انگلینڈ کے خلاف پہلے کرکٹ ٹیسٹ کے لیے ممکنہ پاکستانی ٹیم


آپ کو میری رائے سے اختلاف کا پورا حق ہے، لیکن میرے تجزیے کے مطابق پہلے ٹیسٹ کے لیے شارٹ لسٹ کیے جانے والے بیس کھلاڑیوں میں سے نو، یعنی اظہر علی، بابر اعظم، عابد علی، اسد۔ شفیق، محمد عباس، نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی، یاسر شاہ اور محمد رضوان تو غالباً ٹیم میں شامل ہوں گے ہی، باقی دو پوزیشنوں کے لیے شان مسعود اور امام الحق کے مابین دوسرے اوپنر کے لیے مقابلہ ہے۔ تاہم اظہر علی کی دفاعی سوچ کے پیش نظر ممکن ہے یہ دونوں ہی ٹیم کا حصہ بن جائیں اور کہانی ختم ہو جائے۔

تاہم خلاف توقع، اگر پانچ باؤلرز کے ساتھ جانے کا جارحانہ فیصلہ کیا گیا تو ان میں سے کسی ایک اوپنر کے ساتھ وہاب ریاض کو موقع دیا جا سکتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں پاکستانی اور انگلش ٹیم میں سب سے بڑا فرق بین اسٹوکس کا غیر معمولی آل راؤنڈ کھیل ہے، جب کہ پاکستان اس درجے کے قابل اعتماد آل راؤنڈر سے محروم ہے۔ پاکستانی ٹیم میں فہیم اشرف بطور آل راؤنڈر شامل ہیں، لیکن وہ باؤلنگ اور بیٹنگ دونوں میں مستقل مزاجی اور معیار کے اعتبار سے متاثر نہیں کرپائے۔

تاہم ممکن ہے انگلش کنڈیشن میں میڈیم پیسرز کے لیے مواقع کے پیش نظر، وہ ٹیم کے فیصلہ سازوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جہاں تک آل راؤنڈر کا تعلق ہے، شارٹ لسٹنگ سے محروم عماد وسیم میرا پہلا انتخاب ہوتے جو نا صرف قابل اعتماد بلے باز بلکہ بہت ماہر گیند باز بھی ہیں۔ ان کے انتخاب کے لیے میری یہ دلیل بھی ہے کہ پاکستانی بلے بازوں کے انگلش کنڈیشن میں اکثر لائن سے آؤٹ ہوتے چلے جانے کی دیرینہ عادت کے پیش نظر، چھٹے ساتویں نمبر پر عماد وسیم جیسے اٹک جانے والے بلے باز کی موجودگی غنیمت ہوتی، جب کہ کنٹرول کے ساتھ گیند کرانا اور جمے ہوئے بلے بازوں کی وکٹ لینے کی عادت علیحدہ خوبی ہوتی۔ خیر، یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری نظر انتخاب سے باہر ٹیم کا کوئی ایسا کھلاڑی بھی ٹیم کا حصہ بن جائے، جس نے پریکٹس میچوں میں اچھی فارم کا مظاہرہ کیا ہو۔ مثلاً: سہیل خان۔ لیکن گلیمر سے محرومی کی وجہ سے مجھے اس کا کم امکان نظر آتا ہے۔

اب ذرا ان توپ تجزیہ کاروں سے اختلاف کا اظہار کرتا چلوں، جن کے خیال میں پاکستانی ٹیم کو سیریز میں وائٹ واش درپیش ہے اور ان کا ایک ٹیسٹ جیت پانا بھی کارنامہ ہو گا۔ بصد احترام عرض ہے کہ میری رائے میں یہ تخمینہ کاری محض ماضی کی سیریز کی بنیاد پر کی جا رہی ہے ورنہ دونوں ٹیموں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ سیزن کا اختتام قریب ہے۔ اگر بارش نہ ہوئی ہو تو گیند غیرمعمولی سیم اور سوئنگ نہیں ہو گی۔ اگر ہمارے بلے باز، خصوصاً اوپنر اگر باہر جاتی گیندوں سے چھیڑچھاڑ سے گریز کرنے میں کامیاب ہو جائیں، تو اینڈرسن اور براڈ کی گیندبازی خاصی حد تک بے اثر بنائی جا سکتی ہے۔ البتہ آرچر میری رائے میں پاکستان ہی نہیں، کسی بھی بیٹنگ لائن کے لیے خطرہ ہے۔

تیز رفتار کے علاوہ اس کی گڈ لینتھ سے اٹھ کر بلے باز کی پسلیوں اور دستانوں پر آنے والی گیندیں اور باؤنسر اعلیٰ ترین بلے باز کے لیے امتحان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان تین گیند بازوں کے ساتھ ساتھ بین اسٹوکس بھی غیر معمولی سوئنگ یا رفتار سے محروم ہونے کے باوجود صرف لائن لینتھ کا خیال رکھنے اور ہر گیند پر جان لڑانے کی وجہ سے اکثر اہم وکٹ لے اڑتے ہیں۔ عادل رشید اور معین علی کی جگہ لینے والے بیس بطور اسپنر انگلش ٹیم میں بہت عمدہ اضافہ ہیں جو بہترین کنٹرول اور سازگار صورت حال میں معقول ٹرن کی وجہ سے قیمتی وکٹس حاصل کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔

ادھر پاکستانی گیندبازوں میں شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ دونوں نے رفتار اور سوئنگ دونوں سے پریکٹس میچوں میں ساتھی بلے بازوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور وہ غیرمعمولی فارم کے ساتھ میچ میں جائیں گے۔ محمد عباس اپنی لائن اور لینتھ کے ساتھ سوئنگ سے بھی بلے بازوں کی ناک میں دم کرنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ وہ ٹیم کے غالباً واحد گیند باز ہیں جو نئی گیند کی سیم کا بھی بہترین استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ شارٹ لسٹڈ کھلاڑیوں میں شاداب خان بھی شامل ہیں لیکن یاسر شاہ کو تجربے کی وجہ سے ترجیح دیے جانے کا زیادہ امکان ہے۔

میں نہیں سمجھتا کہ اظہر علی شاداب خان کو بطور آل راؤنڈر شامل کرنے کا جارحانہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یاسر شاہ اپنی گزشتہ کئی سیریز میں زیادہ کارگر نہیں رہے اور بہت زیادہ رنز دیتے رہے ہیں اور ان کی فٹنس پر بھی انگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔ لہٰذا اس موقع پر امید ہی کی جاسکتی ہے کہ اس طویل وقفے میں انھوں نے اپنی خامیوں اور فٹنس پر کام کیا ہوگا، خصوصاً ایسی صورت حال میں کہ مشتاق احمد کی شکل میں ایک کام یاب ترین سابق لیگ اسپنر اس کی معاونت کے لیے ہمہ وقت دست یاب رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments