ٹھہرو صاحب! اس کار خیر پر تم بھی آمین کہتے جانا



”جناب یہ ملک پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا تو اس میں اسلامی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کوئی غلط بات تو نہیں“ ۔ گستاخ کی سزا موت ہے وہ مسلمان نہیں جو گستاخی پر چپ رہے ”۔

” اگر عدالت گستاخ کو سزا نہیں دیتی تو ہم پر فرض ہے اسلام کی حفاظت کرنا“ ۔

اس طرح کے بے ربط جملے آپ کو روز چوک، چوراہوں دفاتر اور دکانوں پر ان لوگوں سے سننے کو ملیں گے جو اسلام کی بنیادی باتوں سے لا علم اور ان کے روز مرہ کے معاملات آپ کو اسلام کے بالکل متصادم نظر آئیں گے، ان لوگوں کے موبائل پر آپ کو اکثر رنگ ٹون کوئی نعت یا قرآنی آیات سننے کو ملے گی، لیکن اگر آپ ان کے قریبی لوگوں سے ان کا ذکر کریں گے تو وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اشارہ کریں گے کہ کس شیطان کا ذکر چھیڑ دیا۔

لیکن یہاں دو باتیں قابل ذکر ہیں، پہلی یہ کہ ان نام نہاد اسلام لیواؤں اور محافظوں کی ریاست کے خلاف غیر اسلامی و غیر قانونی سرگرمیوں پر دین کے نام پر چندہ کھانے والا ملاؤں کا گروہ اس غلط کام پر ہمیشہ چپ سادھے نظر آئے گا۔ دوسری وجہ یہ کہ پاکستانی علماء کا گروہ ہمیشہ نماز روزہ پر تو زور دیتا نظر آئے گا اور عید پر اک راستہ سے عید گاہ آنا اور واپسی راستہ بدل کے جانا، قرآن کو سمجھنے کی بجائے صرف ثواب کے لئے پڑھنے کی فضیلت، کھجور و کدو کی فضیلت، اور کیلا کو قبلہ رخ رکھ کر کھانے کی فضیلت تو بہت سننے کو ملے گی لیکن کبھی کسی علامہ و مولانا یا مشائخ نے سگنل توڑنے کو گناہ نہیں کہا جو کہ گناہ ہے، کبھی ریاست کے قوانین کو توڑنا اللہ و رسول ﷺ کے تعلیمات کے خلاف اور گناہ نہیں کہا جو کہ گناہ ہے، کیونکہ دین اسلام نے اطاعت و فرمانبرداری کے تین اصول دیے جن میں تیسرا ریاست کے قوانین کی پاسداری ہے، اگر کوئی ریاست کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اتنا ہی گناہگار ہے جتنا اللہ و رسول کی نافرمانی کرنے والا۔

پاکستان میں اسی روش نے جہاں اسلام کے امیج کو عالمی سطح پر خراب کیا وہیں پاکستان میں بھی امن و امان اور سکیورٹی کو داؤ پہ لگایا۔ ہر فرقہ جہاں پہلے ہی دوسرے کو کافر سمجھتا ہے وہیں حکومت کے تحفظ دین اسلام کے بل نے جلتی پہ تیل کا کام کرنے کی کوشش کی۔ حضور والا عاجزانہ گزارش ہے کہ جب اللہ اپنی مقدس کتاب میں یہ فرماتا کہ ”اگر تیرا رب چاہتا تو پوری کائنات کو ایک ہی امت بنا دیتا سب کو ایک ہی مذہب کا پیروکار بنا دیتا، لیکن اس نے تمہیں آزاد چھوڑ دیا تا کہ تم لوگوں کو آزمائے کون اچھے اعمال کرتا ہے۔

کبھی آپ نے غور کیا سب دینی مدارس میں احادیث کی وہی صحاح ستہ کتب پڑھائی جاتی ہیں ایک ہی قرآن ہے جو سب پڑھتے ہیں، پھر یہ اک ہی قسم کی کتب پڑھنے کے باوجود اہلحدیث مدرسے میں پڑھنے والا طالب علم اہلحدیث ہی کیوں بنتا ہے حنفی مدرسے میں پڑھنے والا حنفی، بریلوی مدرسے میں پڑھنے والا بریلوی اور شیعہ مدرسے میں پڑھنے والا شیعہ ہی کیوں ہوتا ہے جبکہ کتب سب کے سب ایک ہی پڑھ رہے ہوتے ہیں، مدارس کے ان چھ سالوں میں ان طالب علموں کی ایسی برین واشنگ ہو جاتی ہے وہ اپنے فرقے کے مطلب کی احادیث لیتا اور لگ جاتا ہے اس فرقہ کے دفاع میں دوسرے فرقوں پر کفر کے فتوے لگانا اور اسی طرح یہ ایک پورا سرکل صدیوں سے چلتا آ رہا ہے۔

اس موقع پہ آقا دو جہاں ﷺ کی وہ حدیث یاد آ گئی آپ نے فرمایا ہر نو مولود بچہ فطرت سلیم پہ پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اس کو یہودی، عیسائی یا مسلمان بناتے ہیں۔ جب اس ذات خداوندی نے ہر فرد ہر گروہ کو آزاد اور اظہار رائے کا حق دیا ہے تو پھر ریاست کسی کے دینی معاملات میں کیسے کوئی بل پیش کر کے سب کو اسے ماننے پر مجبور کر سکتی ہے اور کیسے کسی ایک فریق کے حق میں اور دوسروں کے خلاف ہو سکتی ہے۔

جہاں پہلے ہی لوگ اسلام کے نام پہ ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہوں، ہر فرقہ دوسرے پر کفر کے فتوے صادر کر رہا ہو، یہاں تک ہر فرد دوسرے کی اظہار رائے پر اقدام قتل پر اتر آئے وہاں آپ اس طرح کے بل اسمبلی میں لا کر ان لوگوں کو اس ملک میں امن و امان کو ختم کرنے کا اک موقع اور فراہم کر رہے ہیں اور جناب عالی یہ گھٹن، فرقہ واریت اور ظلم و جبر کا عفریت جو آپ پال رہے ہیں یہ آپ کی نسلوں کو کھا جائے گا۔ اسلام تو امن کا دین تھا لیکن ہم مسلمانوں نے اس کو امن والا رہنے نہیں دیا۔

اکثر مسلمان ممالک میں جو امن و امان کی خراب صورتحال نظر آ رہی ہے اس کے پیچھے یہی فرقہ واریت، تنگ نظری اور کفر و شرک والی سوچ کارفرما ہے جسے پاکستان میں مزید ہوا دی جا رہی ہے۔ ان ممالک میں اکثر حکمران برسر اقتدار رہنے کے لیے اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں۔ ترک صدر طیب اردگان جب پاور میں تھے اور عوام میں مقبول تھے تب انہوں نے میوزیم آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل نہیں کیا بلکہ یہ بولا کہ پہلے ساتھ والی مسجد کو تو بھر لو، لیکن جیسے جیسے وقت گزرنے کے ساتھ ترک صدر کی مقبولیت عوام میں کم ہو کر بالکل کھو گئی اور عوام طیب اردگان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو اس نے مذہب کا استعمال کیا اور ترک مسلمانوں کے جذبات کا استعمال کرتے ہوئے میوزیم آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کر دیا تا کہ مذہبی گروہ کا تعاون حاصل ہو سکے۔

پاکستان کے ماضی میں جھانکیں تو جیسے ڈکٹیٹروں نے اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اس ملک کو تباہ کیا وہیں موجودہ حکومت نے جب ہر طرف ناکامیاں سمیٹی تو ان پر پردہ ڈالنے کے لیے بار بار مذہب کا نام استعمال کیا کہیں ریاست مدینہ کی شکل میں اور کبھی تحفظ دین اسلام کے نام پر بل پیش کر کے۔ یورپ و امریکہ کی ترقی و امن و امان کی آپ مثالیں دیتے ہیں شاید وہاں کے لوگوں میں ابھی اپنے مذہب کی حفاظت کی سوچ پیدا نہیں ہوئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ممالک ان باتوں سے صدیوں پہلے گزر چکے ہیں اور اپنے اس ماضی کو تاریک رات سے تعبیر کرتے ہیں۔

جب اسلام کے امن و امان والے پہلو سے ناواقف لوگ اسلام کی حفاظت کی باتیں کریں گے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والے اور اسلام کی تعلیمات کے بر عکس لوگوں کو اسلام کے نام پر قتل کرنے والے مجرموں کو ہیرو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کریں گے اور جب ملک میں حکومت کے خوشامدی صحافی وزیراعظم کی خوشامد میں ترکھان کے بیٹے کی مثالیں دیں گے تو آپ کو اس ملک میں ایسی ہی قتل و غارت نظر آئے گی جو پشاور میں مشال خان قتل کیس، چنیوٹ میں تبلیغی جماعت کے بزرگ توہین کے نام پر قتل، یونیورسٹی کے پروفیسر کا توہین کے نام پر قتل اور حالیہ پشاور سیشن کورٹ والا واقعہ۔

جناب عالی جس مولوی نے غازی علم دین کو رسالت مآب ﷺ کی گستاخی میں کتاب لکھنے والے ہندو مصنف کے خلاف بھڑکایا اور اس ہندو کا قتل کروا دیا اس مولوی کو آج کوئی نہیں جانتا، لیکن مولانا ثناء اللہ امرتسری جنہوں نے کوئی غیر اسلامی اور غیر قانونی قدم اٹھانے کی بجائے اس ہندو کی کتاب کا علمی جواب دیا مقدس رسول نامی کتاب لکھ کر ان کو آج اسلام کا ہر طالب علم جانتا ہے اور ان کی یہ کتاب آج تک مدارس میں پڑھائی جاتی ہے، اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کا نام حلقہ علماء میں تکریم سے لیا جاتا ہے۔

تو عرض یہ ہے حضور والا آج ہمارے اندر مولانا ثناء اللہ امرتسری کیوں پیدا نہیں ہوتے، غیر اسلامی اور غیر قانونی اقدام اٹھانے والے مولوی کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ رسالت مآب ﷺ کے پاس ایک صحابی تشریف لائے انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ اگر میں گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھ لوں اور عین اس حالت میں دیکھوں کہ وہ ایسے جرم کا ارتکاب کر رہے ہوں جس کی سزا قتل ہے تو میں غیرت میں آ کر جذبہ ایمانی کے تحت اپنی بیوی کو قتل کر دوں گا، قربان جاؤں آقا دو جہاں ﷺ نے فرمایا اگر تم ایسا کرو گے تو اس کے بدلے ہم تمہیں قتل کر دیں گے، کیونکہ کہ اسلام فرد واحد کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ کسی پر جرم ثابت ہونے پر اس پر حد نافذ کرے اور قتل کر دے۔

لیکن یہ غیر اسلامی فعل پاکستان میں اسلام کے نام پر ہوتا ہم نے اپنی نم آنکھوں سے دیکھا اور امید کی کہ یہ دین کے ٹھیکیدار اس سارے واقعات کا نوٹس لیں گے یہ مساجد و منبر میں آوازیں بلند کریں گے، جمعہ کے سارے کے سارے خطبات اس ظلم کے خلاف ہوں گے اور اخبارات و میڈیا پر ان علماء کی شہ سرخیاں لگیں گی اور لوگوں کو بتا دیا جائے گا کہ اسلام ایسے ظلم کی اجازت نہیں دیتا، انسانیت کے اس قتل پر یہ علماء آسمان گرا دیں گے، لوگوں کو بتا دیں گے کہ کتنا بڑا ظلم ہوا اک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، لیکن ہم نے دیکھا کہ اتنے بڑے بڑے سانحات پہ یہ دین کے ٹھیکیدار چپ رہے اور حسب معمول لوگوں کو صرف صدقات کی فضیلت بیان کرتے نظر آئے، اور ظلم و جبر کی ان داستانوں سے صرف نظر کرتے یہی کہتے نظر آئے کہ صاحب آج تحفظ اسلام کے لئے دعا خیر ہے ٹھہرو تم بھی آ مین کہتے جانا، دین کے نام نہاد ٹھیکیداروں کا یہ رویہ دیکھ کر جی تو بہت کڑھا لیکن اس موقع پہ حضرت صمصام بخاری کا یہ قول ہی سنانا بہتر جانا،

”اسلام کوئی مجسمہ نہیں جس کی حفاظت کے لئے لاؤ لشکر کی ضرورت پڑے، آپ اپنے اندر اسلام کو سمو لیجیے آپ بھی محفوظ ہو جائیں گے اور اسلام بھی“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments