ٹڈی دل معیشت کے لیے کرونا سے زیادہ خطرناک؟


عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق ٹڈی دل کے حملے کی وجہ سے پاکستان کی فصلوں کو پہنچنے والا مجموعی نقصان ایک ہزار ارب روپے کے برابر ہو سکتا ہے۔

وسطی پنجاب کا ایک کسان اپنے کھیت کو ٹڈی دل سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کو کرونا (کورونا) کی وبا کے آتے ہی ایک اور وبا نے بھی گھیرے میں لے لیا ہے، یعنی ٹڈی دل یا لوکسٹ نے جس کے حملے کی خبریں پچھلے چند ماہ سے ٹیلی ویژن اور اخبارت کی شہ سرخیاں بن رہی ہیں۔

کرونا کا زور تو بظاہر ٹوٹتا نظر آ رہا ہے لیکن ٹڈیاں کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور انہوں نے ملک کے کئی علاقوں میں بھرپور طریقے سے حملہ آور ہو کر اپنے راستے میں آنے والے کسی بھی سبز پودے، درخت یا فصل کو نہیں چھوڑا اور میلوں تک موجود فصلوں کا ایسے صفایا کیا ہے جیسے ان علاقوں میں پہلے سے کچھ موجود ہی نہیں تھا۔

یہ ٹڈی کہاں سے آئی؟ کب آئی؟ کیا پہلی بار آئی اور ہم کیا کر سکتے تھے جو نہیں کیا؟ اس کے حملے سے کسان حضرات کا کتنا نقصان ہوا ہے اور ہماری زراعت و معیشت پہ کیا اثرات ہوئے ہیں؟ ہم نے اس سے نمٹنے کے لیے کون سا پہیہ ایجاد کیا ہے؟

یہ اور اس جیسے سوال کرونا کی وجہ سے تھوڑا دب گئے ہیں، اس لیے ہم کوشش کریں گے کہ ان کے جواب دیے جائیں اور دیکھا جائے کہ اس آفت کا حل نکالتے نکالتے کہیں ہم کسی اور دلدل کی طرف تو نہیں چل پڑے۔

ٹڈی کے حالیہ حملے کی ابتدا 17 مارچ 2019 کو بلوچستان کے علاقے کلانچ جو کہ تحصیل پسنی ضلع گوادر میں ہے، سے ہوئی جب وہاں پر پہلی بار اس کی موجودگی نشاندہی ہوئی اور اپریل 2019 میں اس کی موجودگی اور بروقت تلف کرنے کے اقدامات پر ایوان بالا میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کہودہ بابر نے آاواز اٹھائی۔ یہ وہ وقت تھا کہ اگر بروقت اقدامات کر لیے جاتے تو اس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان سے بچا جاسکتا تھا۔

تحفظ نباتات کے ماہرین کی رائے میں یمن سے براستہ ایران بلوچستان پہنچنے والے صحرائی ٹڈی کے اس قبیلے پر اس وقت کیڑے مار ادویات کا سپرے کرنے والی دس سے 12 گاڑیوں کے ذریعے بآسانی قابو پایا جا سکتا تھا۔

سکھر میں کسان ٹڈی دل کو بھگانے کی کوششوں میں مصروف (اے ایف ی)

یمن اور سعودی عرب کے صحراوٴں میں اپریل اور اکتوبر 2018 میں آنے والے غیر معمولی بارشوں کے طوفان کی وجہ سے وہاں پر ٹڈی دل کو افزائش کے لیے مناسب ماحول ملا جس کی وجہ سے اس نے بڑے پیمانے پر انڈے دیے۔ یمن میں جنگ کے حالات کی وجہ سے وہاں پر اس پر قابو پانے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا جا سکا اور اس کے بڑے جھنڈ وہاں سے ایران اور پھر وہاں سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان آ پہنچے۔

بروقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اس کو سال 2019 کے موسم گرما اور 2020 کے موسم بہار میں مقامی طور پر انڈے دینے کا موقع مل گیا اور کیونکہ ایک مادہ ایک دن میں اپنی دم ریت میں گاڑ کر 10 سے 15 سینٹی میٹر لمبی ایک مخصوص تھیلی میں 95 سے 158 انڈے دیتی ہے اور ایک مربع میٹر میں تقریباً ایک ہزار انڈوں والی تھیلیاں موجود ہوتی ہیں جن سے دو سے تین ہفتوں کے بعد بچے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں تو اس بڑے پیمانے پر افزائش کی وجہ سے اس کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔

ٹڈی کے غول کے غول بلوچستان سے سندھ اور وہاں سے پنجاب اور وہاں سے ہوتے بھارت جا پہنچے۔ بھارت میں چند ماہ گزارنے کے بعد یہ واپس صوبہ پنجاب سے ہوتی ہوئی سندھ میں تھرپارکر کے علاقے میں پہنچ چکی ہے۔

عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے ایک اندازے کے مطابق ٹڈی دل کے اس حملے کی وجہ سے پاکستان میں ربیع اور خریف کی فصلوں کو پہنچنے والا مجموعی نقصان ایک ہزار ارب روپے کے برابر ہو سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ فصلوں پر صحرائی ٹڈی کے حملے کی یہ آفت کیا پاکستان میں پہلی دفعہ آئی جو ہم اس سے نمٹنے میں ناکام رہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ٹڈی کا حملہ جو کہ بالکل غیر متوقع ہوتا ہے وہ چند سال بعد بھی ہو سکتا ہے اور کئی سال بعد بھی کیونکہ اس کو بڑے پیمانے پر افزائش کے لیے مخصوص موسمی حالات درکار ہوتے ہیں اور صحرائی علاقوں میں زیادہ بارشیں اس کو موافق آب و ہوا فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان میں اس پیمانے پر اس کا حملہ سنہ 60 کی دہائی میں ہوا اور اس کے بعد 90 کی دہائی کے اوائل میں صحرائی ٹڈی نے پاکستان میں فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کے درختوں پر حملہ کیا۔

ٹڈی کے حملے کی وجہ سے زراعت کو پہنچنے والے نقصان کی شرح مجموعی پیدوار یعنی جی ڈی پی کا 0.2 سے 0.5 فیصد ہوتی ہے جبکہ اس کے علاوہ ایسے بہت سارے کیڑے ہیں جن کی وجہ سے زراعت کو نقصان کا تخمینہ ایک اندازے کے مطابق 15 سے 20 فیصد تک چلا جاتا ہے اور ان میں سرفہرست کپاس پر حملہ کرنے والی سفید اور گلابی سنڈی ہے۔ ٹڈی دل کیونکہ بہت بڑے بڑے جمگھٹوں کی شکل میں حملہ آور ہوتی ہے تو اس کو توجہ بھی زیادہ ملتی ہے۔

فصلوں پر اس طرح کے حملوں سے بچاوٴ کے لیے پاکستان میں ادارہ تحفظ نباتات جو کہ وفاقی وزارت قومی تحفظ خوراک و تحقیق کے ماتحت ہے، پاکستان بننے سے پہلے کا موجود ہے۔ تاریخی حوالوں کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ برصغیر میں فصلوں کو حشرات الارض سے بچاوٴ کے لیے پہلی قانون سازی 1913 میں ہوئی تھی۔

تحفظ نباتات کے اس ادارے کا بنیادی مقصد پاکستان میں فصلوں کو ہر طرح کے کیڑوں سے بچاوٴ کے لیے مسلسل نگرانی کرنا، عالمی ادارہ تحفظ نباتات کے ساتھ رابطے کے ذریعے خطے کے دوسرے ممالک میں ہونے والے کیڑوں کے حملوں پر نظر رکھنا، کسی علاقے میں بڑے پیمانے پر سنڈی یا ٹڈی کی موجودگی میں بروقت کیڑے مار ادویات کا سپرے کرنا شامل ہے۔

قیام پاکستان سے پہلے کے اس ادارے کی ملکیت سپرے کرنے والے چھوٹے 16 طیارے بھی تھے جن میں سے ایک پچھلے سال گر کر تباہ ہو گیا اور بہت پرانے ہونے کی وجہ سے باقی کئی سالوں سے خراب کھڑے ہیں۔ اس وقت صرف تین جہاز فعال حالت میں موجود ہیں لیکن بہت پرانے ہونے کی وجہ سے وہ کسی بھی وقت قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس ادارے کے پاس جہاز کھڑے کرنے کے لیے اپنے ہینگر یعنی جہازوں کے پارکنگ گیراج ہیں اور پاکستان سول ایوی ایشن کے لائسنس اور تمام اجازت نامے موجود ہیں۔

نباتات، حشرات اور زراعت کے ماہرین پر مشتمل اس ادارے کا یہ اعزاز بھی ہے کہ سارک ممالک میں واحد پاکستان کا تحفظ نباتات کا یہ ادارہ ہے جس کے پاس ہوائی سپرے کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ۔ حکومتوں کی بے توجہی کے باعث جس میں مناسب فنڈز کی عدم فراہمی، میرٹ کی پامالی، دستیاب وسائل کے غلط استعمال، افرادی قوت کی کمی اور موجود ملازمین کی تربیت نہ ہونے کے باعث یہ ادارہ زبوں حالی کی کیفیت سے دوچار ہے۔

ہر آنے والی آفت جہاں بہت سارے نقصانات لے کر آتی ہے وہیں یہ نادر موقع بھی فراہم کرتی ہے کہ کمزور اداروں کو ایک نئی جہت کے ساتھ جدید خطوط پر استوار کیا جائے تاکہ وہ مستقل بنیادوں پر ملک کی ترقی میں اپناکردار ادا کرتے رہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نیا پیہہ ایجاد کرنا زیادہ آسان سمجھتے ہیں چاہے چند میل سفر کرنے کے بعد وہ پہیہ جواب دے جائے یا پھر قومی خزانے پر ایک نیا مستقل بوجھ بن کر مسلط ہو جائے۔

ٹڈی دل نے کئی علاقوں میں سبزے کا صفایا کر دیا ہے (اے ایف پی)

ایسا ہی کچھ کام ہم نے ٹڈی دل سے بچاوٴ کے قومی ایکشن پلان کی صورت میں کیا ہے۔ بجائے اس کے کہ تحفظ نباتات کے اس ادارے کو، جس کا بنیادی کام ہی یہی ہے، مضبوط کیا جاتا، اس میں موجود خامیوں کو دور کیا جاتا، ٹڈی اور فصلوں کو دیگر کیڑوں اور سنڈیوں سے بچانے کے لیے انہیں ضروری افرادی قوت، جو اس کام میں تکنینکی صلاحیت رکھتی ہے مہیا کی جاتی، حکومت نے یہ کام آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے یعنی این ڈی ایم اے کے حوالے کر دیا اور ساتھ ہی ایک نیا تنظیمی ڈھانچہ نیشنل لوکسٹ کنٹرول سنٹر کی شکل میں قائم کر دیا۔

یعنی وہ کام جو ایک خاص طرح کی تکنیکی مہارت یعنی ماہرین نباتات و حشرات و زراعت کے بغیر نہیں ہو سکتا اس کو کرنے کے لیے بہت سارے محکموں کو اکٹھا کر کے چوں چوں کا ایک ایسا مربہ تیار کر دیا گیا ہے جو کسی نئی دلدل سے کم نہیں۔

اس حکمت عملی میں اس چیز کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا کہ ٹڈی کو مارنے کے لیے صرف جہاز اڑانے کی صلاحیت اہم نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم درست کیڑے مار دوا کا انتخاب، اس کی مناسب مقدار کا انتخاب، اس کے لیے موزوں وقت کا انتخاب اور ایسے کئی دیگر عوامل اہم ہیں۔

ایک ماہر حشرات نے موجودہ حکمت عملی پر لطیف پیرائے میں تبصرہ کچھ یوں کیا کہ ’اس کام پر لگائے گئے اکثر لوگ ایسے ہیں جو بندہ تو بہت آسانی سے مار سکتے ہیں لیکن ٹڈی مارنا شاید ان کے بس کی بات نہیں۔‘

ٹڈی کا حملہ جو مارچ 2019 میں شروع ہوا اس پر قابو پانے کے لیے درست حکمت عملی نہ اپنانے اور غیر متعلقہ اداروں کو، جن کی اس کام میں تکنیکی مہارت صفر ہے، اس کام کی ذمہ داری دینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان میں ٹڈی کو مارنے کے لیے این ڈی ایم اے کی جانب سے وہ والی ادویات درآمد کی جا رہی ہیں جو ماحول اور نباتاتی حیات کے لیے شدید نقصان دہ ہونے کے باعث نہ صرف دنیا میں بلکہ پاکستان میں بھی ممنوع ہیں جبکہ ان ادویات کا متبادل ہمارے ہاں موجود ہے۔ اسی طرح مختلف علاقوں میں کیے جانے والے سپرے میں دوا کی مقدار اس قدر زیادہ رکھی گئی کہ اس کے ماحول، چرند، پرند اور نباتات پر منفی اثرات کا اندازہ آنے والے سالوں میں ہی کیا جا سکے گا۔

پاکستان کو عالمی ادارہ خوراک و زراعت نے اس قضیے سے نمٹنے کے لیے 30 مائیکرو سپریئر دیے ہیں جو گاڑیوں پر لگا کر کرم کش ادویات کا سپرے کرنے کے کام آتے ہیں، لیکن 83 مائیکرو سپریئر جو این ڈی ایم اے نے برطانیہ سے خریدے ہیں، ابھی تک پاکستان نہیں پہنچے۔

اسی طرح این ڈی ایم اے کی جانب سے ترکی سے سپرے کرنے کے لیے چھ ماہ کی لیز پرمنگوائے جانے والے جہاز کا اس کی لیز کی رقم کے علاوہ سپرے کرنے کا معاوضہ 12 سے 14 ڈالر فی ہیکٹر ہے۔ یہ جہاز اس وقت بہاولپور میں کھڑا ہے۔ اس مہنگے انتظام کے مقابلے میں یہی رقم سپرے کرنے کے لیے مخصوص گاڑیوں کی خریداری پر صرف کی جا سکتی تھی اور وہ گاڑیاں ایک مستقل اثاثے کی صورت میں اگلے کئی سال ہمارے کام آتیں کیونکہ ہوائی سپرے صرف مخصوص حالات میں کیا جاتا ہے اور زیادہ تر مائیکرو سپرئیر سے لیس مخصوص گاڑیاں بہت کم لاگت میں زیادہ مفید نتائج کا ذریعہ ہوتی ہیں۔

زراعت ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے اس لیے قیمتی فصلوں کو ٹڈی، سنڈیوں اور دوسرے کیڑوں کے حملوں سے بچانے کے ایک مربوط نظام پاکستان کے زرعی شعبے کی مجموعی پیداوار کے اضافے کے لیے بہت زیادہ اہم ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنائی گئی حکمت علمی پر نظرثانی کر کے نئے ادارے کھڑے کرنے اور غیر متعلقہ اداروں جن کی تکنیکی مہارت نہ ہونے کے برابر ہے، کے ذریعے وسائل کے غلط استعمال کے بجائے تحفظ نباتات کے ادارے کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے جہاں میرٹ، شفافیت، کام کا معیار اور غریب کاشت کار کی فصلوں کا تحفظ اولین ترجیح ہوں۔

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments