بیٹا جب تم بڑے ہو جاؤ گئے تب میں نہیں رہوں گا


جولائی کی ایک تپتی دوپہر کا ایک دن تھا۔ سکول سے آنے کے بعد بابا کے ساتھ چادر میں ایک ساتھ پاؤں پھیلا کر سونے لگا، اس دوران میرے پاؤں بابا کے پاؤں کے ساتھ لگا تو بابا سے میں کہنے لگا۔
بابا! میں بھی بڑا ہو گیا ہو میرے پاؤں آپ کے پاؤں تک پہنچ رہے ہیں۔

مکھیاں مجھے تنگ نہ کریں اور میں آرام سے سو جاؤں اس مقصد کے لئے بابا نے مجھ پر چادر پھیلائی اور پھر گویا ہوئے۔
بیٹا! جب تم بڑے ہو جاؤ گئے تب میں نہیں رہوں گا۔

جب تک بابا زندہ تھے میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی۔ لیکن آج نماز عید کے بعد قبرستان میں جب میں بابا کے قبر کے سرہانے کھڑا ہو گیا تب والد محترم کی برسوں قبل کہی ہوئی بات یاد آ گئی۔ تب میں سوچنے لگا اور قبر میں مدفن بابا سے کہنے لگا۔

بابا! کیا میں بڑا ہو گیا ہو یا آپ نے وقت سے پہلے ہمیں چھوڑ دیا؟

بابا خاموش تھا۔ لیکن میرے آنکھوں کی پردوں پر بابا کے ساتھ گزرا ہوا ہر لمحہ متحرک تصویروں کی طرح چلتا رہا۔ ان کی بے بس اور زندگی کی تمنا خواہش لے ہوئے آنکھیں مجھے قصور وار ٹھہراتے رہیں کہ میں نے زندگی کی کچھ لمحے آسودگی کے اسے نہیں بخشیں۔ میں ملامت کھڑا سوچ رہا تھا کہ بابا نے تمام عمر بے بسی اور غربت میں گزارا لیکن وہ ہمیں پڑھاتے رہے تاکہ ہم دنیا کی سب سے بڑی دولت علم حاصل کریں اور زندگی کو اپنے خواہشات کے مطابق گزار سکیں۔ لیکن خود ہر تکلیف سہ کر اور در در کی ٹھوکریں کھا کر ہمیں پالا پوسا لیکن کبھی اپنے لیے ہم سے کسی خواہش کی تکمیل کا اظہار نہیں کیا۔ ہمیشہ ہمارے مستقبل کے بارے میں فکرمند رہا۔ وہ کینسر جیسے موذی مرض سے لڑ رہا تھا سب کچھ اسے معلوم تھا لیکن کبھی نہیں کہا کہ مجھے کینسر ہے۔ سوچتا تھا خبر پڑنے پر ہم کمزور پڑ جائیں گے اور ہم نادان سمجھ رہے تھے کہ بابا کو اپنے مرض کے بارے میں نہیں معلوم لیکن ہم بھول گئے تھے کہ بابا حکیم بھی ہے لوگ مرض کے علاج کے لئے ان کے پاس آتے تھے۔

میں خاک میں خوابیدہ بابا سے بات کرتا رہا وہ سن کہاں رہا تھا اس نے تو کہا تھا کہ تم جب بڑے ہو جاو گے تو میں نہیں رہوں گا۔ لیکن بابا کو میں کس طرح سمجھاتا کہ اب بھی بابا کی ننھی سی نواسی تمنا دروازے میں بیٹھ کر اس کا انتظار کرتی ہے۔ گلی میں ہر گزرتے سفید ریش بزرگ کو دیکھ کر ابا ابا پکارتی ہیں۔ اور میں شہر کی ہر اس گلی میں ان کی موجودگی محسوس کرتا ہوں جن گلیوں میں ان کی انگلی پکڑ کر ساتھ چلا ہوں۔

بابا سے میں کہتا رہا۔ بابا۔ جب بھی یاد آتے ہوئے تو مسکراتے ہونٹوں پر تیری یادوں کی درد جم جاتی ہیں۔ بہت کمزور پڑ چکا ہوں۔ اب رسماً زندگی گزار رہا ہوں۔ کچھ اچھا نہیں لگتا۔ بہت بڑی ذمہ داری سونپ کر آپ چلے گئے مجھ سے نہیں ہوتا سب کچھ اتنا بھاری بھرکم بوجھ میں کس طرح اٹھا لوں، بابا جانے سے پہلے آپ نے غلط اندازہ لگایا ہے میں اتنا بڑا نہیں ہوا ہوں جتنا آپ نے سوچا تھا۔ آپ تو اس آباد قبرستان میں آ کر آباد ہوئے اور اپنے چھوٹے بھائی اور ماں باپ سے ملے آپ تو خوش ہوں گے۔ لیکن اپنے اور اپنے بھائی کے گھر کو قبرستان بنا کر آپ نے چھوڑ دیا ہے۔

لیکن بابا بھی اس کی تربت پر پڑے جامد پتھر کی طرح جامد تھا۔ ان کی خاموشی میں میں بھی اس کی گزری زندگی کے درد و تکالیف بے پناہ تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنی زندگی میں اپنی درد کو زبان نہیں دی سب کچھ سہتا رہا۔ اور آج بھی میرے لفظوں میں بہتے ہوئے درد کو خاموشی سے سنتا رہا اور آہ تک نہیں کی ان سب کے باوجود دکھ اس بات کا رہا کہ بابا نے عید کی مبارکباد تک نہیں دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments