چنوا اچیبے: وطن اور جلاوطنی (2)


\"nasirیورپی استعمار نے ایشیا، افریقا و لاطینی امریکا کو کئی زنجیریں پہنائیں۔ ان میں ایک بڑی زنجیراجتماعی شناخت کا تصور تھا؛ کہیں یہ قبیلہ اور کہیں قوم تھا۔ قبیلہ اس لیے ہتک آمیز تصور تھا کہ اسے قوم کے اس تصور کے مقابلے میں وضع کیا گیا تھا جسے یورپ نے خود اپنے لیے اختیار کیا تھا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہسپانوی، پرتگالی، ڈچ ایک قوم تھے؛ ایک زبان بولتے تھے، ایک خطے میں رہتے تھے، ایک نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ قوم کا تصور جس قدر پرشکوہ تھا اور قبیلے کا تصور اسی قدر اہانت آمیزتھا۔ ارنسٹ ریناںکا 11 مارچ1882 کو سوبورن میں دیا گیا مشہور لیکچر ایک طرح سے قوم کے یورپی تصور کا پروٹو ٹائپ ہے۔ اس میں ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ ”قوم ایک روح اور ایک روحانی اصول ہے فرد کی طرح قوم ماضی کی طویل جدوجہد، ایثار اور اخلاص کا عروج ہے۔ “ماضی کی طویل جدوجہد میں نسل، زبان، عظیم سورماﺅں کی قربانیاں سب شامل ہیں۔ یہ جدو جہد قوم کے تصور کو ایک تقدس اورعظمت دیتی ہے اور افراد کو پھر اس تصور پر قربان ہونے کی الوہی ترغیب دیتی ہے۔ ایشیا و افریقا نو آبادیاتی عہد سے پہلے نسل، زبان، مذہب، جغرافیے کی اساس پر تشکیل پانے والے اس تصور قوم سے نابلد تھے۔ یورپی تصورِ قوم خود ان کے لیے تقدس آمیز وحدت آفریں قوت تھا، مگر نو آبادیایوں میں یہ تصوران کے استعماری تصورات ہی کا ایک حصہ تھا۔ بالعموم اس تصور کے ذریعے اوّلاً نسلی، لسانی، مذہبی و جغرافیائی وحدتیں ابھاری گئیں اور پھران میں تقسیم و فساد کا بیج بویا گیا؛ ثانیاً اس کے ذریعے اپنے لیے وفاداری کے جذبات ابھارنے کا کام لیا \"achebe1\"گیا۔ (آخرالذکر کی اہم مثال اردو میں انجمن پنجاب کے مناظموں میں سامنے آنے والی’ قومی شاعری ‘ہے)۔ تاہم بعد میں یہی تصور قوم استعمار سے آزادی کا بھی موجب     بنا۔ اسی سے ملتی جلتی صورت ہمیں انگریزی کی تعلیم میں بھی نظر آتی ہے۔ انگریزی زبان و ادب کی تعلیم کا آغاز نو آبادیاتی عہد میں پہلی مرتبہ ہندوستان میں شروع ہوا ور بڑی حد تک اسے’ لبرل آئیڈیالوجی ‘ کی حامل بنا کر پیش کیا گیا، نیز ایک ایسا مخلوط دوغلا طبقہ پیدا کرنے کی سعی کی گئی جو سفید اور کالوں کے درمیان ترجمان کا کردار ادا کر سکے۔ یہ طبقہ بلاشبہ وجود میں آیا اور اس کے نمایندے آج بھی موجود ہیں، مگریہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ مقامی انگریزی تعلیم یافتہ لوگ ہی تھے جنھوں نے استعماریت پر تنقید اور اس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ لہٰذا مابعد نو آبادیاتی تھیوری ہمیں ایک بار پھر یہ بات باور کرنے کی پر زور ترغیب دیتی ہے کہ کوئی بھی روایت فطری نہیں ہوتی؛ یہ کسی کو از خود، محض کسی گروہ سے نسلی، لسانی، یہاں تک کہ مذہبی تعلق کی بناپر اسے حاصل نہیں ہوجاتی؛ اسے ایک خاص موقف اختیار کر کے اخذ کیا جاتا ہے۔ یہی دیکھیے:اچیبے کے والد انگریزی تعلیم سے محروم تھے، مگر یورپ و عیسائیت کے کٹر حامی تھے، اچیبے نے اگبو زبان میں کچھ نہیں لکھا، مگر اس زبان اور اس میں موجود اساطیر و روایت کے سب سے اہم علم بردار ہیں۔ ہمارے یہاں سر سید اورحالی انگریزی سے نابلد تھے مگر اس کے شدید حامی تھے اورانھی کے زمانے میں انگریزی تعلیم یافتہ بنگالیوں نے انگریزی اقتدار پر سوال اٹھانا شروع کر دیا تھا جن پر سر سید نے شدید تنقید کی۔ چناں چہ قوم کا تصور ہو، یا انگریزی، ان کے سلسلے میں ایک خاص موقف ہی انھیں نو آبادیاتی قوت کا حلیف یا حریف بناتا ہے۔

اگبو لوگوں کو قوم کے یورپی تصور کے قریب تر قرار دینے کے بعد چنوا اچیبے اپنے لوگوں کے انفرادیت پسند اور اسی بنا پر جمہوریت پسند ہونے کا تصور پیش کرتے \"achebe-chinua\"ہیں۔ ظاہر ہیں، یہ دونوں تصورات بھی یورپی الاصل ہیں۔ تاہم اچیبے ان تصورات کی اصل کے بکھیڑے میں الجھنے کی بجائے یہ ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیں کہ اگبو لوگ خود اپنے سیاق میں ‘جدید‘ ہیں۔ اچیبے، اگبو لوگوں یا افریقی قوم کے انفرادیت پسند ہونے کی گواہی ان کی اساطیر، قصباتی زندگی اور عملی زندگی کی جدوجہد سے لاتے ہیں۔ اگبو لوگ آٹھ سو قصبات میں بکھرے ہوئے تھے۔ ہر قصبہ ایک اپنی انفرادیت بھی رکھتا تھا اور دوسرے قصبات سے کئی باتوں میں مشترک بھی تھا۔ لکھتے ہیں:”اوگڈی کا قصبہ، جہاں میرے والد 1935 میں لوٹے، ان سیکڑوں قصبوں میں سے ایک تھا جو درحقیقت صغیری ریاستیں تھے۔ یہ سب اپنی انفرادی شناخت سے سرشار تھے اور ساتھ ہی خود کو اگبو لوگوں کے عمومی نام سے مشخص کرتے تھے۔ “اپنے نقطہ نظر کے حق میں وہ اگبو اساطیر سے دلیل لاتے ہیں۔ اگبو لوگوں کے عقیدے کے مطابق ان کا سب سے بڑا دیوتا چک وو تھا۔ چک وو نے اوگڈی کے جد امجد ایزی چوامباغا(Ezechuamagha) کوپیدا کیا۔ اسی چک وو نے ذرا فاصلے پر ایک دوسرے قدیمی انسان ایزو ماکا(Ezumaka) کو تخلیق کیا جو اوگڈی کے پڑوسی قصبے نکوہلی کا باپ ہے۔ دونوں قصبوں کے درمیان چک وو نے نکیسی دریا کو \"achebe\"پیدا کیا تاکہ دونوں کے بیچ بہے اور دونوں کے درمیان سرحد کا کام بھی دے۔ اسی طرح اگبو لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ہر شخص کا ایک نجی دیوتا ہے جسے چی کا نام دیا گیا ہے۔ (یہ اساطیری مذہبی تصورات ناول بکھرتی دنیا میں بھی پیش ہوئے ہیں )۔ اس طور چنو اچیبے کے مطابق اگبو تصور کائنات میں ہر اگبو شخص اورہر اگبو قبیلہ انفرادیت بھی رکھتا ہے اور دوسرے اگبو لوگوں اور اگبو قصبات سے منسلک بھی ہے۔ یہ ایک متناقض تصور ہے:اگبویت میں شریک رہتے ہوئے، اپنی انفرادیت کا تحفظ کیوں کر ممکن ہے؟اس تناقض کا جواب وہ ایک اگبو کہانی کے ذریعے دیتے ہیں۔

ایک صبح تمام جانور قصبے کے ڈھنڈورچی کے بلاوے پر جلسے میں شریک ہونے جا رہے تھے جو ایک عوامی جگہ پر منعقد ہونا تھا۔ تمام جانوروں کو حیرت تھی کہ مرغ ان کے ساتھ نہیں تھا۔ جب اس کے پڑوسیوں اور دوستوں نے سبب پوچھا تو مرغ نے ایک ضروری ذاتی کام کا بہانہ بنایا۔ تاہم مرغ نے انھیں کہا کہ وہ جلسے کے شرکا کو اس کی نیک خواہشات پہنچائیں اور یہ پیغام دیں کہ وہ ان کے ہر فیصلے کی بسرو چشم پابندی کرے گا۔ اس اچانک جلسے کے انعقاد کا سبب ایک ناگہانی پریشانی \"600wi\"تھی جو انسانوں کی طرف سے انھیں لاحق ہوئی تھی۔ انسانوں نے جب سے اپنے دیوتاﺅں کوخون کی قربانی پیش کرنا سیکھا تھا، وہ جانوروں کا خون بہانے لگے تھے۔ جانوروں کی اس مجلس میں خاصے غوروفکر اور بحث مباحثے کے بعد یہ قرارداد منظو ر کی گئی کہ قربانی کے ابتدائی جانور کے طور پر مرغ کو پیش کیا جائے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

بر سبیل تذکرہ، ہمیں یہاں دسویں صدی عیسوی کے اخوان الصفا کا بائیس نمبر رسالہ یاد آتا ہے، جس میں جانور جنوں کے بادشاہ بیورا سے انسانوں کے ظلم وتعدی کا استغاثہ پیش کرتے ہیں۔ اگبو کہانی کا مرکزی خیال انسانوں کے خلاف استغاثہ نہیں، انسانوں کی طرف سے لاحق مصیبت پر غورو فکر ہے۔ بہ ہر کیف مندرجہ بالا کہانی میں اچیبے کو انفرادیت واجتماعیت کی بہ یک وقت موجودگی کے تناقض کا جواب نظر آتا ہے۔ عوامی مجلس، ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر ایک جا سکتا اور اپنا اظہار کر سکتا ہے۔ تاہم یہ مجلس ہر ایک کی انفرادیت کے تحفظ کی ضمانت اس وقت دیتی ہے جب وہ وہاں موجود ہو اور اپنا مدعا خود اپنے منھ سے بیان کرے۔ مرغ کے خلاف اس \"breveon3075\"لیے فیصلہ ہوا کہ وہ اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے موجود نہیں تھا، حالاں کہ اسے بھی دعوت دی گئی تھی۔ اسی کہانی سے اچیبے یہ نتیجہ بھی اخذ کرتا ہے کہ اگبو لوگ سنجیدہ جمہوریت پسند ہیں۔ چنوااچیبے کے لیے یہ محض ایک کہانی نہیں، بلکہ اس کے ذریعے ان کی قوم کی ثقافتی روح میں اترے ہوئے ایک بنیادی اصول کا اظہارہوا ہے۔ یہ اصول کہ ایک شخص کو اگر اپنی بقا اور انفرادیت عزیز ہے تو اسے اپنی زبان سے اپنا منشا ظاہر کرنا ہوگا۔ یہ صرف ایک قدیمی اسطورہ کی نئی تعبیر نہیں، نو آبادیاتی جبر سے نجات کا ایک نسخہ کیمیا بھی ہے۔ خود اچیبے نے اسی لیے اپنی قوم کی کہانی خود لکھی ہے۔ اس کہانی کے بعض اور پہلو بھی توجہ طلب ہیں۔ ایک یہ کہ اجتماعیت ہی انفرادیت کا تحفظ کرتی ہے؛ یعنی انفردایت، محض ایک شخص کا اعلان ذات نہیں، اس اعلان ذات کی عام سماجی توثیق کا نام انفرادیت ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک اجتماعی مصیبت سے آزادی کے عام مباحثے میں، اس گروہ کے ایک شخص کی عدم موجودگی اس کی دائمی سزا کا باعث ہو سکتی ہے۔ کسی اور سیاق میں خاموشی عبادت ہوگی، اجتماعی مسائل میں خاموشی نا قابلِ معافی جرم ٹھہرتی ہے۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments