! مذہبی فسادات کی نئی لہر: جاگتے رہو


پاکستان ان دنوں مذہبی حوالے سے نت نئی مباحث کا مرکز بنا ہوا ہے۔ چند ہفتوں قبل ڈاکٹر اشرف جلالی نے ایک خظاب میں متنازعہ گفتگو کی۔ مذہبی حلقوں کی طرف سے ڈاکٹر جلالی کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر اپنے موقف پر ڈٹے رہنے اور مزید مہم جوئی جاری رکھنے کی پاداش میں انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ لیکن اس بحث نے اس مسئلہ کو اتنا اچھالا کہ اسی اثناء میں سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے مولانا اعظم طارق کے بیٹے معاویہ اعظم نے قومی اسمبلی میں ”تحفظ بنیاد اسلام بل“ پیش کر دیا۔

اس بل میں دیگر شقوں کے علاوہ اہل بیت کرام کے اسماء کے ساتھ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی اور لقب نہ لگانے کی تجویز دی گئی جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پراس بل کے خلاف سخت ردعمل کے بعد اسپیکر پنجاب اسمبلی نے علمائے کرام سے مشاورت کرنے اور انہیں اعتماد میں لینے کی یقین دہانی کرائی۔ ابھی یہ معاملہ کچھ سلجھا ہی تھا کہ شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کے الزام میں ملزم کو احاطہ عدالت میں ہی قتل کر دیا گیا۔

اس قتل نے مذکورہ بالا مقامی نوعیت کی بحثوں کے بجائے اس بین الاقوامی نوعیت کے واقعہ کو ہر خاص وعام کا موضوع بحث بنا دیا۔ اس معاملہ پر عوام کا ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ بعض لوگ کا یہ ماننا ہے کہ کسی شخص کو ماورائے عدالت قتل کرنے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے متضاد دوسری رائے یہ ہے کہ جب انصاف کی باقاعدہ فراہمی نہ ہو اور ”انصاف میں تاخیر، انصاف کا ترک“ کرنے والا جملہ صورتحال پر مصداق ہو تو شخصی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ ناموس کے لیے آخری حد تک جائے۔

یہاں پر اس بحث میں الجھنا زیادہ مناسب نہیں کہ ایک شخص کو آیا اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ قانونی کارروائی سے مایوس ہو کر خود مدعی اور خود ہی قاضی بن جائے یا پھر تمام قانونی چارہ جوئی کے بعد اس معاملہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے۔ بہرحال یہ فیصلہ تو اسلامی قانون کے ماہرین اور مجتہدین نے کرنا ہے۔ انفرادی حیثیت میں یہ کیس قاتل اور مقتول کے حوالے سے اس لیے بڑی اہمیت کا حامل کیس ہے کہ ایک مارا گیا اور دوسرا جیل میں ہے۔

لیکن بحیثیت مجموعی یہ پاکستانی قوم کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ انہوں نے اسے روایتی طریقے سے ڈیل کرنا ہے یا پھر تمام سابقہ طریقوں سے ہٹ کر ایک موثر اور ذمہ دار قوم کی حیثیت سے ایسے راستے کا انتخاب کرنا ہے کہ ایسے واقعات کا سلسلہ بھی بند ہو جائے اوردنیا میں پاکستان کو ذمہ دار اور باشعور ریاست کے طور پر بھی جانا جائے۔ اس ضمن سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت وقت اور عدالت عظمیٰ پر عاید ہوتی ہے کہ موثر قانون سازی کے ذریعے ایسا ٹھوس اور پائیدار حل نکالا جائے کہ نہ کسی شہری کو عوام کے عقائد وایمان کی ریڈ لائنز کو چھونے کی اجازت ہو اور نہ ہی کسی شخص یا گروہ کو قانونی کارروائی سے مایوس ہوکر ایسے انتہائی اقدامات اٹھانے کا جواز فراہم ہو۔

ایسے واقعات ملک و قوم کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں جب دنیا دہشت گردی اور تشدد پسندی کے خلاف آپ کے موقف اور اقدامات کو سراہ رہی ہو اور آپ کے روایتی حریف پر دہشت گردی، انتہاپسندی کے الزامات کی صورت میں ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہو۔ ایسی صورتحال میں حریف ملک کے لیے یہ مناسب ترین موقع ہو سکتا ہے کہ وہ مخالف ریاست میں پیدا شدہ ایسے مذہبی فسادات کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرسکے۔

اگرچہ یہ ماننا ذرا مشکل ہے کہ مندرجہ بالا تمام مذہبی فسادات کے پیچھے کسی دشمن کی منظم منصوبہ بندی ہے تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کہ دشمن ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ایسے حالات میں حریف ہر وہ مذموم کارروائی کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے ذریعے وہ ریاست پاکستان کے داخلی امن عامہ اور بین الاقوامی تشخص کو نقصان پہنچا سکے۔ پاکستان پہلے ہی ایف اے ٹی ایف کی گرداب سے نکلنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں انتہاپسندی کے یہ واقعات پاکستان مخالف قوتوں کو جواز و مواد فراہم کرتے ہیں۔

حکومت کی امن پالیسی اور بھارت کی اقلیتوں سے نفرت پرمبنی پالیسی نے بالترتیب پاکستان کو ایک ذمہ دار اور امن پسند جبکہ بھارت کو انسان ومذہب دشمن تسلیم کیا جا چکاہے۔ ایٹمی اثاثوں کی حفاظت اور ذمہ دارانہ موقف کی وجہ سے پاکستان کے کردار کو سراہا جا رہا ہے۔ اسی طرح بھارت کو سیکولر جمہوری ماننے اور پاکستان کو دہشت گرد ملک سمجھنے والے ملکوں کی رائے اگر یکسر متضاد نہیں ہوئی تو کم از کم اس میں واضح تبدیلی ضرور آچکی ہے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے ایسے مذہبی معاملات کا فوری اور جذباتی ردعمل دینے کی بجائے حکمت عملی اور تدبر سے کام لیا جائے۔ تاکہ ملک میں امن اور اخوت کا ماحول بھی برقرار رہے اور بین الاقوامی سطح پر جگ ہنسائی کا ذریعہ بننے اور ریاست کی منفی تصویر سازی سے بھی بچا جا سکے۔ ممکن ہے کسی بھی قسم کا نازیبا اور ناقابل مواد شیئر کرنیوالے کوئی نفسیاتی مریض ہے اور اس مریض کو غیر معمولی اہمیت دے کر اسے قومی مسئلہ بنا دینا ہر گز کوئی تدبر یا قومی بلوغت کی علامت نہیں ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک دوسروں کو گالی دینے اور کفر و غداری کے فتوؤں سے نہ تودین کی خدمت ہو سکتی ہے اور نہ ہی قوم وملک کی، شاید جذباتی اور منتشر ذہنیت کو جز وقتی تسکین مل جائے۔ جو کہ نہ تو کسی مسئلہ کا حل ہے اور نہ ہی عقائد و ایمان کی حفاظت کی ضمانت ہے۔ یہ با ت بھی بڑی تعجب انگیز ہے کہ کوئی ایک مرتبہ غلطی یا گستاخی کرتا ہے تو لاشعوری طور ہر شئیرنگ، لائکس اور کومنٹس کے ذریعے اتنی گستاخیاں کی جاتی ہیں کہ الامان والحفیظ۔

لہٰذا متنازع، گستاخانہ اور ممنوعہ مواد کو آگے بھیج کر نفرت اور آگ کو ہوا دینے سے بھی گریز کیا جائے۔ اگرچہ جذبات عقیدہ و ایمان کاحصہ ہوتے ہیں لیکن عمل سے عاری، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے نابلد، کھوکھلے نعروں اور سطحیت سے بھرپور جذبات کی ایمان و اسلام میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ شاید جذبات ہماری زندگی پر حاوی آگئے اورعمل زندگی سے غائب گیا۔ یہاں پر ڈاکٹر شریعتی شہید کی نصیحت جواس نے بالخصوص اہل تشیع کے لیے کہی لیکن وہ سب کے لیے مشعل راہ ہے۔ فرماتے ہیں :علی کے نام پر زندہ رہنا ہے تو ان کی سیرت پر عمل کرنا سیکھو، ان کے نام پر مرنا تو آسان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments