بے کار مباش، کچھ کیا کر


بیگم کو ہماری کورونائی فراغت ایک آنکھ نہیں بھاتی ایک دن کہنے لگیں ”یہ گھر میں جو آپ باولوں سا حلیہ بنائے ادھر ادھر گرتے پڑتے ہیں۔ کوئی کام وام کیا کیجیے“ ۔ ہم نے پوچھا مثلا۔ کہنے لگیں ”صبح اٹھ کر برتن دھو دیا کیجیے“ ۔ ”کیا!“ اچھا، اگر یہ ممکن نہیں تو کپڑے ادھیڑ کر ہی سی دیا کیجیے ”۔“ زوجہ! ہم خاندانی شاعر، ادیب ہیں، ایسے کام کرنا ہماری توہین ہے۔ ہاں البتہ دو تین پرانے مضامین پڑے ہیں، کہو تو انھیں ادھیڑ کر نئے سرے سے بن دوں ”۔

کہنے لگیں“ یہ غلط بات ہے ”۔“ کیسے غلط ہے، اردو کی شعری روایت کے آغاز سے لے کر، اب تک جتنے ہم جیسے شاعر گزرے ہیں انھوں نے اور کیا کیا ہے؟ بس قافیہ، ردیف، یا زمینیں بدل بدل کر یا پہلی زمینوں پر قبضہ کرکے، ہجر و وصال کے وہی پرانے نغمے ہی تو دوہراے ہیں جو پہلے پہل باوا آدم اور اماں حوا نے گائے تھے اور اگر ہم تھوڑے بہت رد و بدل کے ساتھ کوئی پرانا گیت گنگنا دیں تو کیا قباحت ہے؟ بس ”شرط ہے سلیقہ ہر اک امر میں“ ۔ گلا چھڑاتے ہوئے کہنے لگیں، ”جو مرضی کیجیے۔ لیکن للہ کچھ کیجیے اور یاد رکھیے“ مانگے تانگے کی قبائیں دیر تک رہتی نہیں ”بہرحال ہم نے بیگم کی بیزاری کو حکم حاکم جانا اور ایک نیا مضمون لکھنا شروع کر دیا۔

ان کورونائی ایام میں ڈبلیو۔ ایچ۔ او کے مطابق کسی بھی کام کے آغاز سے پہلے کورونائی ایس۔ او۔ پیز کی پابندی ضروری ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ لکھنے سے پہلے اور خاص طور پر ان مضامین کو جن میں کورونا کے ساتھ زوجہ، محبوبہ اور اردو شاعری کا تذکرہ ہو، پن کی نب کو سینی ٹائز کرنا اور پھر لطیف خیالات کو احاطۂ قلم میں لانے کا جتن کرنا، تحریر کی داخلی ساختوں میں موجود معنوی اکائیوں کا خون ہے۔ خیر، ہم تو شاید اس معاملے میں کورونائی ایس۔او۔ پیز کی پاسداری کر لیں۔ مگر وہ صاحبان جنھیں ساختیات، پس ساختیات اور مابعد جدیدیت کا نیا نیا بخار چڑھاہے۔ وہ اس وبائی صورت حال میں زوجہ اور محبوبہ کی موجودگی سے اٹھنے والے معنیاتی جوار بھاٹے سے محروم رہ جائیں گے۔ بہرکیف اس مقام فکر پر قارئین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اس دور ابتلا میں شاعری اور شاعری سے متعلق ہر تحریر میں کورونا، زوجہ، اور محبوبہ ہم معنی ہیں اور سینی ٹائزر سے ان ہم معنی میں سے کسی ایک کی ہلاکت کا مطلب باقی تینوں کے لیے بھی إنا للہ و إنا إلیہ راجعون پڑھنا ہے۔ کورونا تک تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن اردو شاعری، محبوبہ اور زوجہ کے ساتھ ایسا کرنا ممکن نہیں کیونکہ اول الذکر کے حوالے سے یہ مصرع روکتا ہے ”غزل کے روپ میں تہذیب گا رہی ہے ندیم“ اور موخرالذکر کی بابت یہ شعر بار بار ذہن میں آتا ہے :

آرزوئے عقد ثانی اور ہے
اک بلائے ناگہانی اور ہے

اب رہی محبوبہ تو غالب کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلاتے ہیں۔ وہ جو کہتا ہے ”عشق سے طبعیت نے زیست کا مزا پایا“ ۔ بھئی! سیدھی بات ہے، جس سے زیست نے مزا پایا ہو اسے جراثیم کش محلول سے قتل کرنا گناہ کبیرہ نہیں تو صغیرہ ضرور ہے۔

اب استاد پیڑھی نے اپنا الگ راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔ کہتا ہے، لکھنے سے پہلے سنجیدہ منہ بنانے سے تحریر معتبر ٹھہرتی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ ویسے بھی ہم طعام کے بعد احباب کو عمل جراحت سے گزارنے کے لیے غش آور دوا پلانے اور اگلے شکار کو خرگوش کے ساتھ بھاگ کر پکڑنے کے قائل ہیں۔ اور بلی، توبہ توبہ۔ ۔ ۔

ہم بیگم کو حاضر ناظر جان کر اقرار کرتے ہیں کہ بشمول ہمارے، دیگر بہت سے شعراء ان کورونائی ایام میں اہم قومی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے، کورونائی دشت کو سماجی دوری کا استعارہ بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ ایسی تخلیقی کار گزاریوں سے لگتا ہے، جیسے سارے محبان ادب قرنطینہ میں، اس خواہش میں مبتلا ہیں ”وصل اس کا خدا نصیب کرے۔“

بہر حال ان کورونائی دنوں میں جتنی شاعری، شعراء نے کورونا پر کی ہے، اسے پڑھ اور سن کر، اب کورونا کو کم از کم شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ لیکن کیا کیجیے، یہ ناہنجار ٹرمپ کے ساتھ ساتھ شعرا کے سامنے بھی ڈھیٹ ثابت ہو رہا ہے۔ حالانکہ ٹرمپ کے ساتھ، اس کی ”لکن میٹی“ بنتی ہے کہ دونوں کا تعلق ایک ہی ذہنی برادری سے ہے۔ یعنی کمزور کو مارو اور تگڑے کو ڈراؤ۔ ہماری یہ منطق سن کر استاد پیڑھی کہنے لگا بھئی! رہنے دیجیے (شعراء اور ٹرمپ) دونوں کی ایک ہی بات ہے اول الذکر کو مشاعرہ چاہیے اور موخرالذکر کو ہجوم۔۔۔ ”استاد جی! ہماری بلی اور ہمیں ہی میاؤں“ ۔

استاد جی! اب اس بے شرم ( کورونا) کو زیادہ نہیں تو تھوڑا سا ہمارے شعراء کی ان شاعرانہ کاوشوں کا بھرم رکھتے ہوئے، واپس چمگادڑوں کے دیس چلا جانا چاہیے۔ آپ تو جانتے ہیں ہمارے شعراء نے اس فتنۂ جاں کی دشمنی میں اپنا کیا حال کر لیا ہے۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر کورونائی اشعار کہتے ہیں اور بعضے تو اس معاشی بحران کے دنوں میں، بیگم کے پیسوں کے غلہ سے رائج الوقت سکے نکال نکال کر دھڑا دھڑ شعری مجموعہ شائع کروا رہے ہیں۔

ہمیں اندیشہ ہے، اگر اسی طرح یہ ستم شعار پھلتا پھولتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب اردو شاعری سے مستقل طور پر محبوب، رقیب، اور عاشق کے کردار ختم ہو جائیں گے اور اس کی تباہ کاریاں ہماری شاعری کا بنیادی موضوع قرار پائیں گی۔ نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔ اگر ایسا ہوا تو اس ملعون کو گلوب پر مستقل سکونت کا بہانہ مل جائے گا۔ حضرت! شہرت کسے پسند نہیں۔ اس ڈھیٹ نے شعرا کے ہر شعر کو سن کر یہی کہنا ہے ”ذکر میرا ہی وہ کرتا“ ہے ”صریحاً لیکن۔ ۔ ۔“

قرائن بتاتے ہیں کہ چائنہ کے بعد، کورونا شعراء کے کلام کی بدولت پھل پھول رہا ہے۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو اردو شاعری کی تاریخ میں پھر کوئی مولانا حالی کی طرح کا بیدار مغز اٹھے گا اور موجودہ زمانے کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مولانا کے برعکس اپنے مقدمہ میں لکھے گا ”اردو شعراء کی شاعری صرف کورونائی معاملات کے گرد گھومتی ہے۔ اہم قومی مسائل یعنی محبوب کا حسن وجمال، ہجر و وصال اور عاشق و معشوق اور رقیب جیسے اعلے کردار نئے شعرا ء کے کلام سے معدوم ہوتے جا رہے ہیں“ ۔ بھئی! کہاں معدوم ہوتے جا رہے ہیں! یہ محض آپ کا اندیشہ ہے۔ یہ سارے عالم گیر موضوعات اور کردار ہمارے شعرا کے خمیر میں اجزائے خاص کی حثییت رکھتے ہیں۔ نام کورونا کا ہے اور رونا ”ذکر اس پری وش کا“

میں کیسے سمجھوں کلام تیرے
کہ دور سے ہیں سلام تیرے (وقار)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments