کلہاڑی کا دستہ


میرا دوست عقیل بول رہا تھا اور میں اس کے سامنے بیٹھا پوری توجہ سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ عقیل اکثر میری باتوں کی میری سوچ کی میرے خیالات اور تصورات کی مخالفت کرتا رہتا ہے۔ مگر پھر بھی اس کے ساتھ وقت گزار کے بہت اچھا لگتا ہے۔ کیوں کے اس کا اختلاف کرنے کا بات کو رد کرنے کا طریقہ اور اس کے دلائل اس کی باتیں اتنی پر اثر اور مضبوط ہوتی ہیں کہ مجھے اکثر اس سے اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ اور پہلے جو میں خود کو ارسطو سمجھ رہا ہوتا تھا کہ کتنی اچھی بات میرے ذہن میں آئی وہ زعم یکسر ہوا ہو جاتا ہے۔ مجھے کبھی اس پہ غصہ نہیں آیا۔ ہاں کبھی کبھی اس کی باتیں ناگوار ضرور لگتی ہے اور میں اس کی ہر بات سے اتفاق نہیں کر پاتا۔

میں اس کے پاس اس کے ڈیرے پہ بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ باتوں ہی باتوں میں ایک انتہائی دلخراش اور افسوسناک واقعہ کا ذکر چھڑ گیا۔ ہوا یہ تھا کہ ہمارے علاقے میں ایک زمیندار نے کچھ پھل توڑنے پر ایک غریب کسان کے بچے پر کتے چھوڑ دیے تھے۔ کتوں نے بچے کو شدید زخمی کر دیا تھا اور اس کی جان تو بمشکل بچی لیکن ابھی تک اس کے ہوش و حواس بحال نہیں ہوئے تھے۔ میں نے اس واقعے پر کہا کہ چوہدری جابر بڑا ظالم ہے کیوں کہ اس نے پہلے بھی ایسے کئی کرتوت کیے ہوئے ہیں۔ میرے دوست نے میری یہ بات سننے کے بعد اپنے اردگرد نظر دوڑائی اور پھر آٹھ کر ایک طرف چلا گیا۔ تھوڑا آگے جا کر اس نے زمین سے کلہاڑی اٹھائی اور کلہاڑی اٹھا کر واپس آکر میرے پاس بیٹھ گیا۔

مجھے یہ بتاؤ اگر اس کلہاڑی میں یہ دستہ نہ ہو تو یہ کتنے درختوں کو کاٹ لے گی۔

میرے دوست نے ایک ہی جملے میں بات سمجھا دی تھی مگر میں ابھی مزید گفتگو کو آگے بڑھانا چاہتا تھا۔ میں نے کہا نا ممکن ہے ایک درخت کو بھی نہیں۔

میرے دوست نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا یہاں کوئی اکیلا شخص ظالم نہیں ہے۔ ہم سب ظالم ہیں جو کلہاڑی دوسروں کو پر وار کرتی ہے ہم اس کے دستے بن جاتے ہیں۔ ہم ظالم کی ظلم کرنے میں بھرپور مدد کرتے ہیں۔ ہر شخص ظلم کرتا ہے جتنا اس کا اختیار ہوتا ہے وہ ظلم کرتا ہے۔

مرتے ہوئے طوائف نے فرشتے سے یہ کہا
یہاں ہر شخص اپنے ذہن کا اعلی فرعون تھا

اگر ہم خود ظلم کرنا بند کر دیں کسی ظالم کی ظلم کرنے میں مدد نہ کریں۔ تو یہ معاشرہ ان ظالموں سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے گا۔ جانتے ہو ایک دفعہ حضرت محمد ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا

”اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم“ صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ہم مظلوم کی مدد تو کر سکتے ہیں لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو“ یعنی ظالم انسان کو ظلم سے زیادتی سے نا انصافی سے روک دو۔ برائی کو ہاتھ سے روکو نہیں تو زبان سے روکو نہیں تو دل میں اسے برا جانو۔

یہاں حالت یہ ہے کہ ہم طاقتور کے ساتھ کھڑا ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس کے ساتھ محفوظ رہیں گے۔ کیا تمھیں نہیں پتہ کہ جب چوہدری جابر کے کتے اس بچے کو لہو لہان کر رہے تھے تو وہاں اس وقت کتنے لوگ موجود تھے کم ازکم بیس پچیس لوگ۔ اور وہ سب لوگ وہاں تماشا دیکھ رہے تھے کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ آگے جاکر اس بچے کو کتوں سے بچائے جب تک کہ اس بچے کا والد نہ آ گیا۔

میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تم نے اس ظلم کے خلاف کیا کیا ہے۔ اس نے کہا میں نے ہی پولیس کو فون کر کے بلایا تھا۔ مگر جب پولیس آئی تو چوہدری مکر گیا اس نے کہا کہ کتے خودبخود چھوٹ گئے تھے چھوڑے نہیں گئے تھے۔ اور وہاں میرے سوا کسی اور نے پولیس کو سچ نہیں بتایا۔ بعد میں چوہدری کے چیلوں کے پریشر ڈالنے اور ڈرانے دھمکانے کی وجہ سے اس بچے کے باپ نے بھی پولیس کو یہ بول دیا کہ کتے خود بخود چھوٹ گئے تھے۔ اس میں چوہدری کا کوئی قصور نہیں بلکہ چوہدری تو میرے بچے کے علاج کے لئے پیسے بھی دے رہا ہے۔ تو میں وہاں کیا کرتا پولیس وہاں کیا کرتی۔ یہاں ہر کوئی ظلم چھپانے اور ظلم بڑھانے پر تلا ہوا ہے۔

ہم نے مصلحت کی آڑ میں ظالموں کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ اب انہیں ظلم کرتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا۔ اور ہم ظلم سہنے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ہمیں ظلم ظلم لگتا ہی نہیں۔ ہم ظالم کو روکنے کے بجائے اسے ہلہ شیری دیتے ہیں۔

ابھی کچھ دن پہلے مجھے ایک دوست نے کہا تھا کہ ایک لڑکے کی پٹائی کرنی ہے تم میرے ساتھ آو۔ تو میں نے اپنے دوست کو صاف انکار کر دیا۔ میں نے اسے کہا کہ میں کسی غلط کام میں اس وجہ سے تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا کہ میرے تمہارے ساتھ تعلقات اچھے ہیں۔ اور وہ رک گیا اس حرکت سے۔ کیوں کہ اس کو ظلم میں مدد کرنے والا کوئی نہیں ملا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments