قمر رئیس : اٹھ گیا ناوک فگن۔ ۔ ۔



(پروفیسر قمر رئیس ہندوستانی اردو تنقید میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ اسی صف میں شامل ہیں جس صف میں نارنگ، شمس الرحمن فاروقی جیسے اہم نقاد ہیں۔)

اور مولانا رومی کو اقرار کرنا پڑا۔
مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد

تم کبھی بھی مولانا روم نہیں بنتے اگر شمس تبریز کی غلامی میں نہیں آتے۔ یہ ان کی نگاہ تجلی کمال تھا کہ مجھے اس مقام تک پہنچا دیا۔

نوجوانی کی عمر، جب ایک دریا، طوفان خیز میرے قابو میں نہیں تھا اور میں آسمان کی نیلگوں سرحدوں سے بھی آگے پرواز کر رہا تھا، اور یہ بے قابو دریا کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ مگر ایک شخصیت تھی، جو حضرت موسیٰ کی طرح مجھ سے مخاطب تھی کہ طور کیونکر جلا اور موسیٰ تم غش کیسے کھا گئے؟ تم میں تاب و طاقت ہی کب تھی جو تم خدا کے جلوے کے آگے ایک سکند بھی ٹھہر جاتے۔ اپنے دل سے فتویٰ پوچھ کہ پرندے کو پرواز کیسے نصیب ہوئی اور دلوں میں قید نور کے جلوہ سے پہلا مکالمہ کس نے کیا؟

اہ۔ ۔ ۔ سب کچھ یاد ہے۔ وہی نوجوانی کے قدم۔ خبر ملی، عظیم آباد کی وادیوں میں سلطان کی آمد آمد ہے۔ سلطان، مجھے اس سلطان سے محبت تھی۔ اس چہرے سے محبت تھی۔ سلطان کی ان بان اور شان سے محبت تھی۔ میں عظیم آباد کی گلیوں میں گھوما اور وہاں پہنچ گیا جہاں اسٹیج کے سامنے پہلی صف میں، کنارے ایک بادشاہ بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر غضب کی چمک تھی۔ اور وہ کروڑوں میں شناخت کیا جا سکتا تھا۔ اور سلطان سے ملنے سے قبل کا معجزہ بھی سن لیجیے۔

اہ۔ معجزہ۔ یہ معجزہ ہی تو تھا، ورنہ مہادیوا روڈ آرہ کی بوسیدہ کوٹھی کے نوجوان مجاور سے واقف ہی کون تھا؟ ایک خط آیا تھا۔ وہ بھی دلی سے۔ سات صفحات پر مشتمل خط۔ خورشید طلب اس زمانے میں ارا میں تھے اور میرے گہرے دوست ہوا کرتے تھے۔ ہم دونوں چائے کے ہوٹل میں بیٹھے۔ خورشید نے خط پڑھنا شروع کیا۔ مسکراتے ہوئے بولا، مبارک ہو۔ خورشید طلب کا سفر بھی اسی مرکز سے شروع ہوا اور اس نے عصری شاعری پر اپنے ہونے کی مہر ثبت کی۔

نوخیز عمر کے کانپتے قدموں نے سلطان کو تلاش کیا۔ ان کے برابر والی جگہ خالی تھی۔ وہ بھی مجھے پہلی بار دیکھ رہے تھے۔ کیا باتیں ہوئیں، یاد نہیں۔ مگر ایک خوشگوار منظر ابھی بھی میری یادوں میں بسا ہوا ہے۔ قلندر بادشاہ کے ہاتھوں میں ایک فائل تھی۔ اسٹیج سے کسی کے بولنے کی آواز آ رہی تھی۔ سلطان نے قلم نکالا اور اسکیچ بنانا شروع کیا۔ اڑی ترچھی لکیروں میں ایک چہرہ سامنے تھا۔ وہ مصور تھے یا نہیں، میں ان سے ان کی زندگی میں کبھی پوچھ نہیں سکا۔ سیکڑوں ملاقاتیں۔ ظرف کو انسانی شکل میں پہلی بار دیکھا۔ قمر رئیس کی شکل میں۔ اس کا تذکرہ بھی آگے اے گا۔ دلی آنے کے بعد سی 3 وویک ویہار کا پتہ میں نہیں بھول سکا۔

یہ پتہ آج بھی یاد ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کا پہلا تعارف قمر رئیس کے ذریعہ ہوا۔ اس زمانہ میں وہ بشیر احمد کے رسالہ چنگاری سے وابستہ رہے۔ پھر عصری آگہی سہ ماہی کے ذریعہ نئی نسل کا تعاقب کرنے لگے۔ ہم گھنٹوں ادب پر باتیں کرتے تھے۔ میں نے ان پر آدھے گھنٹے کی فلم بھی بنائی تھی۔ تین دن کی شوٹنگ میں کتنے ہی راز سے پردے اٹھے۔ مجھے یاد سب ہے ذرا ذرا۔ اس بات کو بھی مدت ہو گئی۔ اس وقت خورشید اکرم، میرے دوست تاج انکلیو میں ہی رہتے تھے۔

میں شوٹنگ کے لئے کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ جب دلی واپس آیا تو معلوم ہوا کہ کسی ادبی پروگرام میں شمس الرحمن فاروقی نے قمر رئیس اور ترقی پسندوں کے خلاف جی بھر کر زہر اگلا۔ قمر رئیس وہیں تھے مگر خاموش رہے۔ یہ واقعہ میں نے سنا تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ دو یا تین صفحے کا خط قمر رئیس کو لکھا۔ خورشید کو سنایا۔ خورشید نے کہا، مت بھیجنا۔ ناراض ہو جائیں گے۔ میں نے خط کافی غصہ میں لکھا تھا۔ اس کے ٹھیک ایک مہینہ بعد کا ذکر ہے۔

اس زمانہ میں ٹیلیفون نہیں تھا۔ میں پسینہ میں بھیگا ہوا گھر آیا تو دیکھا، تبسم قمر رئیس صاحب سے گفتگو کر رہی ہیں۔ قمر صاحب پہلی دفعہ میرے کرائے کے مکان پر آے تھے۔ عصری آگہی کی طرف سے کرشن چندر ایوارڈ شروع کیا گیا تھا اور قمر صاحب نے پہلا ایوارڈ مجھے دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں حیران تھا۔ پشیمان تھا۔ میں ظرف کو انسانی صورت میں دیکھ رہا تھا۔ ایسی ایک دو نہیں ہزاروں مثالیں ہیں کہ ادب کے میدان میں وہ خاموشی سے اپنا کام کر دیا کرتے تھے۔ ایسے بھی لوگ ہیں، جنہوں نے ان سے فائدہ اٹھایا، ترقی کے زینے چڑھے اور احسان فراموشی کی بھدی مثال بن گئے۔ وہ نظمیں لکھتے تھے اور شاندار نظمیں لکھتے تھے۔ خاص کر سوویت روس کے تعلق سے جو ان کی نظمیں ہیں، وہ لاجواب ہیں۔ انہوں نے اپنی ذات کو بھی نظموں کے حوالہ کیا تھا اور یہاں بھی شان برستی تھی۔

مولانا رومی نے کہا، سمندروں کو مچھلی کی کیا ضرورت ہے؟ روح کو یہ راز بتانے کی کیا اجازت ہے؟ شمس مٹی کی خوشبو کو بدلنے پر قادر ہے۔ مچھلی کا سمندر میں بدل جانا بھی نایاب ہے۔ قمر رئیس دلی اردو اکادمی کے سیکریٹری تھے۔ ایوارڈ کا اعلان ہوا تو تخلیقی نثر کے ایوارڈ میں میرا نام شامل تھا۔ میں ایک سیمینار میں ان سے ملا۔ اس وقت بھی کوئی ایسی بات ہوئی تھی کہ میرے مراسم اچھے نہیں تھے۔ لنچ آور میں قمر رئیس کے ساتھ نگار عظیم اور کچھ دوسرے لوگ بھی تھے۔

شاید نگار عظیم کو یہ واقعہ یاد ہو۔ میں نے پوچھا، قمر صاحب، یہ اعزاز تو مجھے دس برس قبل مل چکا ہے۔ نگار مسکرا رہی تھی۔ قمر صاحب بھی مسکرائے۔ آپ اچھا کام کر رہے ہیں۔ ظرف انسانی صورت میں موجود تھا۔ وقت کے ساتھ یہ صفت کھو گئی۔ قمر رئیس جذباتی بھی تھے۔ اور اسی لئے دلی اکادمی کے اسٹیج سے تقریر کے دوران گرے تو پھر اٹھ نہیں سکے۔ منافقوں کی دنیا کو الوداع کہتے ہوئے وہ بہت دور نکل گئے۔

علامہ اقبال جیسے عظیم شاعر کی جانب سے داغ کی وفات پر کہا گیا۔
ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون؟
اٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پر تیر کون؟

ناوک فگن اٹھ گیا۔ دل کی بستیوں میں شور پیدا ہوا۔ اس دن آسمان کا رنگ زرد تھا۔ مصور عشق کو نیند آ گئی تھی۔ قمر رئیس، اس نام کے پیچھے بھی عشق کی دیوانگی تھی۔ میں اب بھی اس چہرے کا تعاقب کر رہا ہوں جہاں عشق، انسانیت اور اردو سے محبت زندہ تھی۔ محبوب چلا گیا اور ایک دنیا کو اداس کر گیا۔

قمر رئیس 1932 میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی سال تھا جب اردو کی تاریخ میں انگارے کا عروج ہوا۔ انگارے کی آمد نے اردو افسانے کے باب میں اس حد تک اضافہ کیا کہ نیا افسانہ تبدیلی کے دروازے پر دستک دینے لگا۔ دس افسانوں پر مشتمل انگارے نے ادب میں طوفان برپا کر دیا۔ قمر رئیس تحریک سے وابستہ ہوئے تو آخری سانس تک کے لئے اپنی زندگی ترقی پسند تحریک کے نام کردی۔ ان کی نظموں میں ایک خاص طرح کی کشش ہوا کرتی تھی۔

میں اکثر بہہ جاتا تھا
ایسا ہی اک سانحہ اب تک یاد ہے مجھ کو
تیرے تٹ کے پودوں کی شاخوں میں الجھی
میں اک گوری سی عورت کی
ننگی لاش سے ٹکرایا تھا
خوف سے کتنا گھبرا یا تھا
اس عورت نے، جس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں
مجھ کو کتنا دہلا یا تھا
کئی دنوں تک
مجھ پر ، انجانی دہشت کا سایہ تھا
..
صدائے نغمۂ گل ہے، بصد انداز آنے دو
فضائے خیمۂ جاں میں، چمن کا راز آنے دو
بہ طائر اونگھتے رہتے ہیں، بیٹھے سبز گنبد پر
اگر چگ لیں کہیں سے، ہمت پر واز، آنے دو

قمر رئیس کی پیدائش جولائی 1932 ء میں شاہجہان پور میں ہوئی۔ پروفیسر قمر رئیس تاشقند میں پانچ سال تک انڈین کلچرل سینٹر کے ڈائرکٹر رہے۔ وہ اردو کے پہلے پروفیسر تھے جنہیں یو جی سی نے نیشنل لیکچرار کے اعزاز سے نوازا تھا۔ دو درجن سے زائد کتابوں کے مالک اور ترقی پسند ادیبوں میں نمایاں مقام رکھتے تھے

قمر رئیس میں ہزاروں خوبیاں تھیں۔ وہ اس دور میں پیدا ہوئے جب سجاد ظہیر انگارے کے صرف تین برس بعد ترقی پسند تحریک کی ڈول اٹھائے ہندوستان آ گئے اور ہندوستان میں ان کا جم کر استقبال کیا گیا اور ترقی پسند تحریک کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ کم عمری سے ہی قمر رئیس اس تحریک میں شامل ہو گئے اور آخری سانس تک ترقی پسندی کو فروغ دینے کا کارنامہ انجام دیتے رہے۔

قمر رئیس کو سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، آل احمد سرور، احتشام حسین، جیسے دانشوروں کی سرپرستی ملی تو ان کا کام آسان ہوتا گیا۔ ان کی سرگرمیوں نے ایک دنیا کو متاثر کیا۔ وہ ان لوگوں میں تھے جو اپنے بعد کی نسل کی ذہنی تربیت کیا کرتے ہیں۔ 1959 میں قمر رئیس نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پریم چند کے تنقیدی مطالعہ پر ان کے کام کو آج بھی پریم چند کے باب میں ایک گرانقدر سرمایہ تصور کیا جاتا ہے۔ 18 سال تک انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سیکریٹری رہے۔

تنقیدی نثر کو قابل مطالعہ بنانے میں ان کی دلچسپی تھی۔ ایک دنیا ان کے افکار و نظریات کی قائل تھی۔ پریم چند کے تنقیدی مطالعہ کا پیش لفظ رشید احمد صدیقی نے لکھا۔ یہ قمر رئیس کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں پریم چند سے ملاقات کا موقع ملا۔ پریم چند سے ملاقات نے ان کے ذہن پر انمٹ نقش چھوڑا۔ پہلی ملاقات میں ایک عام سا، کسان لگنے والا شخص سامنے تھا۔ جو کہیں سے بھی اردو اور ہندی کا ادیب نہیں لگ رہا تھا۔ اس زمانے میں پریم چند کی شہرت آسمان پر تھی۔

یہ شہرت آئندہ زمانوں میں بھی کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ اس لئے پریم چند پر لکھا تو ایسا لکھا کہ اردو کے تنقیدی دبستانوں میں ان کے نام کی گونج افق تک روشن ہو گئی۔ آج جب پریم چند کا ذکر آتا ہے تو ایک اہم حوالہ سب سے پہلے قمر رئیس کی کتاب کا آتا ہے۔ یہ کم لوگ واقف ہیں کہ یہ ہنر انہوں نے پریم چند سے سیکھا تھا۔ سادہ لوح پریم چند نے خود کو گاؤں کا گھوڑا کہتے ہوئے قمر رئیس کے ذہن پر اصل ہندوستان کے تصور کو واضح کر دیا تھا۔

پریم چند کے حوالہ سے ایک بڑے ادیب کی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ان سے ملنے اور بات چیت کرنے کا فخر مجھے حاصل ہے۔ علی گڑھ کالج نان کو آپریشن کی زد میں آ چکا تھا۔ طالب علم تتر بتر ہوچکے تھے۔ پریم چند معلوم نہیں کس کام سے ان ہی دنوں علی گڑھ آئے ہوئے تھے اور بنگالی کوٹھی میں مقیم تھے۔ یا شاید کسی سے ملنے آئے تھے۔ پہلے پہل وہیں ملاقات ہوئی۔ ۔ بات کرنے میں بے تکلف اور شگفتہ تھے۔ کئی اور اصحاب موجود تھے۔ پریم چند سب سے ہنس بول رہے تھے۔ میں نے کہا ’منشی جی آپ گاؤں کے نہیں معلوم ہوتے۔ بڑے زوروں سے ہنسے۔ پریم چند ذرا بھی خوش ہوتے تو بے ساختہ قہقہہ لگاتے۔ بولے‘ گاؤں کا گھوڑا۔ ’

قمر رئیس زندگی بھر پریم چند کی سادگی سے متاثر رہے اور یہ سادگی ان کے وجود میں بھی شامل تھی۔

میں نور کی اس کرن کا حصہ ہوں، جو قمر رئیس میرے قلب میں منتقل کر گئے ہیں۔ وہ منظر کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ عظیم آباد کا سیمینار اور ایک عالمی شہرت یافتہ ادیب سفید کاغذ پر لکیریں کھینچ رہا ہے۔ یہ قمر رئیس کے عروج کا زمانہ تھا۔ اور میرے نزدیک ان کی حیثیت اس وقت کسی سلطان سے کم نہیں تھی۔ جب جب کتاب دل کی تفسیریں لکھی جائیں گی، ناوک فگن کے تذکرے بھی عام ہوں گے۔ میں نے بڑے بڑے ادیب تو بہت دیکھے مگر قمر رئیس ایک بھی نہیں دیکھا۔ ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments