فیض احمد فیض : روایت پرست باغی (3)۔


اگر کوئی عہد خوش بخت ہو تو اس کے بخت میں فیض جیسا انسان لکھ دیا جاتا ہے، ۔ یہ بات مستنصر حسین تارڑ نے فیض کے حوالے سے اپنے تاثرات ریکارڈ کرواتے وقت کہی۔
آئیے راولپنڈی سازش کیس کے اس اہم ترین کردار پر بات کریں جو اپنی چہیتی بیٹی کے خوف پر مبنی خواہش کے باوجود۔ واش روم میں ایک لال بیگ مارنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا تھا۔
فتح محمد ملک نے بتایا ” جب فیض صاحب جیل میں تھے تو قیدیوں کو باقاعدگی سے قرآن اور حدیث کی تعلیم دیتے، ، ۔ اس معاملے میں پابندی اور معمول کچھ ایسا سخت تھا کہ نگرانی پر مامور ایک مخصوص طبقے نے یہ سوال پوچھا ” فیض صاحب آپ کا مذہب کیا ہے؟ “
فیض صاحب نے جواب دیا، ”جو مولانا روم کا مذہب تھا “
اس پروہ بولے، ”مولانا روم کا مذہب کیا تھا؟ “
انہوں نے جواب دیا ”بھئی وہی جو میرا مذہب ہے“

فیض صاحب نے بچوں سے گپ شپ کرتے ہوئے کہا تھا ” ابا نے کہا تھا کہ پہلے تو قرآن شریف حفظ کرو یعنی زبانی یاد کرو اور اس کے بعد مسجد میں جا کر پڑھواور پھر جب فارسی، عربی اور اردو تھوڑی بہت پڑھ لو گے، اس کے بعد آپ کو اسکول بھیج دیں گے۔ چنانچہ پہلے تو گھر پر ہم نے ایک حافظ صاحب سے قرآن حفظ کرنا شروع کیا۔ زبانی یاد کرنا شروع کیااور ہم نے تین سپارے حفظ کیے تو پھر ہماری آنکھیں دکھنے آگئیں تو وہ پھر ہم سے پورا نہیں ہوسکا تو پھر اپنی اماں سے ہم نے ’ا ب پ‘، پڑھی اور ساتھ جو مسجد تھی وہاں مولوی ابراہیم میر صاحب سے اردو کا پہلا قاعدہ ختم کیا جب ہم چوتھی جماعت میں پہنچے تو پھر ہم کو بھیجا گیا اسکول۔

میں نے ہوش سنبھالا تو اپنی ذات کو فیض صاحب کا عاشق پایا۔ یہ عشق ان کی شاعری کے حوالے سے شروع ہوا لیکن دو آتشہ ان کی شخصیت کی وجہ سے ہوا۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ فیض کی عظمت کا صحیح اظہار ان کی شخصیت کی کس جہت سے ہوتا ہے تو میرا جواب ہو گا، ان کی بچوں کے ساتھ خاص انسیت۔ یہ بات شاید آپ کو حیران کن لگے لیکن دنیا کا بڑا فلسفی جب کائناتی مسائل کی گتھیاں سلجھا لیتا ہے تو وہ تمام مذہبی، فلسفیانہ اور سیاسی مسائل پر مباحث سے فرار چاہتا ہے۔ اس کا دل ایسے مباحثوں میں نہیں لگتا جو موضوعاتی سچائیاں لیے ہوتے ہیں، جن کا کوئی آخر نہیں ہوتا۔ اس کو حتمی سچ ”چھوٹی چھوٹی باتوں“ میں دکھائی دیتا ہے۔ فیض صاحب بچوں سے انسیت کے حوالے سے باقاعدہ ایک شہرت رکھتے ہیں۔ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد سے لاکھ نظریاتی اختلافات کے باوجود فیض صاحب کا ان سے ایک محبت کا رشتہ تھا۔ کبھی اشفاق صاحب کے ہاں دعوت ہوتی اور فیض صاحب سستی کی وجہ سے نہ آپا رہے ہوتے تو اشفاق صاحب ایک آزمودہ نسخہ آزماتے۔ ” ٹھیک ہے فیض صاحب لیکن وہ بچے آپ کو یاد کر رہے تھے “ اور فیض صاحب فورا تیار ہو جاتے۔ ایسی دعوتوں میں لاکھ دانشورانہ مباحث زینت بنتے ہوں فیض صاحب بچوں کو لے کر علیحدہ منڈلی جماتے۔
اور پھر یہ محبت اور عشق دو طرفہ تھی۔ فیض بچوں کی محبت میں چور تو بچوں کے لیے وہ ہر دلعزیز ’فیض چاچو‘ تھے۔


فیض صاحب اپنے دور کی کتنی قد آور شخصیت تھے اس کا اندازہ بانو قدسیہ کی کتاب مرد ابریشم میں اس فقرے سے ہوتا ہے۔ بانوآپا پہلی دفعہ کسی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں شریک ہوئیں تھیں۔ ”پیاز آلو چھیلتے یکدم میں ٹھنڈے کمرے میں لیدر کی کرسی سے پشت لگائے بیٹھی تھی اور سچ مچ کے فیض صاحب مجھ سے تین کرسیاں چھوڑ بائیں آنکھ بند کر کے سگریٹ کا دھواں چھوڑ رہے تھے “۔
اس فقرے میں ”سچ مچ کے فیض صاحب“ اپنے وقت کی ایک ادیبہ استعمال کر رہیں ہیں۔ اور غالبا بانو آپا نے فیض صاحب سے پوچھا تھا کہ ہم نے ڈھاکہ اور دوسرے شہروں میں جا کر کرنا کیا ہے جس پرفیض صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا” بھئی تم جاہل لگتی ہو۔ کرنا کیا ہے؟ ہم لوگ مختلف شہروں کا دورہ کریں گے، فنکاروں سے ملیں گے، کونسلیں دیکھیں گے، بعد میں رپورٹ کر دیں گے حکومت کو“۔
فیض صاحب جن کے بارے میں متفقہ رائے ہے کہ حسد، غصہ اور غیبت سے کوسوں دور شخصیت کے مالک تھے۔ وہاں ہم کو صرف ایک واقعہ ملتا ہے جب فیض صاحب قدرے غصہ سے لال سرخ ہوئے۔ اور یہ اس وقت ہوئے جب کسی نے کہا کہ آپ کی دو بیٹیاں ہیں کیا آپ کو کبھی اولاد نرینہ کی خواہش نہیں ہوئی۔ فیض صاحب نے کہا سلیمہ اور منیزہ اولاد نرینہ ہی ہیں۔
کشور ناہید کہتی ہیں۔ ”اشفاق احمد کے دفتر میں ابن انشا کے قل ہورہے تھے۔ وہاں فیض صاحب سپارہ پڑھ رہے تھے، تو جس طبقے کا آپ ذکر کر رہے ہیں انہی میں سے کسی نے کہا کہ کمال ہے فیض صاحب عربی سمجھ لیتے ہیں، یہ تھیں اسٹیبلشمنٹ کی فیض صاحب کے حوالے سے معلومات کہ جانتے ہی نہ تھے کہ فیض صاحب تو تین سپاروں کے حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ عربی میں ایم اے کی سند بھی رکھتے تھے اور کوئی شاعر ایسے ہی تو ” ویبقیٰ ربک وجہہ“ جیسے عنوانات نہیں رکھ سکتا“۔


فیض صاحب کی روایت کے ساتھ محبت کا یہ عالم کہ کسی نے پوچھا آپ نے پنجابی میں اتنا کم کیوں کہا ہے جبکہ آپ کی زبان تو پنجابی ہے، فیض صاحب نے جواب دیا کہ غالب اور اقبال کے بعد بھی اردو میں شاید تک بندی کی گنجائش ہو لیکن پنجابی میں مجھ سے پہلے وارث شاہ، بلھے شاہ اور شاہ حسین گذر چکے ہیں۔
اس طرح کا واقعہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ فیض صاحب نے ایک دفعہ کہا کہ پیام مشرق کا ترجمہ میری تساہل پسند طبیعت کی نذر ہو جاتا لیکن جب میں نے کچھ لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ آپ پیام مشرق کا ترجمہ کیوں کر رہے ہیں۔ ترجمہ کا کام کسی بڑے شاعریا تخلیق کار کو زیب نہیں دیتا، اس پر میں نے پیام مشرق پر جی کڑا کر کام کیا تا کہ میری ذات کو اقبال سے موازنے کے حوالے سے یہ ترجمہ سند رہے۔
فیض صاحب کے اس ترجمہ شدہ کلام میں سے کچھ اسد امانت علی خان نے گایا بھی ہے
آئے تربت پہ میری حلقہ کیے نوحہ گراں
دلبراں، زہرہ فشاں، گل بدناں، سیم براں
فیض صاحب اور علامہ صاحب دونوں کے ساتھ ایک ہاتھ ہوا ہے۔
ایک طبقے نے علامہ صاحب کے سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح پکڑا دی اور اپنی تحریک کاحصہ و ترجماں بنا دیا
ایک اور طبقے نے فیض صاحب کے ہاتھ میں جام پکڑا کر ان کو اپنی تحریک کا ترجماں بنا ڈالا


دونوں تحریکوں نے ان بزرگوں کو اپنے مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں اگر پہلی تحریک کے پیروکاروں کو کسی طرح علامہ صاحب کی تجدیدِ فکریاتِ اسلام اور علم الاقتصاد پڑھا اور سمجھا دی جائے۔ اور دوسری تحریک کے پیرو کاروں کو فیض صاحب کی روایت سے محبت کے حوالے سے روشناس کرا دیا جائے۔ توتحریکوں کے پیروکار کس قدر رنجیدہ اور دونوں بزرگان کی روحیں کس قدر خوش ہوں گی۔
ضیاءکے مارشل لا میں مسلسل پولیس نگرانی سے تنگ آ کر فیض صاحب بیروت چلے گئے جس کے حوالے سے سلیمہ ہاشمی کی رائے ہے کہ فیض صاحب کا بیروت اور لبنان میں گذرا وقت بہت مشکل اور کٹھن تھا۔ تحریک آزادی فلسطین میں حصہ لیا۔ رسالہ لوٹس کی ادارت سنبھالی۔ یاسر عرفات فیض صاحب کو بہت چاہتے تھے لیکن اس سب کے باوجود ایک کسک اور دکھ تھا کہ عمر کہ اس حصے میں خاندان اور دوستوں سے دوری آساں نہیں تھی
کشور ناہید نے کہا کہ فیض صاحب نے سلیمہ کو ایک خط میں لکھا کہ ”تم لوگ یہاں آ جاؤ، ہم نے تمھارا بچپن تو نہیں دیکھا، ہم جیل میں تھے۔ اب تمھارے بچوں کا بچپن تو دیکھیں
افتخار عارف مخصوص لہجے میں بولے، ” فیض صاحب بچوں سے کھیلتے کھیلتے آبدیدہ ہو گئے میں نے دیکھا تو فورا منہ پھیر لیا کہ فیض صاحب کو شرمندگی نہ ہو۔ پھر خود ہی فیض صاحب بولے ’ افتخار بچے بہت یاد آتے ہیں‘، یہ وہ دور تھا جب یاسر، میرا اور عدیل بڑے ہو رہے تھے اور فیض صاحب ان سے دور تھے“
فیض صاحب وطن واپس آئے بقول سلیمہ ہاشمی صحت بگڑ چکی تھی، دمہ ہو گیا تھا۔ اس میں سگریٹ کا کردار تو تھا ہی لیکن دوستوں، خاندان اور وطن سے دوری نے بہت برا اثر ڈالا تھا۔ آخری دنوں میں اپنے گاؤں کالا قادر اور ننھیالی گاؤ ں جسڑ گئے۔ واپس آئے تو مجھے فون آیا کہ ہم تمھاری طرف آ رہے ہیں۔ میں نے کہا آ جائیں۔
اس شام وہ بہت خوش تھے۔ ہمیں کہنے لگے گاؤں ضرور جایا کرو۔ میں دیکھ رہی تھی کہ ایک سپرٹ ان کے اندر جاگی ہوئی تھی۔ کہنے لگے میں شیر محمد حمید سے نہیں ملا، میں نے کہا آیا تھا ان کا فون۔ آئیں گے وہ آپ سے ملنے۔ پھر تھوڑی دیر بعد کہنے لگے۔ شیر محمد حمید سے نہیں ملا۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے انہیں احساس تھا کہ آج آخری شام ہے۔

اجل کے ہاتھ کوئی آ رہا ہے پروانہ

نجانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے

 

قسط نمبر ایک:

قسط نمبر دو:

وقار احمد ملک
اس سیریز کے دیگر حصےفیض صاحب روایت پرست باغی (2)۔فیض صاحب کی چھ منفرد خوبیاں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments