بچوں کا عالمی دن اور زرمینہ کا خواب (عبدالسلام)۔


یہ دسمبر کی ایک سرد رات تھی۔ اور ہلکی بارش کے ساتھ یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھی۔ میں راولپنڈی سے اسلام آباد کی طرف آتے ہوئے ٹریفک سگنل پر کھڑا تھا کہ اچانک میری نظر سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے ایک بچے پر پڑی جس کے جسم پر باریک کپڑے اور ہاتھ میں اخبارات کا ایک ڈھیر تھا۔ اتنی رات گئے اس شدید موسم میں بچے کی حالت دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور اس کو اپنے پاس بلایا۔ میں نے بچے سے کہا کہ بیٹا اتنی رات ہو چکی ہے، سردی بھی شدید ہے اور بارش بھی برس رہی ہے جب کہ تم نے کوئی گرم کپڑے بھی نہیں پہنے ہوئے، تم گھر کیوں نہیں چلے جاتے۔ بچہ جس کا نام احمد تھا کہنے لگا کہ صاحب میں اخبار بیچتا ہوں اور گھر والوں کا پیٹ پالتا ہوں۔ آج اخبار فروخت نہیں ہوئے۔ اور جب تک یہ سارے اخبار فروخت نہیں ہوں گے میں گھر کیسے جاسکتا ہوں۔ میں نے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ گھر جاؤ تاکہ کل تم اپنا کام کر سکو ورنہ بیمار ہوگئے تو کل کیسے کام کروگے۔ احمد نے کہا کہ آج اخبار بکے گا تو ہی میں کل اخبار لا سکوں گا۔ میں ایک لمحے کے لئے کہیں کھو گیا اور اس کے مسائل اور مجبوریوں کے پہاڑ میرے سامنے آکھڑے ہوئے۔ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑے۔ میں نے احمد سے کہا کہ یہ سارے اخبار مجھے دے دو لیکن احمد نے کہا کہ آپ اتنے سارے اخبارات کا کیا کریں گے آپ بس ایک اخبار مجھ سے خرید لے۔ مجھے اس کی اس خودداری پر پیار آیا اور اصرار کر کے سارے اخبار اس سے خرید لئے۔ احمد کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھی اور گھر کی طرف بھاگتے ہوئے اندھیرے میں غائب ہوگیا۔ احمد کی یہ خوشی اور آنکھوں کی چمک میری زندگی کا اثاثہ ہے۔

20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن منایا گیا۔ حکمرانوں کے روایتی پیغامات اورکچھ سرکاری و غیرسرکاری تنظیموں کے پروگرام منعقد ہوئے۔ یہ دن منانے کا مقصد دنیا بھر کے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے آگہی پیدا کرنا ہے۔ بچوں کے ان حقوق میں زندہ رہنے کا حق، نشو و نما پانے کا حق، اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کا حق، اپنی آواز سب تک پہنچانے کا حق، خوراک، علاج، چھت، ظلم اور استحصال سے تحفظ اور تعلیم حاصل کرنے کا حق شامل ہے۔

پاکستان اعداد وشمار کے مطابق دنیا کا وہ خوش قسمت ملک ہے جس کی آدھی آبادی بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ آدھی آبادی جو کہ اس ملک کا مستقبل ہے، ان کی اکثریت بنیادی سہولیات اور بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ ہیومن رایٹس کمیشن پاکستان کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تیس فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یونیسف کی 2015 کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ہر چودہ میں سے ایک پاکستانی بچہ اپنی پہلی سالگرہ منانے سے پہلے ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جب کہ ہر گیارہواں بچہ اپنی زندگی کے پانچ سال مکمل ہونے سے پہلے ہی موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔
اکیسویں صدی جسے ٹیکنالوجی کی صدی بھی کہا جاتا ہے پاکستان کے 25 ملین بچے بنیادی تعلیم سے ہی محروم ہے۔ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں میں سے 47 فیصد اسکولوں سے باہر ہیں۔ ملک میں 78فیصد بچے ایسے ہیں جو کبھی کسی اسکول میں داخل نہیں ہوئے۔ لڑکوں کے مقابلے میں اسکولوں سے باہر لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے ایک سروے کے مطابق پاکستان بچوں سے مشقت لینے والے ملکوں میں موریطانیہ اور ہیٹی کے بعد تیسرے نمبر پر ہیں جہاں چائلڈ لیبر و جبری مشقت کے شکار بچوں کی تعداد 2014 میں 168 ملین یعنی ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔

بچوں کے متعلق حکومتوں کی غفلت اور معاشرے کی لاپرواہی کی وجہ سے آج بچے دہشت گردی اور جرائم کا شکار ہو رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے منشیات کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ بچوں کو خوراک، چھت، تعلیم و تربیت اور تحفظ جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ اور وہ حالات سے مایوس ہوکر اپنے مسائل کے حل کے لئے غلط راستوں کا انتخاب کررہے ہیں۔ ملک کی یہ نصف آبادی اگر اسی طرح نظرانداز ہوتی رہی تو مستقبل میں یہ ملک کی بنیادیں ہلا سکتی ہے۔

آج بچوں کے عالمی دن کے موقع پر کسی نیوز چینل پر خبر دیکھی کہ زرمینہ کا خواب ادھورا رہ گیا۔ رپورٹ سے معلوم ہوا کہ اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد سے تعلق رکھنے والی اس معصوم بچی کو تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق ہے لیکن حالات سے مجبور اس بچی نے سکول جانا چھوڑدیا ہے اور سڑک کنارے مکئی کی چھلی اور دانے بیچنے پر مجبور ہے۔ لیکن بچی اپنا بستہ اپنے پاس رکھتی ہے اور وقت ملنے پر اپنی کتابیں کھول کے بیٹھ جاتی ہے۔ زرمینہ کا خواب ہے کہ وہ سکول جائے اور اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھے۔ لیکن یہ خواب کیسے پورا ہوگا۔ کیا پاکستان کی ریاست اور عوام ان قیمتی خوابوں کی قدر وقیمت سے واقف ہیں؟ اور کیا تعلیم کے نام پر کام کرنے والی ہزاروں غیر سرکاری تنظیمیں فائیوسٹار ہوٹلوں میں سیمینارز کی بجائے میدان میں آکر کچھ کر دکھائے گی؟ گھروں، ہوٹلوں اور دیگر کاروباری مراکز میں کام کرنے والے مجبور اور مظلوم بچوں سے عام لوگ صلہ رحمی کا سلوک کریں گے؟ سڑکوں پر گاڑی صاف کرنے، کوڑا کرکٹ اٹھانے والے اور بھیک مانگنے والے بچوں کی غذا، صحت اور پڑھائی کی ذمہ داری اٹھانے کیلئے کوئی آگے بڑھے گا؟

مجھے یقین ہے کہ یہ سب کام ہوں گے لیکن تب جب ہمارے سیاستدان اپنی ذاتی اور پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکر ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچیں گے۔ جب ہمارا میڈیا بچوں کے مسائل پر بریکنگ نیوز چلائے گا۔ جب بچوں کے نام پر کروڑوں کے فنڈز فائیوسٹار ہوٹلوں کی بجائے ان بچوں کے مسائل کے حل پر خرچ ہوں گے۔ اور جب ہمارے دانشور یونیورسٹی کے پرچے میں آئے ہوئے سوال پر غیرت اور بے غیرت کی جنگ لڑنے کی بجائے ان بچوں کے حقیقی مسائل پر بحث کریں گے۔ جب معاشرے کا ہر طبقہ اپنا کردار ادا کرے گا تو پھر ڈھائی کروڑ بچے سکول سے باہر نہیں ہوں گے۔ پھر احمد جیسے بچوں کو سردیوں کی راتوں میں چوک میں اخبار نہیں بیچنے پڑیں گے۔ اور پھر زرمینہ کا خواب بھی کوئی اس سے نہیں چھین سکے گا۔ ہمیں ہر صورت اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔ اور اگر خدانخواستہ ہم ایسا کرنے میں ناکام ہوئے تو بچوں کے دن پر روایتی پیغامات اور سیمینارز ہمیں آنے والی تباہی سے نہیں بچاسکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments