سری نواس رام انوجن نے کیمبرج میں ریاضی سکھائی


انگلیوں پر کی جانے والی گنتی اور حساب ہندوستان میں لکیریوں میں بدل کر ہندسہ بن گیا اور مشرق وسطیٰ میں علم الحساب کہلایا جو الخوارزمی کے الجبر و مقابلہ کی منطق کی کسوٹی پرالجبرا اور دن رات ریاضت کے تختہ مشق سے گزر کر ریاضی کے درجے پر فائز ہوا۔ اس علم نے اپنی ارتقاء کے دوران نہ صرف ہندسوں سے اشکال، کلیوں اور صیغوں کا سفر طے کیا بلکہ دوسرے علوم مثلاً حیاتیات، طبیعات اور کیمیا کا بھی پھلنے پھولنے میں مدد گار ہوا اور اب کائنات کی وسعتوں میں زمان و مکان کے رازوں سے پردہ اٹھانے پر کمر بستہ ہے۔

مشق مسلسل کی وجہ سے الجبرا کا نام اس علم کو مشرق وسطیٰ میں ملا جہاں اس کی شعبہ جاتی درجہ بندی کرکے اس کو وسعت دی گئی۔ مشرق وسطیٰ میں ہی اس علم کو سمجھنے کے لئے مشق کے ساتھ عقل و شعور کے ریاضت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو ریاضی کا نام دیا گیا۔ الجبر جیسا نام سے ہی عیاں ہے زور زبردستی کے مشق کو کہا جاتا ہے جبکہ ریاضت عربی میں غور و خوض، تفکر اور سوچ و بچار کے لئے مستعمل ہے۔ ریاضت مذہبی طور پر تزکیہ نفس کے لئے بھی کی جاتی ہے جس میں انسان خضوع و خشوع کے ساتھ ذکر و فکر کرتا ہے۔ وجدان کے حصول اور تزکیہ نفس کے لئے ریاضت کا طریقہ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ تقریبا ً ہر مذہب میں رائج ہے۔ ہندوستان میں اس کو گیان کہا جاتا ہے جو یہاں کے مذاہب میں رائج العام رہا ہے۔

22  دسمبر 1887ء کو ہندوستان کے شہر مدراس میں پیدا ہونے والے سری نواس رام انوجن کا گیان یعنی ریاضت بچپن سے ہی ہندسوں کی بندشوں، صیغوں اوراشکال میں رہا۔ اس کو ہندسوں اور اشکال کے پر پیچ مسائل کی سمجھ گیان میں ایسے آتی تھی جیسے کسی ذی روح کو سانسیں آ رہی ہوں، ساگر سے لہریں اٹھ رہی ہوں اور کسی ندی میں پانی بہہ رہا ہو۔ ریاضی اور جیومیٹری کے پیچیدہ مسائل حل کرنے کے لئے اس نے اپنا طریقہ کار اپنایا ہوا تھا۔

ہندسوں اور اعداد و شمار کی وسعتوں کو کھوجنے ولا رام انوجن مگر تاریخ، جغرافیہ اور زبان دانی وغیرہ کے میدانوں میں بالکل ہی کورا تھا۔ میٹرک کا امتحان ضلع بھر میں سب سے اول درجے پر پاس کرنے کے بعد وہ کالج سے ایف اے کا سرٹیفیکیٹ بار ہا کوششوں کے باوجود حاصل نہ کرسکا تھا۔ ہندوستان میں رائج لارڈ میکالے کے انگریزی نظام تعلیم میں امتحان پاس کرنے کے لئے صرف ریاضی یا کوئی ایک مضمون کافی نہیں تھا۔

کیمبرج کی ٹرنیٹی کالج کے پروفیسر جی۔ ایچ ہاڑی نے جب اس کا کام دیکھا تو دنگ رہ گیا کہ ہندوستان کے شہر مدراس کے پورٹ ٹرسٹ میں بیس پونڈ ماہانہ تنخواہ لینے والا ایک 23 سالہ نوجوان ریاضی کی ایسی گتھیاں بھی سلجھا سکتا ہے جو بڑے بڑے ریاضی دان آج تک نہ سمجھ سکے تھے۔ اس نوجوان کو کیمبرج بلایا گیا۔

مگر مدراس میں دیواروں اور ریت پر ریاضی کی گتھیاں سلجھانے اور اپنا سلیٹ لے کر کسی درخت کے نیچے پہروں اعدادوشمار کے مشقوں کی ریاضت کرنے والے رام انوجن کو ٹرینٹی کالج کے کلاس روم میں بٹھا کر سکھانا ایسے تھا جیسے کسی شاہین کو پنجرے میں بند کرکے پرواز کی تعلیم دی جائے جائے۔ اس کا دم گھٹنے لگا مگر اس نے اپنا انداز پرواز نہ چھوڑا۔

سائنس کا اصول ہے کہ اس میں تحقیق کے نتائج کی صحت کا دارومدار اخذ کرنے کے طریقہ کار (میتھڈ) پر ہوتا ہے یا اس پراسس پر جس کے ذریعے نتائج تک پہنچا جاتا ہے۔ یہاں نہ کوئی طریقہ کار (میتھڈ) تھا نہ پراسس، ایسے میں کیمبرج کے سائنس دان نتائج پراعتبار کیسے کرتے۔ اعتراضات اور سوالات اٹھائے گئے۔ رام انوجن نے ہمیشہ جواب دیا کہ اگر نتائج غلط نہیں تو یہ سوال ہی بےکار کی بحث ہے۔ دوسری طرف کیمبرج کے اساتذہ کا خیال تھا کہ بغیر طریقہ کار وضع کیے کسی مسئلے کا حل نکل آنا حادثاتی بھی ہوسکتا ہے اس کو تحقیقی و سائنسی نتیجہ نہیں کہا جاسکتا۔

رام انوجن ایک مذہبی شخص تھا، لندن میں بھی کبھی گوشت نہیں کھایا اور نہ شراب پی۔ وہ اپنی خاندانی دیوی لکشمی ناماگری جس کی آشیرواد کے ساتھ وہ کیمبرج پہنچا تھا اس کی مورتی ہمیشہ اپنے سامنے رکھتا اور اس کی پوجا کرتا رہتا۔ کیمبرج میں اس کا استاد، رفیق کار اور دوست جی۔ ایچ ہارڈی ایک ملحد شخص تھا جو نہ صرف کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا تھا بلکہ وہ دوستی اور رشتہ داریوں کا بھی ویسے قائل نہیں تھا جیسا رام انوجن۔

 اگرچہ ہارڈی کو اس کے مذہبی عقائد سے کوئی سروکار یا مسئلہ نہیں تھا مگر یونیورسٹی کے بورڈ کو رام انو جن کی رائل سوسائٹی میں فیلو شپ کے لئے مطعمین کر نے کے لئے ریاضی کے مسائل حل کرنے اور نتائج تک پہنچنے کے لئے اس کے طریقہ کار کو سمجھنا بہت ضروری تھا۔ رام انوجن بورڈ کو یہ نہیں سمجھا سکتا تھا کہ پیپل کے درخت کے نیچے آلتی پالتی مار کر بیٹھے گیان کرنے سے ریاضی کی گتھیاں سلجھائی جا سکتی ہیں۔ ریاض میں کشف بھی ہوتا ہے اور گیان سے نروان بھی حاصل ہوتا ہے یہ مغرب کے فلسفیوں کو سمجھانا مشکل تھا۔

پروفیسر جی۔ ایچ ہارڈی نے جب کیمبرج کے بورڈ کے سامنے رام انوجن کی رائل فیلو شپ کے لئے کیس پیش کیا تو کہا کہ اس نے کبھی کسی مذہب یا خدا کو نہیں مانا مگر یہ بات بھی طے ہے کہ سائنس دان کوئی فارمولا یا قانون خود سے نہیں بناتا بلکہ وہ ہمیشہ سے موجود ہوتا ہے جس کو وہ دریافت کرتا ہے اور سامنے لے آتا ہے۔ ہر تحقیق اور جستجو کا مقصد ایسا علم کا حصول ہے جو لوگ پہلے سے نہیں جانتے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس نے کیا طریقہ کار اختیار کیا ہے کیا یہ بات درست نہیں کہ اس رام انوجن نے چار ہزار کے لگ بھگ کلیے، صیغے اور نتائج بتا دیے جو دنیا پہلے سے نہیں جانتی تھی۔ اس نے بورڈ کو قائل کیا کہ اگر رام انوجن کے اخذ کردہ نتائج غلط ثابت نہیں ہوئے اور اس کی سلجھائی گتھیوں پر سب متفق ہیں تو اس کو فیلو شپ دی جا سکتی ہے۔

1918 ء میں رام انوجن نہ صرف پہلا ہندوستانی تھا جو رائل سوسائٹی کا فیلو بنا بلکہ 30 سال کی عمر میں اس مقام پر پہنچنے والا پہلا شخص بھی تھا۔ اپنی مذہبی اور خاندانی روایات کے برخلاف سات سمندر پار جانے والے رام انوجن کو کھانے پینے اور رہنے سہنے میں بڑی مشکلات سے گزرنا پڑا تھا خاص طور جنگ عظیم کے دنوں میں جب برطانیہ پر پے درپے حملے ہورہے تھے۔ نوجوان رام انوجن کو ٹی بی کی بیماری لاحق ہوگئی جس نے اس کو اندر سے کھوکھلا کردیا تھا وہ گھر واپس آ گیا اور 26 اپریل 1920 ء کو 32 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔

رام انو جن نے مختصر سے عمر میں دنیا کو ریاضی کے 3900 سے زائد مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلیے، صیغے اور نتائج دیے جن میں سے بعض جو اس دور میں سمجھ نہ آسکے تھے آج تک سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلیک ہول کی دریافت، کمپیوٹر اور مواصلات کے میدانوں میں ان کے صیغے اور کلیے آج بھی کارگر ہیں اور نہ جانے مستقبل میں کتنی نئی راہیں اور کھلیں گی جس میں دنیا رام انوجن کی مشعل اٹھائے آگے بڑھے گی۔

الخوارزمی کے الجبر اور المقابلہ کا علم جس کو ریاضی بھی کہا گیا تھا مگرمغرب میں سائنسی طور پر ریاضت سے اس کو ثابت صرف سری نواس رام انوجن نے کیا تھا۔ زندگی نے اس کو کچھ اور مہلت دی ہوتی تو شاید ہندوستان کے گیانیوں کو ریاضی کا وہ کلیہ سمجھا سکتا جو وہ کیمبرج کے سائنسدانوں کو نہ سمجھا سکا تھا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments