قربانی کے پیسے سے غریب لڑکیوں کی شادیاں کراؤ۔ ۔ ۔ !


نبی کریم ﷺ کی محفل لگی ہوئی تھی، صحابہ کرام بھی موجود تھے، اچانک ایک عورت آئی اور اس نے کہا : یا رسول اللہ! میں اپنی جان آپ کے حوالے کرتی ہوں یعنی اپنا مالک آپ کو بناتی ہوں، آپ جہاں چاہیں میری شادی کر دیں۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی محفل میں ایک غریب صحابی بھی موجود تھے جو کنوارے بھی تھے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی : یا رسول اللہ! اگر مناسب سمجھیں تو اس کی شادی مجھ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے اس کی بات سن کر ارشاد فرمایا : تمہارے پاس اسے دینے کے لیے حق مہر میں کیا ہے؟

اس نے جواب دیا : یا رسول اللہ! میرے پاس تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے ا س سے فرمایا : جاؤ، اور اگر لوہے کی کوئی انگوٹھی بھی مل جائے تو لے کر آ جانا، میں اسی کو حق مہر بنا کت تمہارا نکاح اس عورت سے کر دوں گا۔ صحابی یہ سن کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ بہت تلاش کیا مگر غربت کا یہ عالم تھا کہ لوہے کی کوئی انگوٹھی تک نہ ملی۔ جب کچھ نہ ملا توواپس نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول!

مجھے اور تو کچھ نہیں ملا، ہاں ایک چادر ہی ہے میرے گھر میں، میں اسے پھاڑ کر دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہوں، آدھی میں رکھ لیتا ہوں اور آدھی اس عورت کو حق مہر کے طور پر دے دیتا ہوں۔ (راوی کے مطابق وہ چادر، ان کا تہبند تھا ) ۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :اگر وہ آدھا حصہ وہ لے گی تو باقی تمہارے کسی کام کا نہ رہے گا۔ یعنی آدھی چادر نہ تو تمہارے کسی کام کی ہے اور نہ ہی اس عورت کے کسی کام آئے گی۔

یہ سن کر وہ صحابی خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعدمایوس ہو کر گھر جانے کے ارادے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جونہی اٹھ کر گھر جانے لگے تو اس کریم آقا نے بلا لیا جن کے در سے کبھی کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹا تھا۔ آپ نے اپنے غریب صحابی سے پوچھا : کیا تمہیں قرآن سے بھی کچھ (آیات یا سورتیں ) یاد ہیں؟ صحابی نے جواب دیا : مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے، میں اس عورت سے تمہارا نکاح انہی سورتوں کے عوض کرتا ہوں۔ یوں آپ ﷺ نے یاد کی ہوئی ان سورتوں کو اس صحابی کے لیے حق مہر قرار دیا اور اس کا نکاح اس عورت سے کر دیا۔

یہ کوئی تاریخی واقعہ نہیں ہے بلکہ صحاح ستہ کی صف اول کی کتاب بخاری شریف کی حدیث (نمبر 5121 ) ہے جس کے راوی حضرت سہل بن سعد ہیں۔ اب اس واقعہ کو کچھ دیر کے لیے یہیں چھوڑتے ہیں اور آپ کو ایک منظر کی جھلک دکھاتے ہیں۔

یہ نبی کریم ﷺ کے پہلے اور آخری حج کا منظر ہے۔ حج ہو چکا ہے اور قربانیاں کی جا رہی ہیں۔ آپ ﷺ نے سو اونٹوں کی قربانی کی۔ تریسٹھ اونٹ اپنے ہاتھ سے ذبح کیے جبکہ باقی حضرت علی ؓ نے ذبح کیے۔ اس کا مفصل بیان امام مسلم نے صحیح مسلم (حدیث نمبر 1218 ) میں حضرت جابر بن عبداللہ کی زبانی بیان کیا ہے۔

جوں جوں قربانی کے دن قریب آتے جاتے ہیں ہر سال یہ واویلا کیا جاتا ہے کہ اتنے جانور مفت میں ضائع کر دیے جاتے ہیں، جانداروں کا خون یوں سر عام بہانا کیونکر جائز ہے؟ اتنے پیسوں سے اتنے غریب گھرانوں کی شادیاں کرائی جا سکتی تھیں، اتنے غریبوں کو روزگار مہیا کیا جا سکتا تھا، اتنے لوگوں کو سال بھر مفت راشن فراہم کیا جا سکتا تھا وغیرہ وغیرہ لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ قربانی کے جانور بیچ کتنے لوگوں کا چولہا جلتا ہے، کتنے لوگوں کو سال میں ایک بار مفت گوشت ملتا ہے، قربانی کے کھالوں سے کتنے رفاہی اداروں کا سال کا بجٹ بنتا ہے، قربانی کی کھالوں سے لیدر انڈسٹری کا وجود برقرار رہتا ہے اور کتنی دولت ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پہنچ کر معیشت کو سہارا دیتی ہے۔

لیکن ان دانشوروں کی باتوں کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ ان کا درد ہوتا تواپنا پیساغریبوں پر لگاتے، ان کو فکر غریبوں کی بچیوں کی ہوتی تو ان کے بنگلوں پر کبھی کمسن غریب لڑکیاں ملازم نہ ہوتیں اوراگر ان کو فکر واقعی جانوروں کی ہوتی تو ان کے گھر آئے ایک مہمان کے لیے بکرے ذبح نہ ہوتے۔ ان کو چھوڑیے ان کا درد دین اسلام ہے اور جب تک یہ دین ہے یا یہ دانشور ہیں ان کے درد کا درمان ممکن نہیں ہے۔ اللہ کے حکم کے آگے ان کی دانشوری کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور ویسے بھی قربانی فرض ہے اور فرض کی ادائیگی کسی اور طریق سے ممکن نہیں ہے۔

اوپر بیان کی گئی دو احادیث محض احادیث ہی نہیں بلکہ ان میں مسلمانوں کے لیے ایک لائحہ عمل بھی مرتب کیا گیا ہے۔ پہلی حدیث بتا رہی ہے کہ کئی مسلمان اتنے غریب تھے کہ ان کے گھر میں لوہے کی انگوٹھی تک دستیاب نہ تھی بلکہ پہننے کے لیے بھی فقط ایک چادر ان کو میسر تھی جبکہ دوسری حدیث بتا رہی ہے کہ اس غربت کے عالم میں بھی نہ تو نبی کریم ﷺ اور نہ ہی کسی دوسرے صحابی نے قربانی کے عمل کو فراموش کیا۔

حقیقت تو یہی ہے کہ قربانی فرض ہونے کے بعد جتنے سال بھی نبی کریم ﷺ اس دنیا میں تشریف رہے، ایک سال بھی ایسا بھی نہیں گزرا کہ آپ ﷺ نے قربانی نہ کی ہو۔ مدینے میں غربت تھی، صحابہ کرام اپنا سب مکہ مکرمہ میں چھوڑ کر خالی ہاتھ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تھے۔ کئی ایک کے پاس اپنا مکان تک نہ تھا، کئی لوگ بیروزگار تھے، اصحاب صفہ کا حال سب کے سامنے ہے، خود نبی کریم ﷺ کے گھر کئی کئی دن فاقہ چلتا تھا، لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ اس سال قربانی نہ کرو، بلکہ یہ سارے جانور بیچ کر فلاں فلاں مہاجرین کے گھر بنا دو، فلاں غریب کی شادی کرا دو، فلاں بیوہ کی مدد کر دو، اصحاب صفہ کے غریبوں کی مدد کر دو، رفاہ عامہ کا یہ کام کر دو، یہ سارے کام بھی ہوتے رہے لیکن ان کے لیے الگ سے ذرائع پیدا کیے گئے نہ کہ ان کاموں کے لیے کسی ایک سال بھی کسی ایک آدمی کی بھی قربانی منسوخ کی گئی۔ کتنی خوش نصیب ہے وہ امت جن کی خاطر ان کا نبی قربانی کرتا ہو اور کتنے بدنصیب ہیں اسی امت کے وہ دانشور جو اتنے کریم نبی کی سنت اور ایک فرض عمل کو لایعنی بحثوں میں الجھا کر اسے شجر ممنوعہ بنانے کی لاحاصل کوشش کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments