عدالتی قتل اور عدالت میں قتل


اسلام، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، صحابۂ کرام رض، بزرگان دین اور اکابر سے محبت کا ثبوت دینے کے لیے مجھے اندھی نفرت کا سہارا کیوں لینا پڑتا ہے؟ حب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آبیاری کے لیے خون ریزی اور خوں خواری کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ خالص علمی معاملات میں ہم منطق کے بجائے تیغ و تفنگ سے لیس ہو کر زندگی کو حق و باطل کا معرکہ کیوں بنا دیتے ہیں؟ عقیدے و نظریے کے دفاع کے لیے دلیل کی جگہ غلیل کا استعمال کیوں کرتے ہیں؟ اختلافی معاملات میں شائستگی اور مہذب انداز کے بجائے طعن و تشنیع اور سب و شتم کا بیوپار کیوں کیا جاتا ہے؟ رنگ، نسل، مذہب، عقائد، نظریات اور نقطۂ نظر میں اختلاف اللہ تعالٰی کی اسکیم ہے۔ ہم اس بوقلمونی اور رنگا رنگی میں طاقت کے زور پر یک رنگی پیدا کرنے کی سعئی لا حاصل کیوں کرتے ہیں؟

اللہ چاہتا تو کائنات میں تنوع اور رنگا رنگی کی جگہ یک رنگی اور یکسانیت پیدا کر دیتا، مگر آج تقریباً سات ارب آبادی میں سے پانچ ارب کے قریب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نہیں مانتے لیکن اللہ تعالٰی کو یہ اختلاف گوارا ہے۔ پھر ہم کون ہوتے ہیں علمی، مذہبی، مسلکی، سائنسی، فکری اور نظری اختلاف کو بزور شمشیر ختم کر نے والے؟ جس سماج میں مکالمہ مبارزے میں، کلام، قتل عام میں، شائستگی سفاکی میں، دلیل غلیل میں، تہذیب تکذیب میں، علمیت جہالت میں اور علمی محفل آرائی معرکہ آرائی میں ڈھل جائے، وہاں طاہر جیسے مخبو ط الحواس اور فیصل خالد جیسے شقی القلب جنم لیتے ہیں جو لاقانونیت اور سفاکی کو فروغ دیتے ہیں۔

توہین رسالت کے نام پر یہ پہلا قتل نہیں ہوا بلکہ علم الدین سے خالد تک بیسیوں ”مجاہدین“ گزرے ہیں، جنہوں نے بے شمار مسلم اور غیر مسلموں کو ماورائے عدالت تہ تیغ کر کے نیم خواندہ اور نیم وحشی معاشرے سے تحسین و آفرین وصول کی اور ان کے لیے ہیرو کا مقام حاصل کر لیا۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ناموس کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے والے نو خیز ذہن ہمیشہ کسی جذباتی اور شعلہ بیان مولوی کے ورغلانے پر مشتعل ہو کر انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیے گئے۔ عدالت میں ججوں نے جب قاتلوں سے اس بارے میں سوال کیے تو ان کی اکثریت کوئی ٹھوس جواب دینے سے قاصر نظر آئی۔

جج نے مصری صدر انور سادات کے قاتل سے پوچھا: ”تم نے سادات کو کیوں قتل کیا؟“
جواب آیا ”وہ سیکولر تھا۔“
جج نے کہا ”یہ سیکولر کیا ہوتا ہے؟“
قاتل کا جواب تھا ”مجھے نہیں پتا۔“

مشہور مصری ادیب نجیب محفوظ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزم سے سوال ہوا: ”تم نجیب کو کیوں مارنا چاہتے تھے؟“
جواب ملا: ”اس لئے کہ وہ ایک دہشت گرد ہے۔“
پوچھا گیا: ”نجیب دہشت گرد کیسے ہے؟“
جواب دیا: ”اس نے دہشت گردی کو بڑھاوا دیتی کتاب لکھی ہے۔“
اگلا سوال ہوا: ”کیا تم نے وہ کتاب پڑھی ہے؟“
جواب: ”نہیں۔“

مشہور کاتب فرج فودۃ کو مارنے والے تین مجرموں میں سے ایک سے پوچھا گیا: ”فرج کو قتل کرنے کی وجہ؟“
قاتل: ”کیونکہ وہ کافر تھا۔“
سوال کیا گیا: ”تمہیں کیسے پتا چلا کہ وہ کافر تھا؟“
قاتل کا جواب: ”اس کی کتابوں سے پتا چلا۔“
پوچھا گیا: ”تجھے اس کی کون سی کتاب سے پتا چلا کہ وہ کافر تھا؟“
جواب پڑھیے: ”میں نے اس کی کتابیں نہیں پڑھیں۔“
سوال: ”تم نے اس کی کتابیں کیوں نہیں پڑھیں؟“
جواب: ”کیونکہ میں لکھنا پڑھنا نہیں جانتا۔“

اور بصد احترام، راج پال کو قتل کرنے والے علم الدین نے اس کا تحریر کردہ کتابچہ کبھی خود پڑھا ہی نہیں تھا، جس کی بنیاد پر علم الدین نے اسے قتل کیا۔ اب چودہ سالہ خالد ایک مبہم خواب کو بنیاد بنا کر اس نیم پاگل اور نفسیاتی مریض کو عدالت کے اندر گولی مار کر قتل کر دیتا ہے، جو اپنی گستاخی کی وجہ سے دو سال سے قید تھا اور جس پر مقدمہ چل رہا تھا۔

ایسے گستاخوں کی ماورائے عدالت سزا کا عام طور پر یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ آج تک ہماری عدالتوں نے ایسے کسی گستاخ کو سزا نہیں دی۔ ہماری عدالتوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہمارے قاضی ایسے گستاخوں کو یورپ اور امریکا بھیج دیتے ہیں، جبکہ غازی جہنم واصل کر دیتے ہیں۔ یہ جواز نہایت پھسپھسا، بودا اور بھونڈا ہے۔ کیونکہ عدالتیں تو شواہد، گواہوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلے دیتی ہیں۔ ہمارے یہاں، آسیہ مسیح ہو، رمشا مسیح ہو، مشال خان ہو یا سلمان تاثیر، تحقیق و تفتیش اور شواہد سے یہ حقائق سامنے آئے کہ ان لوگوں پر جھوٹے اور ذاتی انتقام کی بنیاد پر اہانت مذہب اور توہین رسالت کے الزامات لگائے گئے تھے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ مکمل تحقیقات کے بغیر اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں نہ کسی کو ہیرو بنائیں اور نہ ولن۔

کسی معاملے میں قانون ہاتھ میں لینا تو کسی صورت قابل برداشت نہیں۔ قرآن اسے فساد فی الارض قرار دیتا ہے اور شریعت میں ایسے فسادیوں کی خوفناک اور ہولناک سزا تجویز کی گئی ہے۔ علامہ طاہر القادری کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پہلا جہاد لاقانونیت کے خلاف تھا۔

دوسری طرف نبی پاک صلعم کی حدیث کی رو سے اسلامی ریاست میں غیر مسلم (معاہد) کے قاتل پر جنت کی خوشبو حرام کی گئی ہے۔

ڈیڑھ دو سال قبل سر راہ میری ملاقات ایک پرانے رفیق کار سے ہوئی۔ وہ صاحب بارہ پندرہ سال قبل میرے ساتھ کالج میں پڑھاتے تھے۔ مگر دو سال بعد انہیں مختلف شکایات کے باعث کالج سے نکال دیا گیا تھا۔ ان کے بارے میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہوتی تھیں، جن پر ہم نے کبھی کان نہیں دھرے۔ لیکن ایک مدت کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو ان کی باتیں سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں اگر ان کی متنازِع اور گستاخانہ باتیں ریکارڈ کر کے وِڈیو وائرل کر دیتا تو چند دن کے اندر کوئی خالد، ان پر اہانت مذہب اور توہین رسالت و ارتداد کا الزام لگا کر انہیں قتل کر دیتا۔

مجھے تو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ایک ابنارمل شخص ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ صاحب شدید قسم کے دماغی اور نفسیاتی عارضے کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے ان کے بیوی بچے بھی انہیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نبوت کے گم راہ کن دعوے کرنے والوں کو ”جہنم واصل“ کرنے کے بجائے کسی ماہر نفسیات دان کو دکھانا چاہیے۔

طاہر خالد سانحے میں حکومت اور علمائے کرام اور بیشتر دانشوروں کی خاموشی یا اگر مگر اور لیکن جیسی تاویلات قتل جیسے گھناؤنے جرم کو سند جواز عطا کرنے کے مترادف ہیں۔ اس واقعے کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ملز م خالد کو چھٹی والے دن جس طرح خصوصی طور پر عدالت میں پیش کیا گیا اس سے فیئر ٹرائل کے حوالے سے بہت سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ اگر جسٹس ڈیلیڈ جسٹس ڈینائڈ ہے تو جسٹس ہریڈ جسٹس بریڈ کے مترادف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments