فیڈرل اکاونٹیبلیٹی کمیشن


اس دنیا میں مالیاتی کرپشن کسی ایک ملک یا قوم کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ کرپشن نے دنیا کے اربوں انسانوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ کرپشن کاخاتمہ تو شاید اب ممکن ہی نہیں رہا تاہم اب اقوام عالم کی ایک فہرست جاری ہوتی ہے جس میں پتہ چلتا ہے کہ کون کتنا کرپٹ ہے یا پھر کسی ملک میں کرپشن کی شرح کیا ہے اور اسی بنیاد پر ملکوں کے مالی معاملات، نظام حکومت اور اس کے شہریوں سے متعلق رائے قائم کی جاتی ہے۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ کرپشن جیسی لعنت کا بھی سامنا ہے۔

ان ممالک میں موجود مالی طور پر کرپٹ سیاسی قیادتوں نے کرپشن کو گویا نہی جہت عطا کی ہے۔ ایک بدعنوان قیادت کے ہاتھوں چلنے والے نظام حکومت میں ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھانا شروع کردیتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان ممالک میں بسا اوقات رشوت کسی ناجائز فائدے کے لیے نہیں بلکہ کسی بنیادی ضرورت کے حصول کے لیے دی جاتی ہے۔

پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر کرپشن ختم ہونے میں نہیں آ رہی اور ناہی اس میں کوئی کمی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں کرپشن پربات کرنے سے پہلے اس کے ماضی کو جاننا ضروری ہے کہ کرپشن کی ابتداکیسے ہوئی۔ پاکستان بننے سے قبل متحدہ ہندوستان میں مالیاتی بدعنوانی کی ابتدا ایسٹ انڈیا کمپنی نے شروع کی۔ انگریزوں نے ہندوستان میں ناصرف مالیاتی بدعنوانی کی باقاعدہ ابتدا کی بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس کو فروغ دیا۔

ہندوستان جہاں معاشی طور پر ایک طاقتور ملک تھا وہاں پر بدقسمتی سے سیاسی اعتبار سے ایک کمزور ملک بھی تھا۔ ہندوستان میں متعین برطانوی سفیر سر ٹامس رو نے ہندوستان میں ایک تجارتی کمپنی کے اجازت نامے کے حصول کی خاطر مغل بادشاہ شاہ جہاں کو بیش قیمت تحائف دیے جس کے نتیجے میں اگست 1618 میں مغل بادشاہ کی طرف سے اس کمپنی کو سورت میں کاروبار کرنے کی اجازت مل گئی۔ ہندوستان میں یہ کرپشن کی ابتدا تھی۔ اس کے بعد انگریزوں نے مختلف ریاستوں میں تجارتی چوکیاں قائم کرنے کے لیے زمینیں کرائے پر لیں جہاں نہیں مل رہی تھیں وہاں پر اس ریاست کے حکمران کے قابل اعتماد دوستوں کو رشوت دے کر کام کرانے کے لیے راضی کیا گیا۔

انگریزوں نے ریاستوں پر قبضے کرنا شروع کردیے۔ جنگ پلاسی میں رابرٹ کلائیو نے نواب بنگال سراج الدولہ کو شکست دے کر رشوت ستانی کا بازارگرم کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ رابرٹ کلائیونے صرف ایک سال میں 11 لاکھ 70 ڈالر کی رشوت لی۔ اور 1 لاکھ 40 ہزار ڈالر سالانہ نذرانہ لینا شروع کر دیا۔ اس کرپشن کی خبریں تاج برطانیہ تک پہنچیں جس پر تحقیقات کا حکم صادر ہوا۔ تحقیقات میں الزامات درست ثابت ہوئے مگر بعد ازاں تاج برطانیہ نے رابرٹ کلائیو کی شاندار خدمات پر اس کو معافی دے دی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعد تاج برطانیہ کے زیرانتظام ہندوستان میں بھی رشوت ستانی میں کمی نا ہوئی۔ بالآخر تقسیم ہندوستا ن کے وقت بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے کراچی میں 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کے دوران فرمایا کہ سب سے بڑی لعنتوں میں سے ایک لعنت جس میں ہندوستانی گرفتار ہیں وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ یہ لعنت حقیقتاً ایک زہر ہے۔ قائد اعظم رحلت فرما گئے۔ اس کے بعد ہر آنے والے حکمران نے احتساب کا نعرہ لگا کر سیاسی مخالفین کو خوب رگیدا مگر ناتو کرپٹ اشرافیہ کا احتساب ہوسکا اور نا ہی لوٹی گئی قومی دولت واپس لی جاسکی۔

جمہوری حکومتوں کے مسائل او رمجبوریاں اپنی ہوتی ہیں ستم تو یہ ہے کہ فوجی حکمرانوں جن میں جنرل ایو ب خان نے ایبڈو کا قانون بنایا، جنرل یحییٰ خان نے ایل ایف او اور جنرل ضیا الحق نے بھی احتساب کا وعدہ کیا مگرکرپشن ختم نا کرسکے۔ جنرل مشرف نے 19 نومبر 1999 میں احتساب کے نام پر قومی احتساب بیورو جس کو نیب کہا جاتا ہے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے تشکیل دیامگر ہنوز دلی دور است۔ کرپشن تو ختم نا ہوئی تاہم نیب کے سبب جنرل مشرف کے حمایتیوں کی تعداد زیادہ اور سیاسی مخالفین کی تعداد کم ہوگئی۔

اس وقت نیب کی حشرسامانیاں اپنے عروج پر ہیں۔ سیاست دان نیب کیس میں گرفتار ہوتے ہیں اور چار چھ ماہ بعد ضمانت پر باہر آ جاتے ہیں۔ نیب بہت سارے کیسز میں الزامات کو ثابت نہیں کر سکاجس پر سپریم کورٹ کے جسٹس مقبو ل باقر نے اپنے ایک فیصلے میں لکھا کہ ملک میں احتساب کے لیے بننے والے قوانین کا استعمال سیاسی مخالفین کودبانے کے لیے استعمال ہوتا رہا۔ اپوزیشن جماعتیں ناکافی شواہد، گمنام درخواستوں پر کارروائی، محض الزامات پر میڈیا ٹرائل، تفتیش کے نامناسب رویوں پرنیب کو ہدف تنقید بنا رہی ہیں۔

ایسے میں پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے جہاں پر نیب کے قانون پر تنقید کی وہاں انہوں نے فیڈرل اکاونٹیبلیٹی کمیشن بنانے کی تجویز دی ہے۔ ان کے مطابق اگر کرپشن ختم کرنی ہے اور احتساب کرنا ہے تو پھر کوئی مقدس گائے نہیں ہونی چاہیے پھر بلا امتیاز احتساب ہونا چاہیے اور اس کے لیے ایک متفقہ احتساب کمیشن ہونا چاہیے۔ تجویز بری نہیں ہے اگر اپوزیشن جماعتیں جو اس وقت نیب کیسز کا سامنا کررہی ہیں اور اس کو کالا قانون کہہ کر اس کے فیصلے ماننے کو تیار نہیں ہیں تو کیوں نا اتفاق رائے سے کرپشن کے خلاف ایک نئی ابتدا کی جائے۔

جہاں پر کسی کو احتساب پر کوئی اعتراض نا ہواور نا ہی کوئی احتساب سے مبرا ہو۔ وقت آ گیا ہے کہ کرپشن کے خلاف ایک نیا قومی بیانیہ تشکیل دیا جائے جو متفقہ بھی ہو اور قابل قبول بھی۔ اگر موجودہ نیب کے ذریعے ہی احتساب کا عمل جاری رہا تو اس کا فائدہ نا تو ملک کو ہوگا اور ناہی عوام کو البتہ اس کا فائدہ حکومت کو ضرور ہو سکتا ہے کہ اسے حکومت کرنے کے لیے کچھ وقت مزید مل جائے گا۔ ارباب اختیار کو ایک نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کرپشن کا خاتمہ اور احتساب بہت ضروری ہے مگر اس سے قبل احتساب کے قانون پر اتفاق رائے بہت ضروری ہے اگر اتفاق رائے ناہوا تو پھر مجوزہ 120 نئی احتساب عدالتوں سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور یہ محض وقت اور پیسے کا ضیاع ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments