وہی حالات ہیں فقیروں کے


منٹو کا افسانہ ”نیا قانون“ جو 1935 کے انڈیا ایکٹ کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔ اس کا مرکزی کردار منگو کوچوان اس کے بارے کہیں سے ادھوری سن گن لیتا ہے اور سمجھ بیٹھتا ہے کہ یکم اپریل کو نیا قانون آئے گا تو بہت کچھ بدل جائے گا۔ گوروں سے نجات ملے گی اور وہ آزاد ہو گا۔ یکم اپریل کو منگو ایک انگریز جو اس کے ساتھ حقارت سے پیش آ رہا ہوتا ہے اسے پیٹ ڈالتا ہے اور ساتھ ساتھ کہتا جاتا ہے پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ۔ اب ہمارا راج ہے بچہ۔ جب پولیس والے اسے پکڑ کر لے جا رہے ہوتے ہیں تو وہ چیخ چیخ کر نیا قانون نیا قانون کہتا رہتا ہے۔ مگر اسے جواب ملتا ہے نیا قانون، نیا قانون کیا بک رہے ہو قانون وہی ہے پرانا اور اسے حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے۔

منگو کوچوان والا خواب اس ملک میں بار بار دیکھا گیا۔ بڑا خواب اس وقت دیکھا گیا جب تقسیم ہند کے نتیجے میں ہمیں آزادی ملی۔ لوگ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب منزل مل گئی۔ تاہم یہ آزادی جب ملی تو خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ اس طرح تقسیم کیا گیا کہ دونوں نوزائیدہ ریاستوں میں جنگ چھڑ گئی۔ پنجاب اور بنگال کے ٹکڑے ہوئے۔ تبادلہ آبادی کے بعد زمینوں اور گھروں کی الاٹمنٹ میں ہیر پھیر کیے گئے۔ ہندوستان نے جاگیرداری یک جنبش قلم ختم کر کے ماضی میں انگریزوں کے پر وردہ طبقہ پر کاری ضرب لگائی مگر یہاں جلد ہی وہی طبقہ حکومت کرنے لگا اور فیض کو کہنا پڑا

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

پھر سیاستدانوں اور سول بیوروکریسی کی مسائل حل کرنے میں ناکامی اور غیر یقینی حالات سے تنگ آئے عوام نے عسکری انقلاب کو خوش آمدید کہا۔ جمہوریت کو اس کی جڑوں تک پہنچانے کا دعوی کیا گیا۔ معاشی استحکام آیا۔ سبز انقلاب کی نوید سنائی دی۔ تاہم ایبڈو لگا کر سہروردی جیسے بڑے سیاستدانوں کو ناک آؤٹ کیا گیا۔ دولت بائیس خاندانوں میں مرتکز ہو گئی اور نیچے ٹپکنا بھول گئی۔ امیر اور غریب میں تفریق بڑھتی گئی۔ پھر ایک کرشماتی کردار نمودار ہوا اور مساوات کا نعرہ لگایا۔ تمام خواب دیکھنے والے اس کے ارد گرد اکٹھے ہوئے۔ اس دفعہ لگا عوام کی جیت ہوئی ہے تاہم ملک کا دوسرا بازو کٹ گیا لوگ ٹھٹکے۔ ناصر کاظمی نے اس المیہ پر کہا

وہ ساحلوں پر گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے

کرشماتی لیڈر نے باقی ماندہ ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ بڑے بڑے کام کرنے لگا۔ لینڈ ریفارمز ہوئیں، نیشنلائزیشن ہوئی، آئین بنا، ایٹمی پروگرام کی ابتدا ہوئی۔ مگر مساوات کا خواب اس وقت چکنا چور شروع ہونے لگا جب جے اے رحیم، معراج محمد خان اور مبشر حسن کی جگہ مصطفی کھر، ممتاز بھٹو اور مصطفی جتوئی جیسے جاگیردار اگلی صفوں میں نظر آنے لگے۔ پھر عوامی دور کا المناک خاتمہ ہوا اور اسلامی دور کا نعرہ بلند ہوا۔ ذات برادری فرقے کی سیاست کو فروغ ملا۔ عالمی طاقتوں کی جنگ میں کود کر پیسہ تو خوب آیا مگر معاشرے میں سخت بگاڑ شروع ہوا۔ مذہبی فرقہ پرستی، منشیات، اسلحہ کی فراوانی ہوئی۔ جہادیوں کا ایک مراعات یافتہ طبقہ وجود میں آیا۔

بندہ مزدور کے حالات مزید تلخ ہوئے۔ پھر ایک دہائی میں جمہوریت کا کھیل کھیلا گیا مگر کوئی اپنی باری پوری نہیں کھیل پایا۔ معیشت مزید زبوں حالی کا شکار ہوئی۔ سیاستدانوں کی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا نتیجہ ایک اور عسکری دور کا آغاز تھا۔ اب عالمی طاقتوں کی سہولت کے لئے معتدل اسلام اور سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا گیا۔ لیکن سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے کرپٹ قرار دیے گئے سیاستدانوں اور سخت گیر مذہبی جماعتوں کو شریک اقتدار کر نا پڑ گیا۔ ملک کا انتظام چلانے کے لئے دساور سے ایک بینکر کو بلایا گیا جو ایک اکنامک ببل پیدا کرنے میں تو کامیاب ہوا تاہم آخر میں ملک کو خودکش حملوں اور لوڈ شیڈنگ کا تحفہ ملا۔ منصف اور انصاف کی بحالی کی ایک بے مثال تحریک چلی اور آمریت کو سرنگوں ہونا پڑا۔ ریاست ہو گی ماں کے جیسی اور ے روزگاروں کو ہر ممکن روزگار اور کام ملے گا جیسے پرجوش نغمے گائے گئے۔ تاہم بعد میں منصف بحال تو ہوئے مگر عدل و انصاف کی جگہ قانون کے رکھوالے مار پیٹ کا کلچر لے آئے۔

وکلا کا ایک اور مراعات یافتہ طبقہ پیدا ہو چکا تھا۔ عوام نے پرانی جماعتوں کو ایک ایک اور باری دی۔ اس دفعہ ایک دوسرے کو خوب موقع دیا گیا۔ روایات کے برعکس ایک دوسرے کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کو ایک اور کرشماتی لیڈر نے نورا کشتی کا نام دیا۔ انقلاب کی بجائے تبدیلی کا نعرہ بلند کر کے نوجوانوں میں جوش و جذبہ پیدا کیا گیا۔ تاہم دو سال بعد بھی لگتا ہے تبدیلی صرف ایلیٹ کو راس آئی ہے۔ جالب یاد آتے ہیں۔

وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments