چنوا اچیبے: وطن اور جلاوطنی (1)


\"nasir چنوا اچیبے (1930۔ 2013)جدید افریقی ادب کے امام تصور کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے جس جدید افریقی ادب کی بنیاد رکھنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا اور جسے جلد ہی کینن کا درجہ بھی مل گیا، وہ اپنی ہیئت، تیکنیک اور زبان کے لیے مغربی جدیدیت پر ضرورمنحصر ہے، مگر اپنے مندرجات کے سلسلے میں وہ ’اصل‘ افریقا کو دریافت کرنے سے عبارت ہے۔ یہ ایک انوکھی مخلوطیت (Hybridity) ہے جو پیرایہ اظہار کی سطح پر اجنبی، نئے، جدید، غیر ملکی عناصراور مافیہ کی سطح پرمانوس، قدیم اور مقامی عناصر سے عبارت ہے۔ یہ مخلوطیت ہمیں دنیا کے بیش تر نو آدبادیاتی ممالک کے جدید ادب میں دکھائی دیتی ہے۔

 چنوا اچیبے کے نزدیک ’اصل ‘ افریقا کو لکھنے کا مطلب، اس کی روح کو استعماری یورپی بیانیوں سے واگزار کرانا ہے۔ سولھویں صدی سے بیسویں صدی کی چھٹی دہائی تک برطانیہ و فرانس کی نو آبادی اور دنیا میں بد ترین غلامی اور غلاموں کی تجارت کا شکار ہونے والا افریقا، چنوا اچیبے کا موضوع ہے۔ گویا محض افریقا نہیں، استعماری تاریخ کی پیچ در پیچ الجھنوں میں مبتلا، زخم خوردہ افریقا چنوا کا موضوع ہے۔ یورپی نو آبادیات نے افریقا کی سرزمین ہی نہیں ہتھیائی، اس کی ثقافتی روح پر بھی اجارہ حاصل کیا۔ انگریزی مصنفین نے افریقا کو تاریخ و فکشن کا موضوع بنایا؛ ہر جگہ افریقا کا ایک سٹیریو ٹائپ تصور پیش کیا۔ اس تصور کو افریقی سرزمین کے تجربے، اس کی حقیقی تاریخ و ثقافت کے بطن سے اخذ کرنے کے \"571797_556400\"بجائے، افریقا سے ’باہر‘ نو آبادیاتی تخیل میں وضع کیا گیا اور پھر کمال مہارت سے اسے افریقا پر مسلط کیا گیا۔ سفید فاموں نے افریقا کو نیا آئین، تعلیم، انصاف کے ادارے ہی نہیں دیے، انھیں نئی شناخت بھی دی؛ مثلاً نائیجیریا کا نام دیا؛ مختلف قبائل کا مجموعہ کہا اور انھیں ان انسانی اور ثقافتی خصوصیات سے محروم ٹھہرایا جن کا حامل سفید یورپی انسان متصور کیا گیا۔ اچیبے کی نظر میں افریقا کا یورپی سٹیریو ٹائپ اور اساطیری تصورہی اس کی روح پر یورپ کااجارہ ہے۔ افریقی روح پر یورپی اجارے  سے آزادی ہی چنو ااچیبے کی تحریروں کا بنیادی منشا ہے۔ انھوں نے 1958 میں اپنے پہلے ناول Fall Apart Things ( جس کا اردو ترجمہ اکرام اللہ نے بکھرتی دنیا کے نام سے کیا ہے) میں افریقی روح کی واگزاری کے جس سلسلے کا آغاز کیا، وطن اور جلا وطنی (لیکچروں کا مجموعہ)اسی کی ایک کڑی ہے۔ ہم کَہ سکتے ہیں کہ چنوا اچیبے کے لیے لکھنے(خواہ فکشن ہو یا نان فکشن) کا جو بھی مفہوم و منشا ہے، وہ افریقی قبل نو آبادیاتی، نو آبادیاتی اور بعد نو آبادیاتی تاریخ کے تناظر میں ہے۔

چنوا چیبے کی غیر افسانوی تحریروں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھیں سوانحی انداز میں لکھا گیا ہے۔ چنوا اچیبے کو احساس ہوتا ہے کہ علمی مخاطبے کے لیے نجی تفصیلات اور سوانحی اسلوب موزوں نہیں۔ وہ اپنے اس احساس کا تجزیہ نہیں کرتے، مگر بالواسطہ طور پر یہ باور کراتے ہیں کہ اس احساس کے پیدا ہونے کا سبب مغربی علمی ذوق اور معیار ہے جس میں شخص و ذات کی نفی اصول کا درجہ رکھتی ہے۔ چنوا اچیبے نہایت آہستگی مگر قوی انداز میں ان مغربی معیارات سے مبارزت طلب ہوتے ہیں جنھیں یورپ کے ام البلاد میں تشکیل دیا گیا اور جن کا گہرا تصوریاتی تعلق نو آبادیاتی نظام سے ہے۔ چناں چہ انھیں سوانحی اسلوب سے دست کش ہونا نہ صرف غیر مناسب لگتا ہے بلکہ اپنے مؤقف کو واضح کرنے\"9780511554407i\" کے لیے اسے اختیار کیے رکھنا لازم بھی محسوس ہوتا ہے۔ وہ جس ’اصل ‘ کو لکھنا اور باور کرانا چاہتے ہیں، اس کے لیے شخصی اسلوب اور نجی حوالے ہی موزوں ہیں۔ دراصل وہ اس طور افریقا کی حقیقی روایت کی مستند بازیافت کرتے ہیں جسے مسخ کیا گیا، انسانی یادداشت سے حذف کیا گیا یا حاشیے پر دھکیل دیا گیا۔

وہ نسلاً اگبو ہیں۔ ان کے والدین نے ہر چند عیسائیت قبول کر لی تھی اور ان کے والد انگریزی کلیسا کے مبلغ بھی بن گئے تھے، مگر چنوا اچیبے نے اس نئی شناخت کومنفعل انداز میں قبول نہیں کیا اور ایک راسخ العقیدہ عیسائی کے طور پر جینے کا راستہ منتخب نہیں کیا؛ ان کی تحریروں سے کہیں ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ اخذ معانی کے لیے عیسائی روایات سے رجوع کرتے ہوں؛ ان کی تحریروں کی پشت پر جس تصورِ کائنات کی تنویر موجود ہے، وہ اگبو روایات ہیں اور جن کا بڑا حصہ مذہبی و اساطیری ہے۔ اسی طرح انھوں نے جدید انگریزی تعلیم بھی حاصل کی؛ انگریزی ادبیات کا مطالعہ کیا اور انگریزی ہی میں فکشن لکھا؛ یہی نہیں فکشن کی جدید یورپی ہیئت یعنی ناول کو بھی اختیارکیا اور اپنی غیر افسانوی تحریروں کے لیے مضمون کی یورپی صنف اختیار کی، یہاں تک کہ ان کے لیکچر بھی مغربی ہیئت و اسلوب کے حامل ہیں۔ یعنی بہ ظاہر کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ انھوں نے یورپی سامراج کی چیرہ دستیوں کوجھیلا ہوجن کے شکار ان کے ہم وطن رہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی، تعلیمی اور ادبی اعتبار سے \"Chinua’یورپی‘ ہونے کے باوجود انھوں نے اگبو لوگوں کے لیے اس قدر ولولہ خیزی کیوں کر اختیار کی؟یہ سوال اس وقت زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے والد کے ساتھ 1935 میں ، پانچ سال کی عمر میں آبائی قصبے اوگڈی میں لوٹے تو انھیں معلوم ہوا کہ ان کے آبائی گھر میں ان کے چچا نے (جو اپنے اگبو مذہب پر قائم تھے) اکنیاگااوردوسرے گھریلو دیوتاﺅں کا ’غیر عیسائی عبادت خانہ‘ بنا رکھا تھا، جس کے خلاف اچیبے کے والد نے سخت ردّعمل کا اظہار کیا تھا۔ یہ ردّعمل خود اچیبے کے لیے ایک واضح پیغام بھی تھا۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ چنوا اچیبے نے والد و چچا کی کش مکش اور ان کے گھر کی بیٹھک (جسے مقامی زبان میں پیازا کہتے ہیں) میں کفر و راستی کے مباحثو ں ہی میں اپنے لیے ایک راستہ منتخب کیا۔ انھوں نے اپنے والد کی بجائے اپنے چچا کا راستہ چنا؛ اپنے والد کی طرح گرجا میں خدمات انجام دینے اور عیسائیت کی تبلیغ کی بجائے’غیر عیسائی اور کافرانہ اگبو ثقافت‘ کی \"Thisبازیافت کو اپنی باطنی زندگی کا مقصد و منشا بنایا۔ وہ ایک یورپی اور عیسائی کی بجائے اگبو بنے۔ ان کا اگبو ہونا، نسلی مفہوم نہیں رکھتا۔ انھوں نے اپنی اس اگبو شناخت کو اخذ کیا، اس کا احیا کیا، اس تک رسائی کی سعی کی جس پر نئے مذہب اور نئے تصورات کا سایہ مسلط تھا۔ ان خطبات میں چنوا اچیبے نے یہ واضح تو نہیں کیا کہ والد کی بجائے چچا کے راستے پر چلنے کے فیصلے کا محرک کیا تھا، تاہم اس کا جواب انھی خطبات میں بین السطور موجود ہے۔ اگر اچیبے اپنے والد کے ساتھ آبائی گھر واپس نہ آتے اور اگبو لوگوں میں رہنا سہنا شروع نہ کرتے تو شاید وہ اپنے والد ہی کی روش اختیار کرتے، مگر گھر واپسی جلد ہی ایک پانچ سالہ بچے کے لیے استعارہ بن گئی۔ اوگڈی اور اس کی زندہ ثقافت، ننھے چنوا اچیبے کے لیے اپنے نو عیسائی باپ سے کہیں ’بڑی، متنوع، دل فریب ‘ تھی اور اس کے اجتماعی لاشعور کے گہرے پانیوں میں ہلچل پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھی!

\"achebe-in-wheelchair\"اپنی اگبو شناخت کے اوّلین مرحلے میں وہ اگبو لوگوں کو ان تحقیری شناختوں سے آزاد کرانے کی سعی کرتے ہیں جو یورپیوں نے ان پر مسلط کیں۔ ان میں ایک شناخت قبیلہ کی ہے۔ اچیبے کہتے ہیں کہ قبیلہ ایک ہتک آمیز تصور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگبو نہ تو عہد عتیق کے لوگ ہیں نہ ایک بولی بولتے ہیں؛ ان کے پاس ایک اپنی زبان موجود ہے جس کی کئی بولیاں ہیں اور نہ ان کا کوئی ایک سردار ہے۔ عہد عتیق، بولی اور سردار، یہ تین چیزیں ایسی ہیں جو یورپی تعریف کے مطابق کسی گروہ کو ایک قبیلہ ثابت کرتی اور پھر اسے تہذیبی ترقی کے اعتبار سے پس ماندہ ٹھہراتی ہیں۔ اچیبے، واضح کرتے ہیں کہ اگبو لوگوں میں قبیلے کی بجائے قوم کی خصوصیات ہیں۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments