بندوق کا آخری وعظ


\"jamshedقصبے کے قومی بینک کا افتتاح ہوا تو کئی روز بینک کے دروازے پر رش لگا رہا۔ دور دراز دیہاتوں سے لوگ بینک یاترا کے لئے آئے۔ یہ سب دیر تک منہ کھولے اور دانتوں میں انگلیاں دبائے بینک کے دروازے کو گھورتے رہے اور واپس لوٹ گئے۔ پہلے پہل بینک کے افسران اس یاترا کو بینک میں دل چسپی سمجھے اور خوش ہوئے لیکن بعد میں دل چسپی کی وجہ معلوم ہونے پر انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ یاتری بینک سے زیادہ بینک کے مسلح محافظ اور محافظ سے زیادہ اُس کی بندوق کا دیدار کرنے آتے تھے۔

لوگ بینک کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے البتہ وہ بندوق کی بابت سہمے اور سٹھیائے ہوئے بزرگوں سے سن چکے تھے۔ بینک کا محافظ لمبی سفید مونچھوں، ہدف پر گھورتی موٹی نگاہیں جما کر رکھنے اور کسرتی بدن والا ادھیڑ عمر شخص تھا جو صرف صبح اور شام کے وقت تھوڑا حرکت میں آتا اور سارا دن صدر دروازے پر نصب بُت طرح تنا رہتا۔ افسران آتے جاتے تو انہیں سلام کرتے وقت چند لمحوں کے لئے چہرے پر تاثرات لاتا اور ان کے جاتے ایک بار پھر چہرہ پتھرا لیتا۔

اس کی مشینی حرکات دیکھ کر رفتہ رفتہ قصبے کے لوگ اس میں بھی دل چسپی لینے لگے اور اسی دل چسپی کے باعث اُس کا نام چاچا بندوق پڑگیا۔

چاچا بندوق کا بندوق کے علاوہ دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ بندوق ہی اس کی رشتہ دار تھی اور بندوق ہی ساتھی۔ وہ بینک کی عمارت سے ملحقہ ایک کوٹھری میں اکیلا رہتا تھا۔ سردیوں کے دن تھے اور وہ صرف شام کے وقت اپنے لئے سودا سلف، سگریٹ خریدنے کے لئے نکلتا اور پھر کوٹھڑی میں بند ہوجاتا۔ جب گرمیوں کے دن آئے تو اس نے رات کے وقت بینک کے آہنی دروازے کے سامنے چارپائی ڈال کر سونا شروع کیا اور یوں اس کی کچھ لوگوں سے علیک سلیک شروع ہوگئی۔

یوں لوگوں نے پہلی بار یہ جانا کہ سارا دن بت کی طرح کھڑا رہنے والا شخص ایک محفلی انسان ہے۔ اس کی مقبولیت بڑھی تو اگلی سردیاں آنے تک چاچا قصبے کے چائے خانوں، ڈھابوں اور ہٹیوں کے مالکان کا دوست اور برلبِ سڑک محافل کی جان بن چکا تھا۔ وہ جس جگہ بیٹھتا مجمع لگ جاتا اور لوگ اس کی باتیں سن کر محظوظ ہوتے۔

چاچا بندوق کی محفل کوئی ایرے غیرے کی محفل نہ تھی کیونکہ اس محفل کے کچھ آداب، کچھ اصول تھے۔ یہ اصول ضابطہ تحریر میں تو نہ تھے مگر ہر ایک جانتا تھا کہ جب بندوق بولے گا تو ہر ایک نے خاموش رہنا ہے۔ ایک تو بندوق باتیں مزے کی کرتا تھا دُوسرا وہ بندوق تھا، اس کے لہجے میں توپ کی گھن گھرج تھی جس کے آگے کسی کی نہیں چلتی تھی۔ جو لوگ اس کی محفل سے گریز کرتے ان کا خیال تھا کہ اگر وہ صاحبِ بندوق نہ ہوتا تو کوئی اُسے منہ بھی نہ لگاتا۔

بندوق بھی یہ بات جانتا تھا کہ بندوق ہی اس کا سب کچھ ہے۔ اس لئے اس کی محفل کا ایک اصول یہ بھی تھا کہ اگر بات بندوق پر نہ ہوگی تو پھر بات ہی نہیں ہوگی۔ اس کی محفل میں ایک سائل بندوق کی بابت سوال کرتا اور وہ سائل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولنا شروع کر دیتا۔

ایک شام جلال شاہ کے ڈھابے پر سائل نے پوچھا کہ بندوق اور اس کا ساتھ کتنا پُرانا ہے تو اس نے شرٹ کے بٹن کھولے اور اپنا کندھا دکھا دیا۔ اس کی جلد پر بندوق کی بلٹ کا نشان تھا جسے دیکھ کر مجمعے کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ بندوق کے چہرے پر مسکراہٹ سی تیر گئی، اس نے بٹن لگا کر بولنا شروع کردیا:

میں جوان ہوا، بھرتی ہوا، تب سے بندوق میرے کندھے پر ہے۔ تب سے بندوق میرے ذہن پر ہے۔ میں سوتا ہوں تو لگتا ہے بندوق میرے ساتھ لٹکی ہوئی ہے۔ خوابوں میں بندوق سے لڑتا ہوں۔ سینکڑوں لوگ مار دیتا ہوں اور اس کی گولیاں بھی ختم نہیں ہوتیں۔ میں بندوق چلانے کے سوا کچھ نہیں سوچتا کیونکہ بندوق چلانے کے علاوہ مجھے کچھ نہیں آتا۔ میں کچھ سیکھنا چاہتا تھا بندوق ملی تو لگتا ہے میرے سارے شوق مر گئے۔

بندوق بندہ نہیں شوق بھی مارتی ہے!

ایک اور شب دوسرے سائل نے پوچھ لیا بندوق کیا شے ہے تو وہ اٹھ کر کھڑا ہوا اور کسی مشاق مداری کی طرح ٹہلتے ہوئے وعظ فرمانے لگا:

یہ بندوق عجب شے ہے۔ نہتے سمجھتے ہیں کہ بندوق پہن کر، بندوق اٹھا کر خوف دور ہو جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے، آپ بندوق اٹھائیں آپ کا خوف بڑھ جائے گا۔ جتنی دیر اٹھائے رکھیں گے خوف بڑھتا ہی جائے گا۔ ایک بار اٹھالیں اور اٹھائے رکھیں تو اس قدر بزدل ہوجائیں گے کہ رکھ نہیں پائیں گے۔ آپ چاہیں گے ساری دنیا کی بندوقیں آپ کی ملکیت ہوں۔ خوفناک بات یہ ہے کہ آپ دن میں بندوق اٹھائیں گے تو آپ کو خواب میں بھی بندوق اٹھانی پڑے گی۔ آپ اس کے بغیر کوئی ڈراؤنا خواب نہیں دیکھ پائیں گے۔ وہ خواب سب سے ڈراؤنا ہوگا جس میں آپ کی بندوق چھن جائے گی۔

ایک بات یاد رکھیں ! نہتے کو دشمن دکھائی نہیں دیتا بندوق والے کو دکھائی دیتا ہے۔ بندوق دشمن ساز مشین ہے۔

’’بندوق بڑی کُتی شے وے ‘‘۔

 ایک شام ڈھابے پر چائے کی چسکیاں اور سگریٹ کے کش لیتا ہوا چودہویں کے چاند کو دیکھ رہا تھا کہ ایک سائل نے بندوق پر سوال پوچھا تو پہلی بار لگا کہ چاچا بندوق کو دُکھ ہوا ہے۔ وہ طنزیہ انداز میں گویا ہوا:

مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے میرے بارے میں نہیں بندوق کے بارے میں پوچھا ہے۔ بندوق مجھ سے بڑی ہے۔ اتنی بڑی کہ میں اس کے پیچھے دکھائی ہی نہیں دیتا۔ میں تو اُسی روز مرگیا تھا جب میں نے یہ بندوق اٹھائی تھی۔ بندوق والے پہلا قتل اپنا ہی کرتے ہیں۔ جو بھی بندوق اٹھائے گا وہ بندوق سے چھوٹا اور بندوق اس سے بڑی ہوجائے گی۔ اتنی بڑی کہ پھر بندوق والا نہیں دیکھنے والے کو بندوق ہی دکھائی دے گی۔ بندوق اٹھانا کوئی آسان کام نہیں۔

’’تسی ویکھنا چاہ آلا منڈا وی مینوں بندوق ای کہندا وے ‘‘۔

(آپ دیکھئے گا چائے والا لڑکا بھی مجھے بندوق کہہ کر مخاطب کرتا ہے )

اب تو میں بھی قائل ہوگیا ہوں کہ ہاں میں بندوق ہوں۔ میں اتنا بزدل ہوگیا ہوں کہ یہ مجھ سے چھین لیں۔ میں یہیں ڈھیر ہوجاؤں گا۔

’’ایہہ گل کسے نوں ناں دسناں ‘‘۔ (طنزیہ انداز میں ادھر اُدھر دیکھ کے ہاتھ ملاتے ہوئے )

(یہ بات کسی کو مت بتائیے گا)۔

اس کی چائے اور سگریٹ ختم ہوگیا تھا۔ وہ ہاتھ ملا کر اٹھا اور اپنی کوٹھڑی میں چلا گیا۔

اس کے بعد وہ کئی روز تک دکھائی نہیں دیا۔ بینک کی چھٹی ہوتی تو وہ اپنی کوٹھڑی میں چلا جاتا۔ تاہم کئی روز غائب رہنے کے بعد ایک شام جُورے کی ہٹی کے سامنے مُوڑے پر بیٹھا پایا گیا تو کچھ نوجوان آگے بڑھے، ایک نوجوان نے سلام کئے بغیر سوال پوچھا۔

آپ کو کبھی بندوق چلانے کا موقع ملا ہے؟ میرا مطلب ہے آپ نے کبھی کسی پر گولی چلائی ہے؟

وہ چند لمحے خاموشی اختیار کرنے کے بعد بولا:

نہیں آج تک نہیں۔ میں کبھی محاذ پر نہیں گیا اور نہ کسی انسان پر گولی چلائی۔ ہمیشہ ریت پر چلائی ہے۔ اس بندوق نے میرا کاندھا سُکھا دیا اور میں نے اسے ابھی نہیں چلایا۔

اس کے لہجے میں تلخی آئی تو ہونٹ کپکپانے لگے اور اس نے سائل کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑنا شروع کردیا۔

انسان پر چلانے کے لئے اٹھائی تھی ناں؟ جواب دیں؟

میں یہاں کوئی شکار کھیلنے کے لئے تو نہیں کھڑا ہوتا؟ یہاں کوئی چیتا، کوئی بھیڑیا، کوئی ہرن تھوڑی آئے گا؟

میں نے ایک ہی کام سیکھا۔ بندوق چلانا۔ حد ہوگئی۔ ایک کام سیکھا اور وہ بھی کسی کام نہ آیا۔

(اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے)

اب کبھی کبھار دل کرتا ہے کہ کسی کو ڈز کردوں۔

اس نے انگلیوں سے نال بناکر سائل کی سینے پر رکھ دیا۔ غصے سے اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں اور لوگ خوف کے مارے پیچھے ہٹ گئے۔

وہ سائل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا۔

یاد رکھو! جس نے زندگی بھر جو سیکھا ہے۔ وہ کام وہ ضرور کرے گا!

سائل اس کی باتوں سے خوفزدہ ہوگیا۔ اس نے اجازت چاہی، گھر آکر بستر پر ڈھیر ہوگیا اور رات دیر تک بندوق کی باتوں پر غور کرتا رہا۔ صبح آنکھ کھلی تو کافی دیر بستر پر پڑا بندوق کا آخری جملے دہراتا رہا۔ اسی دوران مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر موت کا اعلان ہوا۔

جنازہ سہ پہر تین بجے تھا۔ بندوق نے بندوق سے خودکشی کرلی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments