رفال انڈیا کیسے پہنچا، اس کے پس منظر کی کہانی


رفال

رواں سال 29 جولائی کو پانچ رفال جیٹ طیاروں کے فرانس سے انڈیا کے شہر امبالا پہنچنے کی کہانی سے پہلے آئیے اس کے پس پردہ واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

یہ اگست 2000 کی بات ہے۔

انڈیا اور کارگل کی جنگ کو ختم ہوئے ایک سال ہو چکا تھا۔

انڈین فضائیہ (آئی اے ایف) نے وزارت دفاع (ایم او ڈی) کو بتایا کہ اسے 126 میرج 2000 (||) لڑاکا طیاروں کی ضرورت ہے۔

وجہ؟

تاکہ لڑاکا جہازوں کی کمی کو پورا کیا جا سکے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انڈین فضائیہ نے محسوس کیا کہ میراج ایک کامیاب اور کثیر الجہتی لڑاکا طیارہ ہے۔

رفال

تقریباً تین سال بعد جنوری سنہ 2004 میں اس تجویز کو وزارت دفاع نے سردخانے میں ڈال دیا۔

ہم سنہ 2004 کی کہانی پر بعد میں واپس آئیں گے۔

اب 29 جولائی سنہ 2020 کی بات کرتے ہیں۔ 29 جولائی کو فرانس میں بنے 36 رفال جیٹ طیاروں کی خریداری کے معاہدے میں پہلے پانچ جہاز امبالا پہنچے۔

اس دن اپنے بیان میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا: ‘ان طیاروں کی آمد ہماری فوجی تاریخ میں ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے۔ یہ کثیرجہتی طیارہ انڈین فضائیہ کی صلاحیت میں انقلاب لائے گا۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘رفال جیٹ طیارے صرف اس لیے خریدے جا سکے کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے فرانس کے ساتھ دونوں ملکوں کی حکومتوں کے مابین براہ راست معاہدہ کرنے کا صحیح فیصلہ کیا تھا۔ اس سے قبل ان کی خریداری طویل عرصے سے التوا میں تھی۔’

لیکن راج ناتھ سنگھ کے اس بیان میں بہت سے پہلوؤں کے جواب نہیں ملتے ہیں۔

کہ صرف 36 رفال جیٹ طیارے دو دہائی پرانے 136 لڑاکا طیاروں کی ضرورت کو کیسے پورا کرسکتے ہیں؟

حکومت اس خلا کو کب پُر کرپائے گی؟

تعداد اہم ہے

دسمبر 1998 سے دسمبر 2001 ء تک فضائیہ کے ائیر چیف مارشل اے وائی ٹپنیس بتاتے ہیں: ‘ہمیں یہ لگ سکتا ہے کہ دو سکواڈرن بڑی چیز ہیں، لیکن ہماری لمبی سرحدوں کے پیش نظر یہ کوئی بڑی چیز نہیں ہے۔ میرے خیال میں ہمارے پاس رفال کے کم سے کم چار سے پانچ اسکواڈرن ہونے چاہئیں۔’

جنھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ رافال چینیوں کے پاس موجود ہر چیز سے زیادہ بہتر ہے ان کے لیے ٹپنیس نے کہا: ‘چین کے پاس شاید اتنے اچھے طیارے نہ ہوں لیکن ان کے پاس تعداد ہے۔ اور یہ چیز اہمیت رکھتی ہے۔ آخر کار طیارہ صرف ایک پلیٹ فارم ہے جس میں ہتھیار ہوتے ہیں۔’

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر فضائیہ کے ایک اور سابق سربراہ نے کہا: ‘فضائیہ کے لڑاکا جہازوں کی تعداد 40 سکواڈرن سے تیزی سے کم ہو کر 30 ہوگئی ہے۔ ہر سکواڈرن میں 18 لڑاکا طیارے ہوتے ہیں۔ ہم ایسا کیونکر ہونے دے سکتے ہیں جب کہ ہمارا دشمن ملک جارحانہ طور پر اپنی صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے۔ مگ 21 ریٹائر ہوجائیں گے، اس کے بعد مگ 27 ریٹائر ہوجائیں گے۔ پھر جیگوار کا نمبر آجائے گا۔ اس کے مقابلے میں ایئر فورس کے پاس نئے جہاز نہیں آ رہے ہیں۔’

اگرچہ سکواڈرن کی تعداد کم ہو رہی ہے تاہم رفال جیسے طیارے کی آمد کے بعد کیا ہمیں اتنا پریشان ہونا چاہیے؟

ان کا کہنا ہے کہ ‘زیادہ طیارے اور زیادہ طاقتور طیارے ڈیٹرینٹ کی طرح کام کریں گے۔ انڈیا کسی محاذ آرائی سے بچنا چاہتا ہے۔ لیکن اگر ہمارا دفاع یا فوجی طاقت کم ہوتی رہی تو ایک دن ہمارے مخالف محاذ آرائی کے ذریعہ اپنے حق میں کام کریں گے۔ آسان الفاظ میں ہم پر جنگ مسلط کی جاسکتی ہے۔’

رفال

انہوں نے کہا کہ یہ سوچنا کہ صرف لڑاکا جہازوں کی تعداد کم ہو رہی ہے غلط ہوگا۔

انھوں نے ایئر ٹو ایئر ریفیویلرز اور ایئر بورن ارلی وارننگ اینڈ کنٹرول طیاروں کا نام لیا جن کی تعداد بہت کم ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘ہم ان کی خرید کے لیے 10-15 سال سے کوشاں ہیں لیکن ان کی خریداری ابھی کوسوں دور ہے۔’

رفال سے آئی اے ایف کو اسٹریٹجک فائدہ ملتا ہے لیکن یہ کہنا قطعی غلط ہوگا کہ انڈین فضائیہ کی صلاحیت کم ہورہی ہے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ محض پانچ رفال جیٹ طیارے جو ملک تک پہنچے ہیں وہ اسٹریٹجک لحاظ سے بہتر حملہ آور صلاحیت فراہم کراتے ہیں۔

ایئر مارشل ایس بی دیو آئی اے ایف کے ڈپٹی چیف کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ انھوں نے مشرقی اور مغربی دونوں کمانڈ کی قیادت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘یہاں تک کہ یہ پانچ جیٹ طیارے مکمل طور پر اسلحوں سے لیس ہو کر ہمارے پاس آرہے ہیں اور وہ ہماری صلاحیتوں میں بہت حد تک اضافہ کریں گے۔ یہ ہماری حکمت عملی میں بھی اضافہ کریں گے۔’

ان کی تشویش گھریلو محاذ کے متعلق زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ درمیانے زمرے میں جدید لڑاکا طیارہ نہ بنا پانا تشویشناک ہے۔ درمیانے زمرے کا مطلب ہلکے لڑاکا طیارے نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘انڈین ایروناٹکس لمیٹڈ، ایروناٹیکل ڈویلپمنٹ ایجنسی، ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن جیسی گھریلو ایجنسیاں اس معاملے میں کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا رہی ہیں۔ اب تک ہماری اگلی نسل کے خود ساختہ فائٹر کے ڈیزائنوں کو حتمی شکل دی جانی چاہیے تھی اور ان پر کام شروع ہونا چاہیے تھا۔ ہم ان کوششوں میں کہاں کھڑے ہیں؟’

گذشتہ سال اکتوبر میں ایئر فورس کے چیف آر کے ایس بھدوریا نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ لڑاکا طیاروں کی درآمد کے حق میں زیادہ نہیں ہیں۔

کیا انڈیا اگلی نسل کا لڑاکا طیارہ بنا سکتا ہے؟

شاید ہی کوئی اس سوال کا جواب سی ڈی بالاجی سے بہتر طور پر دے سکے۔ بالا جی بحریہ کے کموڈور تھے، بعد میں انھوں نے محکمہ دفاع میں ایروناٹیکل ڈویلپمنٹ ایجنسی (اے ڈی اے) کی سربراہی کی۔

وہ کہتے ہیں: ‘اگر ہم ملکی کوششوں کی بات کریں تو اس کے دو پہلو تحقیق اور پیداوار ہیں۔ پہلے تحقیق کی بات کرتے ہیں۔ انڈیا کی اگلی نسل کا ایڈوانس میڈیم جنگی طیارہ (اے ایم سی اے) ہے۔ اس کا بنیادی ڈیزائن تیار ہے اور گذشتہ پانچ سالوں سے ہم مرکزی حکومت سے مکمل پیمانے پر انجینئرنگ ڈویلپمنٹ (ایف ایس ای ڈی) کے لئے منظوری کے منتظر ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ ایئر فورس اس میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے یا حکومت اس میں آگے نہیں آرہی ہے، لیکن حقائق اپنی کہانی خود بیان کرتے ہیں۔’

جب منظوری حاصل کرنے میں اتنا وقت لگتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟

وہ وضاحت کرتے ہیں: ‘اس سے ہماری کوششوں پر اثر پڑتا ہے۔ ایک ٹیکنالوجی کا خلا پیدا ہوتا ہے اور ہمیں اس خلا کو پر کرنے کے لیے ڈیزائن کو اپ ڈیٹ کرتے رہنا پڑتا ہے۔’

پیداواری پہلو کے بارے میں انھوں نے کہا: ‘ایچ اے ایل کے توسط سے زیادہ تیجس جیٹ طیارے بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن میں یہاں ایک چیز کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ سنہ 2016 میں وزارت دفاع نے انڈیا کے اپنے لڑاکا طیاروں کے حصول کے معاہدے کی منظوری دی تھی۔ اس کے ذریعے 83 ایل سی اے تیجس ایم کے 1 اے (جیٹ کا جدید ترین ورژن) تیار کیا جانا تھا۔ ابھی تک آرڈر مکمل نہیں ہوا ہے۔ دیسی مصنوعات کے لیے بھی اس طرح کی تاخیر ناقابل فہم ہے۔’

انڈین طیارہ مگ

انڈین فائٹر طیارہ مگ

پیسے کی قلت

کوئی بھی ایر فورس جدید ترین ٹیکنالوجی اور مہنگے اثاثوں میں سرمایہ کاری کا مطالبہ کرتی ہے۔

تاہم انڈین فضائیہ اسے حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ وزارت دفاع کے تھنک ٹینک منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز اینڈ انیلیسس کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر لکشمن کمار بہیرا کا کہنا ہے کہ ‘گذشتہ برسوں کے دوران فوج، بحریہ اور فضائیہ کی جدید کاری پر شدید اثر پڑا ہے۔ ایئر فورس میں سب سے زیادہ سرمایہ لگتا ہے، ایسی صورتحال میں اسی کو سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔’

ان کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ عہد کو پورا کرنے والے خرچ اور فوج کو دستیاب فنڈز کے مابین پچھلے کئی سالوں سے فرق بڑھتا جا رہا ہے۔

سنہ 2018-19 میں یہ تقریباً 33 فیصد تھا جبکہ 2019-20 میں یہ 29 فیصد تھا۔

پرانی کہانی

تو اگست 2000 سے جنوری 2004 کے درمیان میراج 2000 کی آئی اے ایف کی تجویز اور وزارت کے اسے مسترد کرنے کی کہانی کیا ہے؟

سرکاری دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ فضائیہ نے نہ صرف ایک یا دو بلکہ تین بار 126 میراج 2000 جیٹ طیارے خریدنے کے لیے وزارت کو راضی کرنے کی کوشش کی۔

اس وقت رفال جیٹ طیاروں کا ذکر کرتے ہوئے انڈین فضائیہ نے دلیل دی تھی کہ میراج 2000 دوم نہ صرف سستے ثابت ہوں گے، بلکہ یہ جدید ترین بھی ہیں۔

اس وقت کی حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔

یہ پرانا واقعہ اب شاید ہی کسی کو یاد ہو لیکن ایسا نہیں ہے کہ آئی اے ایف نے بھی اس بھلا دیا ہے۔

فضائیہ کے ایک سابق سربراہ نے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہا: ‘ہمیں 126 لڑاکا طیارے حاصل کرنے میں 15 سال لگے۔ پھر ایک دن ہمیں بتایا گیا کہ ہمیں صرف 36 جیٹ طیارے ملنے جا رہے ہیں۔ اور اس میں بھی پانچ چھ سال لگیں گے۔ اور آج صرف پانچ طیارے آئے ہیں اور ہم خوشی سے کود رہے ہیں۔ کیوں؟’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32191 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp