پروفیسر زکریا ساجد اور کلاس کے آخری پانچ منٹ


کلاس کے لئے جوں ہی گھنٹی بجتی، اور ہونے والی کلاس ان کے لئے مخصوص ہوتی، تو سارے طالب علم صحیح معنوں میں الرٹ ہو جاتے کہ دیکھیں آج کس کی باری ہے! دراصل ان کا مشاہدہ ہی اس قدر گہرا تھا کہ وہ جان لیتے تھے کہ کس طالب علم نے کہاں ڈنڈی ماری ہے۔ کون پڑھائی سے کتنا غافل ہے۔ کون کوری ڈورز میں ہی چکر لگاتا رہتا ہے۔ کون ہوسٹل اور کینٹین کا زیادہ رسیا ہے۔ ان کی یہ ساری مشاہداتی صلاحیت تب کھلتی تھی جب لیکچر مکمل ہونے کے بعد کلاس ختم ہونے میں، چار پانچ منٹ رہ جاتے۔ یہ وہ حوصلہ شکن منٹ ہوتے، جب سب دل سنبھال کے بیٹھتے کہ اب جانے کون سا نصابی یا غیر نصابی موضوع چھڑے، اور ہوتے ہوتے کون اس کی گرفت میں آ جائے۔

یوں ہی ایک دن، آخری پانچ منٹ میں جب یہ اطمینان غالب آ رہا تھا کہ چلو اب تو کلاس ختم ہی سمجھو، اچانک انھوں نے اپنی طائرانہ نگاہ گھمائی۔ ہر کوئی اس ممکنہ انتخاب سے بچنے کا طالب تھا کہ جانے بات، کہاں جاکے ٹھہرے۔ پہلے منتخب سے انھوں نے پوچھا ہاں بھائی تم کیوں صحافت پڑھنے آئے تھے؟ کسی اور شعبے میں کیوں نہیں گئے۔ سادگی کے ساتھ جواب آیا ”سر! مجھے، سب ایڈٹنگ کے علاوہ تو سب آتا ہے“ ۔ ان کے وار سے کون بچے ”صحافت میں سب ایڈیٹنگ کے علاوہ ہے کیا؟“ اور تم ”، اگلا نشانہ“ اسپورٹس کے کوٹے میں صحافت میں داخلہ لے کر آگئے، خدا کا نام لو۔ بس یہی ایک شعبہ اس کام کے لئے رہ گیا تھا ”۔

”اور ہاں تم، واسکو ڈی گاما“ ، یہ طرز تخاطب کسی نئی دریافت کی داد کے لئے نہ تھا بلکہ یہ اشارہ میری اس جینز کی خستہ حالی کی طرف تھا جسے وہ کوری ڈور میں کچھ دیر پہلے بھی نوٹس میں لا کے، سر راہ، کلاس لے چکے تھے۔ سو مجھے خوش فہمی یا غلط فہمی تھی کہ اب یہ جینز والی بات ان کے ذہن سے نکل چکی ہو گی اور کلاس میں سب کے سامنے، سبکی سے بچت ہو گئی، مگر ان کی جھاڑ پونچھ سے بچنا کہاں ممکن۔ ”آ جاؤ، میاں سب کے سامنے،“

یوں اس جینز کی، ان کے حوصلہ افزا کلمات کے ساتھ، سر عام نمائش ہوئی اور ان کی طرف سے مشورہ دیا گیا کہ ”آئندہ یہ نظر نہ آئے، ورنہ تم کلاس میں نظر نہ آؤ۔ جاؤ، اب اسے ٹا کی بنا دو“

ایک اور روز ایک سے جواب طلبی ہوئی کہ ”صحافت میں کیوں آئے“ جواب دہ اپنے جانتے، قائل کرنے کے لئے نہایت اعتماد سے گویا ہوئے ”مجھے لکھنے کا بہت شوق ہے“ پروفیسر زکریا ساجد کہاں متاثر ہونے والے، بولے ”میاں یہ شوقین لوگوں کا شعبہ نہیں، یہاں پروفیشنلز کا کام ہے“

یہ اور اس سے ملتے جلتے واقعات پروفیسر زکریا ساجد صاحب کے حولے سے معمول تھے اور ان سے اس بات کا بہ خوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ طالب علم کو اکسا کر ایک اچھا شاگرد، ، ایک اچھا طالب علم، ایک اچھا پروفیشنل اور ( بالآخر ) ایک اچھا انسان بنانے کی کس قدر تڑپ، عزم اور خوا ہش، اس سارے عمل میں پوشیدہ دکھائی دیتی ہے۔

معمول سے ہٹ کر بھی طالب علموں سے تعلق اور ربط کی گہرائی کا اندازہ تب ہوا جب پروفیسر زکریا ساجد صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ علاج کے لئے ہسپتال منتقل ہوئے۔ ملاقات کی اجازت ملتے ہی، طالب علموں کا تانتا بندھا۔ ہر آنے والے طالب علم سے ان کا پہلا سوال یہی تھا کہ کہیں ملازمت ملی۔ جواب ”نہ“ ہونے کی صورت میں فوراً اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر، اپنے ریمارکس کے ساتھ کسی اخبار کے مالک یا ایڈیٹر یا کسی ایڈورٹائزنگ ایجنسی یا کسی اور ادارے کی طرف رابطے کو کہتے۔

کمال احمد رضوی نے اپنے ایک ٹی وی نٹرویو میں کیا خوب کہا تھا کہ ”زندگی میں صرف تین شخصیات ایسی ہیں جو اپنی تخلیق کو خود سے آگے نکلتا دیکھ کر خوش ہوتی ہیں، باپ، استاد اور لکھاری“ ۔

ہمارا معاشرہ زوال کی جس بلندی پر ہے، اس سے انکار کسی طور ممکن نہیں، ایسا لگتا ہے جیسے یہ شکستہ عمارت، شاید آج بھی اس لئے، خود کو تھامے کھڑی ہے کہ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں، ابھی بھی کئی پروفیسر زکریا ساجد ایک بہتر معاشرے کے لئے، اپنی روایتی تڑپ اور انسان دوستی سے تائب نہیں ہوئے۔

Zakariyya Sajid

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments