہیں تو روحانیت جو مذہب کا جوہر ہے وہ سمجھ میں کیوں نہیں آسکتی؟

اس سوال کا جواب دور حاضر کے ان نقطہ ہائے نظر میں پوشیدہ ہے جن پر ہمارے معاشروں کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ کم از کم پانچ سو سال سے جدیدسائنس کا دور ہے جو صرف اور صرف مادی حقیقت کو قبول کر تی ہے۔ اس کی بنیاد پر رائج تعلیمی، سیاسی، معاشی اور سماجی ادارے سب کے سب مادہ پرست ہیں اور کسی ایس حقیقت کو نہیں مانتے جسے مادی طور پر ثابت نہ کیا جاسکے۔ سائنس نے مادی سطح پر بہت ترقی کی ہے لیکن انسان کی ضروریات صرف مادی نہیں ہیں۔

اس کے جذبے، اس کے احساسات اور شعور کچھ اور بھی چاہتے ہیں جس سے مادہ پرست معاشرے مکمل طور پر رو گردانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے فرد کو اس کی ذاتی زندگی میں بغیر کسی باطنی سہارے کے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے آج کا انسان اندر سے خالی، ادھورا اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی زندگی سے غیرمطمعن ہے۔ وہ اپنی ٹکڑوں میں بٹی ہو ئی ذات کو اکٹھا کر نا چاہتا ہے مگر اسے اپنے باطن کو سنوارنے کی تعلیم ہی نہیں دی گئی۔ اگر ہمارے تعلیمی ادارے، ہمارا معاشرہ روحانیت کی تعلیم کو عام کر دے تو لوگ اپنی روحانی قوت سے مالا مال ہو جائیں گے۔ وہ پوری انسانیت بلکہ دھرتی کی گود میں پلنے والی ہر مخلو ق سے ایک گہری یگانگت کا رشتہ محسوس کریں گے۔

پچھلے دنوں میں ایک پاکستانی اینکر نے راول ٹی وی کے انٹر ویو میں مجھ سے ہندوستان اور بطور خاص پنجاب میں صوفیا کے بارے میں سوال کیا کہ کیا صوفیا کی آمد سے پہلے بھی ہندوستان میں روحانیت کا کوئی وجود ملتا ہے؟

میری سمجھ بوجھ کے مطا بق تصوف کا لفظ اسلام میں روحانیت کی راہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور تصوف کے سلسلے ہندوستان میں صوفیوں کی آمد سے شروع ہو ئے۔ مگر پنجاب بلکہ ہندوستان میں روحانیت کے سلسلے ہزاروں سال پرانے ہیں۔ ہندوستان کی معاشرت اس کی اجتماعی نفسیات سے الگ کر کے نہیں دیکھی جا سکتی۔ وادی سندھ کی تہذیب دنیا کی سب سے پرانی دو تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ عالمی محققین کے مطابق یہ معاشرہ تقریباً پانچ ہزار سال پہلے ترقی کی منازل طے کر رہا تھا اور یہ وہ جگہ ہے جہاں دنیا کی قدیم ترین تحریر قلم بند ہو ئی اور وہ ہے ’رگ وید‘ ۔

سنسکرت میں لفظ ’رگ‘ کا مطلب ہے ’رب‘ اور لفظ ’وید ”کا مطلب ہے‘ علم یا گیان“ یہ کتاب خدا تعالی کی حمد و ثنا کے گیتوں سے بھری ہو ئی ہے۔ ویدوں کے بعد اپانشد کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔ تقریباً آٹھ سو قبل مسیح سے لے کر سنہ پندرہ سو تک ان کی تخلیق شدو مد سے ہو تی رہی اور ویدانت کے فلسفے کو ماننے والے آج تک یہ جہد مسلسل کرتے آ رہے ہیں۔ اپانشد کے ہمہ گیر روحانی فلسفے نے ابتدا ہی سے پوری دنیا میں روحانیت کے راستے پر چلنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا، یہاں تک کہ یو نان کا صوفی عالم سقراط ایتھنز میں رہنے والے تاجر براہمنوں کی محفلوں میں ’اپا نشد‘ سننے جایا کر تا تھا اور سمجھنے کے لئے ان سے سوال کیا کر تا تھا۔

ہندوستان میں روحانیت کا سلسلہ اپانشد کے رشیوں، جین مت کے جو گیوں اور بدھ مت کے بھکشو وں نے خوب پھیلایا اس لئے جب اسلامی حکومتوں کا دور شروع ہوا اور صوفیا کی آمد ہو ئی تو ہندوستان کی سر زمین سادھو، سنتوں، رشیوں، منیوں سے بھری ہو ئی تھی اور یہاں کے عوام کا جھکاؤ روحانیت کی طرف تھا۔ صوفیوں کی آمد سے صرف اس کا نصاب بدلہ تھا اس کے مقاصد نہیں۔

جیسا میں نے ابتدا میں بات کی تھی کہ روحانیت کا تجربہ انسان کو شعور کی آنکھ کھولتے ہی ہو گیا تھا اور مذاہب کی ابتدا بہت بعد میں ہو ئی جب انسانی معاشرہ اپنی مکمل شکل لے چکا تھا۔ چنانچہ روحانیت کا سفر مذہب اور شریعت سے ماورا ایک مکمل تجربہ ہے جو کسی ایسے شخص کو بھی ہو سکتا ہے جو خدا کو نا مانتا ہو مگر پاکیزگی قلب اور لطافت نفس کے ساتھ کائینات اور ہستی کی تمام صورتوں کے ساتھ اپنا رشتہ تلاش کر نے کی تگ و دو میں لگا ہو۔ اس کے لئے مہاتما بدھ کی مثال دنیا کے سامنے ہے۔ دوسری مثال حسین بن منصور حلاج کی ہے جو اسلامی شریعت سے ماورا روحانیت میں سر بلندی کی انتہا کو پہنچا اور اس کی ذات حقیقت مطلق میں ضم ہو گئی جس سے اسلامی شریعت کے شارح امام غزالی بھی متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکے۔

جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو اس کا بھی روحانیت سے ایک گہرا رشتہ ہے وہ یوں کہ مذاہب کی ابتدا کر نے والے ہر بزرگ نے اپنے معاشرے کے رائج عقائد کو چھوڑ کر روحانیت کا راستہ اپنایا اور اس راستے پر چلتے چلتے جب ان پر حقیقت عظمی منکشف ہوئی تو اس کی روشنی میں انہوں نے نے اپنے معاشرے کی اصلاح کے لئے مذہب کی شکل میں زندگی کا ایک راستہ متعین کیا اور معاشرتی اصول و قوانین اور عبادات کے مخصوص طریق سمجھائے جن پر ان کے ماننے والے عمل کر تے ہیں۔

مگر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ کسی ایک پیغمبر نے بھی اعلان حق سے پہلے جو روحانی سفر کیا تھا اس کی تفصیل پر روشنی نہیں ڈالی اور نہ ہی اس کو اپنے ماننے والوں کی اعلی تربیت نفس کے لئے لوگوں کی تعلیم کا حصہ بنایا۔ پھر بھی ہر مذہب میں ایک گروہ روحانیت کے راستے پر چلنا چاہتا ہے اور اس سفر کو مختلف ناموں سے پکارتا ہے اسلام میں اسے تصوف، عیسایت میں راہبانیت، یہودیت میں قبالہ، ہندو دھرم میں وید اور اپانشد کے رشی، جین اور بدھ مت کے سنیاسی اور بھکشو بھگت سب کے سب اسی راستے کے نقیب ہیں۔

مگر مندرجہ بالا تمام لوگ اپنے مذہب کے دائرے سے باہر نہیں نکلتے یعنی وہ اپنے تجربے کو محدود کر لیتے ہیں۔ پورے ہندوستان میں صرف ایک مسلمان صوفی اللہ داد عرف دادو کا پتہ ملتا ہے جنہوں نے ہر قسم کی دیواروں سے اونچا اٹھ کر یکتائی کا تجربہ کیا ورنہ مسلمان صوفیا نے عموماً اسلامی شریعت کے حصار سے باہر نکلنے کو کفر جانا۔ اس طرح روحانیت کا وہ کلی تجربہ جو نہ صرف حقیقت عظمی سے بلکہ کل مخلوق سے یکتائی پیدا کر تا ہے وہ نایاب ہے۔

نتیجتہ ”بنی نوع انسان ٹکڑوں میں بٹا ہو اہے۔ وہ صرف اپنے مذہب اور اپنی شریعت کو صیحح سمجھتا ہے۔ دوسرے مذاہب اور طبقہ فکر کے لوگ اس کے نزدیک راہ حق سے بھٹکے ہو ئے اور کافر ہیں۔ وہ انہیں راہ راست پر لانے کے لئے اپنا اور ان کا خون بہانے تک کو روا جانتا ہے حالانکہ اس عمل میں وہ خود خدا کے فیصلوں کی نفی کر تا ہے کیونکہ وہ جزا اور سزا کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے یعنی خدا کے فیصلوں پر سر جھکانے کی بجائے خود کو اس کی مسند پر بٹھا کر فیصلے کرتا ہے۔

دوسری طرف روحانیت کے پر نور تجربہ کے نتیجے میں انسان کے دل میں محبت کا ایسا الوہی چشمہ جاری ہو تاہے جو بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل پوری انسانیت کو بلکہ حیوانات، نباتات، جمادات یہاں تک کہ پانیوں ہواؤں اور دھرتی کو سیراب کر تا چلا جاتا ہے۔ مرشد و سالک جناب میتریا رحمتہ الہ علیہ فرماتے ہیں ”زمین پر آہستہ قدم رکھو کیونکہ ہر جگہ زندگی موجود ہے“ ’۔ مخلوق خدا سے محبت اور یگانگت اور ہستی کی ہر شکل کے احترام کی اس سے بہتر مثال کیا ہو گی۔

انہون نے یہ بھی فر مایا کہ روحانیت کا عظیم تجربہ انسان کو حق کے اس قدر قریب لے جاتا ہے کہ و ہ بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ ”میں ہوں“ یعنی اس کے شعور میں ما سوا خا لق حقیقی کے کسی اورچیز کا یہاں تک کہ اپنی ذات کا احساس تک باقی نہیں رہتا۔ یعنی جب حسین بن منصور حلاج‘ ان ا لحق ’کا نعرہ لگاتا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے خدا ہو نے کا اعلان کر رہا ہے بلکہ خود اس کی ذات معدوم ہو چکی ہے۔ اس کے وجود میں اس کا اپنا آپ نہیں ہے۔ اسے اپنے اندر اور باہر اگر کچھ نظر آ رہا ہے تو وہ خالق کل ہے۔

روحانیت کی راہ کا مسافر اپنے عشق حقیقی اور مجاہدات سے در حق تک پہنچ سکتا ہے جو بذات خود ایک بہت بلند مقام ہے لیکن یہ در کس پر وا ہو تا ہے اور کون وجود، نور الہی سے منزہ ہو کر اس میں کلی طور پر ضم ہو جاتا ہے یہ صرف اور صرف عنایت الہی ہے۔

ہم تاریخ کے جس موڑ پر کھڑے ہیں وہاں ظلم و شقاوت، نفاق اور نفرت کے سیاہ بادل نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر پوری نسل انسانی اور پورے کرہ ارض پر چھا چکے ہیں۔ اس قدر اندھیرا ہے کی انسانوں کو اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا جب کہ خالق کل نے پوری کائینات کو ہمارے کرہ ارض سمیت مر بوط اور متوازن پیدا کیا ہے تاکہ کائینات سلامتی سے اپنا سفر مکمل کر سکے۔ تو ذرہ سوچئے اس حیوان ناطق کے لئے جو اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہتے دم نہیں لیتا کوئی دوسرا قانون کیسے متعین کیا جاسکتا ہے اور قانون بھی وہ جو قانون کائینات کی مکمل ضد ہو۔

اس کا نتیجہ سوائے ایک المناک تباہی کے اور کچھ نہیں۔ اگر ہم اپنی بقاچاہتے ہیں تو ہمیں زمین پر فساد کر نے سے باز آنا پڑے گا اور اگر ہم اس کرہ ارض پر امن و سلامتی کی زندگی چاہتے ہیں تو روحانیت کی یکتائی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنے اپنے مذاہب کو چھوڑ دیں گے یا اپنی اپنی طرز معاشرت کو تج دیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے دل کو اتنا شفاف کر لیں گے کہ اس میں خدا سے محبت بسیرا کر لے پھر اس تعلق سے تمام مخلوق خدا آپ کی اپنی ہو جائے گی۔ مخلوق کے ساتھ محبت کا رشتہ خالق کے ساتھ یکتائی کی اساس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments