ڈی جی خان ۔۔۔ شرطیہ نیا پرنٹ


ابتداء ہی سے واضح کردیں کہ اس مضمون کا عنوان قدرے مبالغہ آمیز ہے اور اس کا کوئی دور پرے کا بھی تعلق ڈیرہ غازی خان سے نہیں۔

ہمارا ارادہ قاری کو قرون اولیٰ اور عصر حاضر کے گھمرول میں ایسا الجھانا ہے کہ ہم اپنی بات بھی کہہ جائیں اور ڈی جی خان کی گرفت میں بھی نہ آئیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ ایک زمانے میں، تمام عہدوں سے زیادہ شہرہ ایک حساس ادارے کے ڈی۔ جی یعنی ڈائریکٹر جنرل کا ہوا کرتا تھا۔ آپ جناب کبھی افغانستان سے کافر سوویت فوجوں کو جذبۂ ایمانی سے سرشار امریکی سی۔ آئی۔ اے کی مدد سے مار بھگاتے، تو کبھی دیوار برلن کی اینٹ نکال کر کسی جھوٹ کے پرنالے میں جڑ دیتے۔

بعضے بعضوں پر تو کتب بھی لکھی بلکہ لکھوائی گئیں۔ ایک کے مصنف تو اسم بامسمیٰ ہیں، یعنی ”خلیفہ“ ۔ عنوان بھی کچھ بھلا سا تھا، شاید گھنا، یا چپ؟ اب ٹھیک سے یاد نہیں، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بعض الفاظ ذہن میں آتے ہی ان کا معروف مرکب اس طرح سے عود کر آتا ہے کہ اور کچھ سوجھتا ہی نہیں، مثلاً ”چپ“ کے فوراً بعد نجانے کیوں ”چھنال“ آن دھمکتا ہے۔

رفتہ رفتہ، اس عہدے کا ذکر کم ہونے لگا یا یوں سمجھئیے کہ خالی از نقصان نہ رہا، ادارے کے کارہائے نمایاں البتہ جاری و ساری ہیں۔ پھر اس کی جگہ ان ہی کے پیٹی بھائی عہدے یعنی ایک اور ڈی۔ جی نے لے لی۔ ان کا چونکہ شعبہ ہی نشرواشاعت بلکہ بعض ناعاقبت اندیشوں کے نزدیک حشر نشر و اشاعت ہے لہٰذا ان کا ڈنکا چہار جانب بجنے لگا۔ کہیں سیلاب آئے یا زلزلہ، یا کوئی کوہ پیما ٹیم کسی برفانی چوٹی پراٹک جائے، یہ فوری ہنگامی پریس کانفرنس کے ذریعہ دنیا کو آگاہ کرتے۔

بسا اوقات تو جوش ٹویٹٹ میں ایسے بگٹٹ ہو جاتے کہ دشمن کو مقام سوزش و سوختگی پر لگانے کا مرہم بھی تجویز کر دیتے۔ دیکھئیے خدائی فوجداروں کا جذبۂ انسانیت، دشمن کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے اور درد دیتے ہی دوا بھی تجویز کر دیتے ہیں۔ یہ اب دشمن کی صوابدید پر ہے کہ وہ ”عطار کے لڑکے سے دوا“ لے یا یونہی سسکتا، بلکتا پھرے۔

ان کے بعد آنے والے ڈی۔ جی کی مصروفیات اور مہارت کا دائرہ اس قدر وسیع ہوا کہ مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد بھی بصد اصرار و منت انہیں کئی اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ اب ضرورت پیش آئی ذرا توجہ بٹانے کی، لہٰذا ایک تازہ ڈی۔ جی ایجاد کیا گیا ہے۔ اس نئی ستم ایجادی کی تفصیلات کے ذکر سے پہلے، آپ کو مضمون کے عنوان میں ”خان“ کی غائیت سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ ایک زمانے میں چنگیز خان اور اس سے بھی بڑھ کر ہلاکو خان کے نام خوف اور دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ چنگیز تو محض منگولوں کا جد امجد ہونے کی وجہ سے مطعون ہوا ورنہ بندے میں کئی اوصاف بھی تھے۔

ہلاکوخان البتہ ہمارے نسیم حجازی زدہ اوسان پر دہشت کی مثال بن کر اس لیے ثبت ہو گیا ہے کہ جب ہمارے بغدادی بھائی کوے کے حلال یا حرام ہونے کی مبینہ بحث میں مصروف تھے، ان موصوف نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اہل بغداد اینٹ کا جواب پتھر سے تو کیا دیتے، استنجا ہی طویل کرتے رہے۔ ویسے تو بربریت میں امیر تیمور بھی کسی سے پیچھے نہ تھے لیکن چونکہ مسلمان تھے اس لیے انہیں دہشت کی نہیں حمیت کی نشانی گردانا جاتا ہے قطع نظر اس امر سے کہ ”کوئی تیمورکی بیٹی“ خنجر نہ اٹھا پائی اور ”قدم مجبور جنبش“ رہنے کے باوصف اسی حمیت کو ان کے گھر سے رخصت ہوتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مسلمانی کے علاوہ تیمور کی جہان دہشت میں کمتر حیثیت کی ایک وجہ ان کے نام میں دبدبے کی کمی بھی ہے۔ مانا کہ ان کے عرف عام، تیمور لنگ میں کچھ ایم۔ کیو۔ ایمانا لٹک ہے لیکن وہ دبدبہ نہیں جو تیمور خان میں ہوتا۔

سو، صاحبو (یہ ایک کثیر الصنفی تخاطب ہے ) اب ہمارے معاشرے کو ضرورت تھی ایک نئے ڈی۔ جی خان کی جس کا نام لے کر بڑوں کو ڈرایا جائے۔ پنجاب اسمبلی نے یہ مسئلہ حل کر دیا اور تحفظ بنیاد اسلام قانون بنا کر ڈی۔ جی۔ پبلک ریلیشنز اور ان کے ادارے کو وہ وہ اختیارات تفویض کئیے کہ اب اس منصب پر فائز ہر شخص کی دہشت رہتی دنیا تک قائم رہے گی اور ناشر مصنفین کو ”ڈی۔ جی۔ خان، ڈی، جی۔ خان“ کہہ کر ڈرایا کریں گے۔

آپ کو ہماری بہکنے کی عادت کا تو معلوم ہی ہے، سخت اچپلاہٹ کا شکار ہیں کہ ”فائز“ کا تذکرہ چل ہی نکلا ہے تو کچھ ذکر ”عیسیٰ“ بھی کرتے چلیں۔ ہمارے ہر مضمون کی اشاعت کے بعد ہمیں کئی محبت نامے موصول ہوتے ہیں جن میں اکثر نشاندہی کی جاتی ہے کہ ہم مبہم ہی نہیں مہمل لکھتے ہیں اور یہ کہ ہمارا حساب وہی ہے کہ ”لکھے موسیٰ تو پڑھے عیسیٰ۔“ ہم ان سب کرم فرماؤں سے بس اتنا کہہ دیتے ہیں کہ جس دن فائزعیسیٰ نے لکھ دیا، اس دن سب کا موسیٰ ”کلٹی۔“

دم کتری (ٹیل پیس)

معیاری اردو لکھنے کی لگن میں ہم ”لیاری اردو“ کا دامن ہر گز نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ یہ غیر معیاری اردو سے بدرجہا بہتر اور با محاورہ ہے۔ ہماری اکثر کوشش ہوتی ہے کہ آپ کو لکھنؤ سے لیاری تک کا سفر ایک ہی مضمون میں کروا دیا جائے۔ جو قاری لیاری کے محاورے سے واقف نہیں، انہیں مطلع کردیں کہ ”کلٹی“ سے مراد پلٹ دینا، الٹا دینا، بے سدھ کر دینا ہے۔ اس تاریخی محاورے سے بس اتنی ہی رعایت لی گئی ہے، جتنی پرعلامہ کے تئیں اللہ تعالیٰ بھی صرف تعجب فرمائیں گے ؛ ”شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں؟“ انگریزی محاورے ”ٹیل پیس“ کا ترجمہ ہم نے دم کترن کے بجائے ”دم کتری“ کیا ہے جو محاورے کی درستی سے زیادہ ہماری خرابی نیت کا غماز ہے۔ وہ قارئین جو دم کتری کے اصل ماخذ و محرک سے ناواقف ہیں، ان سے عرض ہے کہ لاعلمی واقعی نعمت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments