سائیکل چال


تین گھر اور ایک کوڑا دان چھوڑ کے ہمسایہ عبدالغفور رہتے ہیں۔ اپنے تئیں یہی کوئی پچپن چھپن برس کا ”نوجوان“ ۔ کسی سرکاری ادارے کی بدقسمتی کہ اس میں ملازم ہیں۔ ملازمت اپنی جگہ مگر موصوف نے ساری زندگی ایک ہی کام پوری تن دہی، ایمانداری اور انہماک سے کیا ہے اور وہ ہے خوراک کا لمحوں میں صفایا کرنا۔ بچپن میں اپنے ہم جماعتوں کے ٹفن چوری کر کے لنچ کھا جایا کرتے تھے۔ جوانی، بن بلائی اور بلاتفریق شادی و مرگ کی دعوتیں اڑانے میں گزار دی اور ملازمت صرف سو کر۔ دفتر میں اللہ سے پناہ مانگتی ایک کرسی رکھوائی ہوئی ہے۔ صوفے پر بھی لمبے ہو لیتے ہیں مگر وہ عموماً آٹھ گھنٹوں میں سے تقریباً صرف ساڑھے سات گھنٹے۔

موصوف کے حلیے کے بارے چیدہ چیدہ خصائص کچھ یوں ہیں۔ آنکھیں بڑی بڑی مگر تھوڑی اندر دھنسی ہوئیں، ناک اور گالوں پر اعلیٰ چربی کی ادنیٰ تہ، تہ در تہ جمی ہوئی۔ سر نہایت چمکدار اور کشادہ پیشانی سر کے پچھلے حصے تک پھیلی ہوئی۔ تقریباً مینڈک جیسی ”صراحی دار گردن“ ۔ آرنلڈ شیوارزنگر جیسی چھاتی اور پیٹ کی پیمائش۔ فرق صرف اتنا کہ آرنلڈ کی چھاتی ستاون انچ اور کمر تیس انچ تھی اور غفور بھائی کے ہاں بھی پیمائشیں بالکل یہی تھیں مگر اعضا الٹ ہو گئے تھے۔ ویسے ایک دوسرے زاویے سے یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ کمر ان کی بھی تیس انچ ہی تھی بس کشش ثقل کے باعث چھاتی کے ستائیس انچ پیٹ تک پہنچ کر ایک ہلکی سی توند کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ ٹانگیں اگرچہ تھیں لیکن بالائی حصے کے مقابلے قدرے کمزور۔

غفور بھائی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اپنی صحت اور چیزوں کے بارے بڑے ”خبردار“ یعنی کانشیئس ہیں۔ صحت کے بارے جب بھی گفتگو فرماتے، ان کے اندر سے سترہ اٹھارہ سال کا لا ابالی اور پھڑ باز باڈی بلڈر فوراً برآمد ہو جاتا۔ چیزوں کے بارے ان کا دعویٰ رہا ہے کہ ہمیشہ برینڈڈ اشیا کو ترجیح دیتے ہیں۔

صحت اور چیزوں کے بارے ”ٹچی“ ہونے کی رگ اس وقت شدت سے پھڑک اٹھی جب پچھلے دنوں کرونا قرنطینہ کے باعث ان کا وزن مزید کوئی پندرہ کلو بڑھ گیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک عدد سائیکل خرید کر روزانہ سائیکلنگ کی جائے۔ چونکہ اشیا کے بارے بہت ٹچی تھے اس لئے گلی میں ہر آتے جاتے کو دو باتیں بتاتے جاتے۔ ایک یہ کہ وہ عنقریب ”ٹریک یوشی موٹو نارا“ کی سائیکل لے رہے ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ مارکیٹ میں اس وقت اس کی قیمت کئی کروڑ ہے۔ ان کی ایسی باتیں سن کے کئی کاروباری ذہنیت والے بزرگوں نے انہیں اتنے پیسوں میں بڑا مکان خریدنے کا مشورہ بھی دیا مگر ان کی سوئی سائیکل پہ اڑ گئی تھی۔ الغرض اپنے ارادۂ خریداریٔ برانڈڈ سائیکل کی کوئی مہینہ بھر تبلیغ و تشہیر کے بعد وہ دن بھی آیا جب وہ ”کوئی“ سائیکل لے کر آئے۔ جو کم از کم ٹریک یوشی موٹو نارا ہرگز نہ تھی۔

روزانہ باہر گلی میں وہ اور سائیکل دونوں کھڑے رہتے تھے۔ شکل سے سائیکل کروڑوں تو کیا لاکھوں والی بھی نہیں لگ رہی تھی۔ لیکن سوچا کہ شاید واقعی اتنی قیمتی ہو کیونکہ بعض اوقات بہت عام سے نظر آنے والے بزرگ بھی اندر سے ارب پتی نکلتے ہیں۔ ہماری نظر میں وہ عام سی سائیکل تھی۔ ہینڈل کے بازو پہلے آگے جا کے پھر نیچے اور پیچھے کی طرف مڑے ہوئے۔ لاغر سا فریم مگر گیئر بدلنے کی سہولت۔ گویا غفور بھائی کی شخصیت کے عین متصادم کھلونا۔ پورا ہفتہ تو انہوں نے محلے میں سائیکل کی قیمت کی آگاہی مہم چلا کر بلاتفریق عمر سب کی ناک میں دم کیے رکھا۔ ان کی بات سنی بھی سب نے اور بلامبالغہ، یقین بھی کسی نے نہ کیا۔

اب پرسوں یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ موصوف صرف سر پر حفاظتی ہیلمٹ پہنے اپنی سائیکل پہ سواری کرتے پگڈنڈیوں اور چھوٹی شاہراؤں سے ہوتے ہوئے جی ٹی روڈ پر ہی نکل لئے۔ دور سے دیکھنے سے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کپاس کی تازہ دم ٹرالی جیسی گٹھڑی چلی آ رہی ہو۔ بھرپور انجوائے کر رہے تھے۔ بارش کے بعد موسم کی خنکی نے انہیں دیوانہ کیا ہوا تھا۔ کوئی آدھا کلومیٹر بھی نہ چلے ہوں گے کہ سائیکل کا گیئر بدلا اور شاید جوانی کا کوئی معاشقہ یاد کر کے دیوانہ وار پیڈل چلانے لگے۔

سائیکل نے اچھی خاصی رفتار پکڑ لی۔ جھومتے، گھومتے اور ہانپتے سائیکل کی رفتار مسلسل بڑھاتے جا رہے تھے کہ اچانک سامنے ایک کتا آ گیا۔ جو شاید کسی ضروری کام کے سلسلے میں جلدی سے سڑک پار کرنا چاہ رہا تھا۔ غفور بھائی کی بے قابو سپیڈ اور کتے کا ضروری کام، الغرض سڑک کے عین بیچ دونوں کا ٹکراؤ ہو گیا۔ کتا سڑک تو پار نہ کر سکا مکر غفور بھائی سائیکل سمیت کتا پار کر گئے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ زخمی ہو کے گرے پڑے تھے۔ اس لئے بعد از حادثہ عموماً پیش آنے والی ہاتھا پائی کا مرحلہ درپیش نہ آ سکا۔ زخمی غفور بھائی کے ذہن میں کتے کے بارے میں وہ شعر آ رہا تھا کہ

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

دونوں کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ 1122 پر کال کرنے کے لئے ایک دوسرے کو درخواست بھری نظروں سے مسلسل دیکھ رہے تھے۔

اس دن کے بعد سے غفور بھائی تو سائیکل کی بات نہیں کرتے البتہ تمام تیماردار ان کی کتے سے ہوئی ملاقات کا پوچھ کر چسکا ضرور لیتے ہیں۔

عزیزان وطن کے جثوں کی ورزش کے لئے سہراب سائیکل ہی موزوں ہے۔ بائیس انچ والی ہو یا چوبیس انچ کی۔ برانڈ اور قیمت کے احساس کمتری میں مبتلا افراد کے لئے اطلاعاً عرض ہے کہ وہ سائیکلیں پروفیشنل بائیکرز اور سائیکلسٹس اپنی ریسوں میں استعمال کرتے ہیں۔ خواہ مخواہ فضول دھاک والے چکر میں مت پڑیں۔
(سنا ہے لوگوں میں مہنگی سائیکلیں خریدنے کی دوڑ فروغ پا رہی ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments