مسئلہ سیاسی اشرافیہ نہیں۔ ۔ ۔


ایک وقت تھا جب کسی عام پاکستانی سے سوال کیا جاتا تھا کہ ان کے نزدیک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو کم وبیش ہر شہری کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ حکمران کرپٹ ہیں اور کرپشن ہی بنیادی مسئلہ ہے اور اگر یہی سوال موجودہ حالات میں جب کسی شہری سے کیا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ حکمران نا اہل ہیں۔ ہر دو صورتوں میں ملبہ ملک کی سیاسی اشرافیہ پر ہی گرتا ہے۔ اور عوام کسی حد تک اپنے موقف میں جائز بھی معلوم ہوتے ہیں کہ عوام کی بہتری کے لیے کام کرنے کے دعوے کرنے والوں کے اپنے دن اور حالات تو بہتر ہوگئے مگر عوام کی حالت بدستور خراب ہے۔ اور یقینی بات ہے کہ حالات کی خرابی کے ذمہ دار مسند نشین ہی ہوتے ہیں۔

وطن عزیز میں حالات کے ٹھیک نا ہونے کی وجوہات جاننے کے لیے تھوڑا سا پیچھے جا کر ایک عمومی جائزہ لینا ہوگا۔ ان تمام اسباب کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان میں خرابی حالات کا ذمہ دار کون ہے۔ آخر کیوں بہترین زرعی زمین، میٹھے پانی کے دریاوں، محنت کش عوام اور معدنی وسائل سے مالا مال یہ ملک ترقی کیوں نہیں کررہا۔ یہاں کی عوام کے حالات آئے روز کیوں خراب ہورہے ہیں۔ کیا اس بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ واقعی میں پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کرپٹ اور نا اہل ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر صالح اور اہل سیاسی قیادت کیسے اور کہاں تلاش کی جائے جو نا صرف عوام کو درپیش مسائل کا ادراک رکھتی ہو بلکہ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ اور ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔

ایک چیز تو ذہن نشین ہونی چاہیے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیام پاکستان کے فوری بعد رحلت سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اگر قائد کو کچھ سال زندگی مزید مل جاتی تو جو حالات اس وقت پاکستان کے ہیں نا ہوتے اور پاکستان ٹھیک سمت میں سفر کر رہا ہوتا۔ مگر ان کی وفات کے بعد ملک ان قوتوں کے ہاتھ آ گیا جو عوام کی طرف سے منتخب کردہ نہیں تھیں۔ 1948 سے 1958 تک کے ابتدائی دس سالوں میں ملک میں رسمی پارلیمانی حکومت غیر پارلیمانی قوتوں کے زیر اثر رہی۔ یہی وہ وقت ہے جس میں ایک بیان ہندوستان کے وزیراعظم سے منسوب ہے کہ میں اتنی جلدی دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان میں وزیراعظم تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ تھی اس وقت پاکستان کے پارلیمانی سیاسی نظام کی حالت زار۔

1958 سے لے کر 1970 کے عام انتخابات تک ملک میں براہ راست فوجی حکومت قائم رہی۔ ان 12 سالوں میں جنرل ایوب خان کا اقتدار سر چڑھ کر بولتا رہا اس کے بعد کچھ مدت یحیحی خان کی حکومت قائم رہی۔ گویا طے ہو گیا کہ ملک بننے کے ابتدائی 23 سالوں میں پاکستان روایتی حریف سے باقاعدہ جنگ بھی لڑ چکا اور ملک کے دو ٹکڑے بھی ہوگئے۔ اس مدت میں صدارتی انتخابات کا ڈھونگ بھی رچایا گیا اور عوامی خواہشات کے برعکس نتائج حاصل کیے گئے۔ بے دست وپا اسمبلیاں بھی بنائیں گئیں، کٹھ پتلی وزرائے اعظم بنائے گئے۔ اس ابتدائی دور کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ حکومتیں بنانے والے ایک متفقہ آئین نا بناسکے اور ہر کسی نے اپنی مرضی کے آئین بناے اور پھر ضرورت پڑنے پر اپنے بنائے گئے آئین کو ہی روند ڈالا۔

1970 میں ملک میں پہلی بار عام انتخابات ایک شخص ایک ووٹ کی بنیاد پر ہوئے۔ عوامی ووٹ کی طاقت سے ایک حکومت منتخب ہوئی اور پہلی بار ملک کو ایک متفقہ آئین ملا۔ گویا 23 سال بعد ایک ایسا دستوری ضابطہ اخلاق مرتب کیا گیا جس میں طے کیا گیا کہ قوم کس طرح سے زندگی گزارے گی۔ وطن عزیز کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ ملک کے فیصلے سیاسی قیادت کے ہاتھوں میں تھے مگر یہ سلسلہ بھی نا چل سکا اور ایک بار پھر ملک میں براہ راست فوجی حکومت آ گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کرائے گئے اورایک فوجی صدر کی زیر سرپرستی مرضی کی سیاسی قیادت کو سامنے لایا گیا۔

1988 سے لے کر 1999 تک کا دور پاکستان کی جمہوری تاریخ کا بدترین دور تصور کیا جاسکتا ہے جس میں کسی جمہوری حکومت کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ ہر بار جمہوریت پر شب خون مارا گیا۔ یہی وہ دور تھا جس میں عوام کو یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستانی کی سیاسی اشرافیہ کرپٹ بھی ہے اور نا اہل بھی۔ لہذا ان سے چھٹکارا حاصل کرکے ایک بار پھر فوجی حکومت قائم ہوئی۔ اس نے انتخابات کرائے اور 2008 تک جہاں ملک کی مقبول سیاسی قیادت کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی تھی وہاں پر منتخب جمہوری حکومتیں ایک فوجی صدر کی زیرسرپرستی کام کرتی رہیں۔

2008 میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین میثاق جمہوریت نے امید کی کرن پیدا کی۔ 2008 سے 2018 تک کی ایک دہائی میں پہلی بار جمہوری حکومتوں نے مدت پوری کی۔ مگر اس دوران بھی طاقتور ہاتھ سرگرم عمل رہے اور منتخب حکومتوں کو دھرنوں کے ذریعے دباؤ میں رکھا گیا۔ ان حکومتوں کا بھرپور میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ اور پھر 2018 کے عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کے موقف کے مطابق ایک سلیکشن ہوئی اور من پسند افراد کو اقتدار سونپ دیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام جہاں سیاسی اشرافیہ کو کرپٹ کہتی تھی اب کرپٹ کے ساتھ ساتھ نا اہل بھی کہنا شروع کر دیا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اس مختصر جائزہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں پر جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ ملک کی سیاسی اشرافیہ کرپٹ اور نا اہل ہے تو پھر حکومتیں کیسے تشکیل پائیں گی اور کون سا مسیحا حکمرانی کے لیے موزوں ہوگا؟ اگر بہت تلاش کے بعد کوئی مسیحا مل بھی گیا تو کیا وہ عوام کے لیے قابل قبول ہوگا۔ کیا عوام کی حالت زار بہتر ہو جائے گی، کیا غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اگر یہ سب نہیں ہوگا تو پھر مسئلہ سیاسی اشرافیہ نہیں مسئلہ کچھ اور ہے اور اس کچھ اور مسئلے پر دستیاب سیاسی قیادت کو مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کھل کر بات کرنی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments