تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں


ایک وسیع لاک ڈاؤن، معاشی بدحالی اور فارغ البالی نے مجھے مجبور کیا کہ ترکی کے تاریخی ڈراموں پر اپنا وقت صرف کیا جائے تا کہ نہ صرف ترکی بلکہ سلطنت عثمانیہ کی تاریخ سے بھی روشناسی ہو۔ آج کل پایہ تخت۔ عبدالحمید دیکھ رہا ہو ں جس میں عثمانیہ سلطنت کے عظیم سلطان عبدالحمید ثانی کو بیک وقت فرانس، روس، جرمنی، برطانیہ اور امریکہ سے اندرونی اور بیرونی محاذ پر لڑتے دکھایا گیا ہے۔ سلطان جہاں اپنی ٹیم کے ہمراہ ان ممالک کی ریشہ دوانیوں سے نبرد آزما ہے، وہاں یہودیوں کی سازشوں کا بھی شکار ہے۔

آزادی اور جمہوریت کے نام پر اس وقت کی ترک نسل کو نہ صرف فیشن، ڈسکو، کیسینواور کلب کا دلدادہ بنایا گیا بلکہ نوجوان ترک قوم کو عیاشی اور ملت فروشی پر مجبور کیا گیا۔ ان تمام سازشوں کا تانا بانا لندن اور پیرس میں بنا جاتا اور پایہ تخت کے میڈیا کے ذریعے نوجوان ترک نسل کے ذہن میں زہر بھر دیا گیا، یاد رہے کہ اس وقت الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ابھی روشناس نہیں ہوا تھا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد مسلمانوں کو نہ صرف بیرونی ممالک اور طاقتوں سے نبرد آزما ہونا پڑا بلکہ اندرونی طور پر بھی ان کو اس حد تک کمزور کیا گیا کہ ہم اپنے نصب العین سے بھٹک کر فیشن اور عیاشی کے دلدادہ ہو کر رہ گئے اور آخر کار زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے گو سایہ خدائے ذوالجلال نے ہمیں آج تک اس دنیا میں استقلال بخشا ہے لیکن ہم نظریاتی طور پر اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ کسی بھی قومی مقصد کے لئے اپنی آواز تک بلند نہیں کر سکتے۔

دنیا میں اس وقت ایٹم بم سے خطرناک ہتھیار الیکٹرانک اور سوشل میڈیا بن چکا ہے کیونکہ ایٹم بم تو انسانوں کو مارتا ہے لیکن سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے غلط استعمال سے جہاں انسانیت کا جنازہ اٹھ گیا ہے وہاں اقوام عالم کا اس طریقے سے خاتمہ کیا جا رہا ہے کہ وہ آسانی سے نظریاتی خود کشی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس وقت دنیا میں کون سا ایسا بالغ اور ذی شعور انسان ہو گا جس نے ڈارک ویب کا نام نہیں سنا اور پورن موویز کے انسانیت سوز اور حیوانیت آمیز مناظر سے واقف نہیں ہے۔

اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان کے درمیان مذہب اور عقل کا ہی فرق ہے کیونکہ میرے خیال میں انسان کا مذہب ہی اس کو اپنی حدود و قیود میں رکھتے ہوئے اس کو انسان بناتا ہے۔ اگر مذہب کے قواعد و قوانین نہ ہوں تو ہر انسان کے اندر چھپا درندہ نما حیوان سامنے آنے میں دیر نہیں لگاتا۔ جس کے بعد نہ ہی اس کو اپنی ماں بہن کی پہچان رہتی ہے اور نہ ہی وہ ننھی معصوم کلیوں اور معصوم بچوں کو چھوڑتا ہے۔

پاکستان میں مارننگ شوز کی ریٹنگ اس وقت سب سے زیادہ ہے، لوگ اس طرح کی چیزوں کو پسند کرتے ہیں، یہ سب شوز رات کو ریکارڈ ہوتے ہیں اور انھیں صبح لائیو دکھا دیا جاتا ہے، ان لائیو شوز سے نہ صرف معصوم اذہان کو ورغلایا جا رہا ہے بلکہ شہوت انگیز اور ہیجان خیز کپڑوں اور لباس نے نوجوان نسل کو گمراہی کے گڑھے میں پھینکنے کے ساتھ ساتھ ان کے شہوت آمیز خیالات کی آبیاری کی جا رہی ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر طرف برہنہ ویڈیو ’نیم عریاں عورتوں کا ناچ اور جسمانی نمائش کے لئے ڈریس شوز‘ انگریزی فلموں کے سیکس کے مناظر یا بوس وکنار ’گانوں کے بے ہودہ بول‘ فلموں کے واہیات ڈائیلاگ اور تقریباً برہنہ عورتوں کی نیم عریاں چھاتیوں ’ننگے پیٹ اور برہنہ ٹانگوں کی نمائش کرتی ہوئی خواتین کا ایک طوفان بلا خیز قوم کی نظریاتی اساس کے بخئیے ادھیڑنے میں مصروف نظر آئے گا۔ لیکن کسی کو بھی اس بات کا ہوش نہیں کہ بچوں کے ذہنوں میں جمع ہوتا ہوا فحاشی کا لاوہ جب پھٹتا ہے تو نہ صرف والدین کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے بلکہ بعض اوقات خود معاشرہ بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ نابالغ بچوں کے ساتھ ریپ کے بڑھتے واقعات اس کی بہترین مثال ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ اوسطااًیک ہزار سے زائد بچے بچیاں اغوا کر لیے جاتے ہیں۔ ریپ اور اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے معصوم لڑکے لڑکیوں کی اوسط تعداد بھی ہزار سے زائد ہوتی ہے۔ جس کا بنیادی سبب نہ صرف نہ صرف انٹرنیٹ پر موجود فحش مواد ہے بلکہ تنگ کپڑے پہنے بازاروں میں گھومتی وہ خواتین بھی ہیں جن کے ذہنوں کو جدید تہذیب نے پراگندا کیا ہوا ہے اس کے علاوہ الیکٹرانک اورسوشل میڈیا بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ لائیو میسنجر کے ذریعے دنیا کی مختلف نیم عریاں لباس میں چیٹ کرتے مادر پدر آزاد بچے اور امیر خاندان کی لڑکیاں اور لڑکے بھی معصوم ذہنوں کو ورغلانے میں بہت بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت لائیو چیٹ کی ہزار ہا اپلیکیشن آپ گوگل سٹور سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں جن میں، Kik، Tumbler، Snapcaht، LivU، Yalla، Likee، TikTok، Streamkar، BigolLive، Meetme، جیسی ہزار ہا موبائل اپلیکیشن اس وقت دستیاب ہیں جو ہماری نہ صرف نوجوان نسل کی بربادی کا سبب بن رہی ہے بلکہ ہمارے خاندانی نظام پر بھی بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے نہ صرف لڑکیوں کے گھر سے بھاگنے کی شرح میں اضافہ ہوا بلکہ گھریلو ناچاقی کے ساتھ ساتھ خواتین میں طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

قرآن مجید کی سورۃ النور آیت 19 میں اللہ تعالی نے تمام اہل اقتدار کو خبر دار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا و آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں“ ۔ مدینہ ریاست کے داعی اور موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے میری دست بستہ التجا ہے کہ خدارا ہماری قوم کے نظریاتی اثاثہ کی حفاظت کرتے ہوئے نہ صرف الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کو لگام ڈالیں بلکہ پاکستان میں فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ کمپنیوں میں ترکی حکومت کی طرز پر اپنے نمائندے تعینات کریں جو ہماری قوم میں پھیلنے والے اس خاموش نظریاتی قاتل کا تدارک کریں۔

پیمرا اور پی ٹی اے جیسے اہم اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ موجودہ دور میں جب دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے ایسے اقدامات کریں کہ وہ تمام فحش مواد رکھنے والی سائٹس ہمارے ملک میں ناقابل رسائی بن جائیں لیکن ابھی تک کسی بھی دور حکومت میں کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے عوام کی رسائی اس مواد تک ممکن نہ ہو سکے ماسوائے اخباری بیانات کے جو صرف دکھاوے کے ہوتے ہیں۔ میری رائے میں مذہب ہی ایک ایسا اہم ہتھیار ہے جس کی حدود و قیود کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نافذ کر کے ہم اس عظیم برائی سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔

ہمارے پالیسی ساز حضرات نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ایک فحش ویڈیو، کہانی یا کارٹون ہماری نوجوان نسل کے لئے ایک زہر قاتل سے کم نہیں جس سے نہ صرف خیالات منتشر رہتے ہیں بلکہ یاد داشت کی کمزوری، چڑ چڑا پن اور نصب العین سے دوری کی وجہ سے ایک نوجوان نہ صرف اپنی منزل سے بھٹک جاتا ہے بلکہ ذہنی معذوری کے سبب قوم پر ایک بوجھ بن جاتا ہے۔ میری ناقص رائے میں ریاست ہی ان تمام جرائم کی ذمہ دار ہے اور روز قیامت ہر حاکم سے احتساب کیا جائے گا لیکن ہم بھول گئے ہیں کہ احتساب کی چکی کے پاٹ کسی کو چھوڑتے بھی نہیں اور پیستے بھی باریک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments