ھندو کمیونٹی کو تحفظ دو


ظلم معاشرے میں موجود برائیوں کی جڑ ہے، اور ظلم کیا ہے؟ کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا کر رکھنے، نامناسب جگہ پر رکھنے یعنی کسی بھی چیز کا غلط استعمال اور حد سے تجاوز کرنے کو ظلم کہتے ہیں۔ ظلم اس وقت وجود میں آتا ہے جب کوئی فرد یا گروہ اپنے آپ کو زیادہ طاقتور اور قانون سے بالاتر سمجھے اور جبراً اپنا تسلط دوسرے لوگوں یا گروہ پر قائم کرے۔ یہ ایک انسانیت سوز عمل ہے جو عقل سے بھی میل نہیں کھاتا۔ معاشرے میں ظلم مختلف طریقوں سے نمودار ہوتا ہے۔

ظلم کی بدترین صورت یہ ہے کہ انسان اجتماعی یا انفرادی سطح پر کسی اور انسان یا گروہ پر ظلم اور جبر ڈھائے اور ان کی جان مال، عزت آبرو کے درپے ہو جائے اور ظلم کا لبادہ اوڑھے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں دوسرے کمزور انسانوں کو ظلم اور زیادتی کا نشانہ بنائیں ’ان کے حقوق کو سلب کرے اور حتیٰ کہ لوگوں کی جان بھی محفوظ نہ ہو۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ نے سبطین رسول حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو وصیت فرمائی : و قولا بالحق و اعملاً للاجر و کونا للظالم خصما وللمظلوم عونا۔ حق بولو، اجر الہی کی خاطر عمل کرو، ظالم کے دشمن اور مظلوم کے ہمدرد اور مددگار رہو۔ اس لیے ہم پے اس بات کا اطلاق ہوتا ہے کہ ہم ہر حال میں حق کی بات کہیں اور ظلم کے خلاف سیساپلائی دیوار کے طرح کھڑے ہو جائے اور مظلوم کی داد رسی کرے چاہے وہ کسی بھی مذہب، رنگ نسل کا ہو۔ خود رسول اللہ ﷺ نے کا ارشاد گرامی ہے کہ کوئی بھی مظلوم کے خلاف ظالم کی مدد نہ کرے، اور اگر اس نے ایسا کیا تو اسے اس ظالم کا شریک کار سمجھا جائے گا۔

پاکستان میں تقریباً % 5 غیر مسلم آباد ہیں اور ان میں زیادہ تعداد ہندو آبادی کی ہے جو تقریباً % 2 بنتی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تعداد میں صوبہ سندھ میں اور کچھ خاص حد تک صوبہ بلوچستان میں آباد ہے۔ سندھ میں یہ لوگ اپنے علاقوں کے مقامی باشندے ہیں اور زیادہ تر کاروبار اور تجارت سے وابستہ ہیں۔ یہ لوگ پرامن طریقے سے اپنے علاقوں میں رہتے ہیں لیکن کافی وقت سے ان دھرتی دھنیوں یعنی ہندو برادری کے لوگوں پر سے زمین تنگ کی گئی ہے۔

ان کو آسان ہدف اور کمزور سمجھ کر کسی نہ کسی بہانے ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کبھی بھتہ کے لیے دھمکایا جاتا ہے، کبھی تاوان کے لئے اغوا کیا جاتا ہے، کبھی ٹارگٹ کلنگ میں قتل کیا جاتا ہے اور کبھی تشدد کیا جاتا ہے اور کبھی کسی اور طریقے سے۔ اقلیت اور کمزور ہونے کی وجہ سے یہ لوگ خوف کی زندگی بسر کرتے ہے۔ ہندو کمیونٹی کے کافی افراد پہلے ہی انڈیا، یورپی ممالک اور کینیڈا نقل مکانی کر چکے ہے اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔

حال ہی میں 31 جولائی کو خیرپور میں ایک ہولناک اور دردناک واقعہ پیش آیا جب ایک دھرتی دھنی کو بیدردی سے اور بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ خیرپور میں معروف بزنس مین اور چیمبر آف کامرس کے صدر راجیش کرشن چند المعروف راجا کو دن دھاڑے اپنے کھجور کے گودام کے سامنے قتل کیا گیا۔ یہ واقعہ عید کی رات شام کو اس وقت پیش آیا جب راجا اپنے شام کو اپنے گھر واپسی کے لیے تیار تھا اس کے گھر والے اس کے گھر واپسی کے منتظر تھے لیکن راجا اپنے گھر واپس تو لوٹا لیکن اس بار اپنی گاڑی میں نہیں بلک ایمبولینس میں۔

راجا کا قتل جس جگہ پر ہوا اس کے برابر میں ایس پی ہاؤس اور اے سیکشن تھانہ ہے، اس کے سامنے خیرپور رینجرز کا ہیڈکوارٹر ہے، گودام کے پیچھے والے ایریا میں خیرپور سینٹرل جیل ہے اور تھوڑے ہی فاصلہ پر خیرپور ڈی سی ہاؤس ہے۔ راجا کا قتل اس جگہ پر ہونا خیرپور میں سیکورٹی کی ابتر صورتحال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس واقعہ سے کچھ دن پہلے خیرپور اور سکھر کے ایک اور بزنس مین اورہندو برادری سے تعلق رکھنے والے مانک مل پر سکھر میں قاتلانہ حملہ کیا گیا وہ اس وقت شدید زخمی حالت میں اسپتال میں زیر علاج ہے۔

اصولاً ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مانک مل پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جاتا اور اس واردات کے اصل محرکات کو دیکھا جاتا اور ہندو کمیونٹی کے بزنس مینوں کو سکیورٹی دی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور دوبارہ ایک اور بزنس مین راجا کرشن چند جو ایک 34 سال کا نوجوان تھا اسے وحشیانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ یہ سارے واقعات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اندرون سندھ میں امن امان کی صورتحال بہتر نہیں جس کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کافی اضافہ ہورہا ہے۔

درحقیقت ٹارگٹ کلنگ دہشت گردی کا ایک نمونہ ہے اور دہشت گردی کی طرح، ٹارگٹ کلنگ، ہمیشہ مقصد پر مبنی ہوتا ہے اور اس کے پیچھے کچھ اہداف کا حصول ہوتا ہے۔ اور کچھ گروہ اس کو آپریٹ کرتے ہیں اور ان کا مقصد لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا ہوتا ہے کہ کوئی ان کی رٹ کو چیلینج نہ کرسکے۔ راجا کے قتل سے خیرپور کے کاروباری حضرات ہندو برادری کے لوگوں کو کوئی خاص پیغام پہنچانا تھا جو قانون نافذ کرنے والے ادارے بخوبی جانتے ہیں۔

اس قتل سے ہندو برادری کے لوگوں میں خوف کی لہر چھا گئی ہے اور اس کے علاوہ پورا شہر سوگوار ہے۔ اس ساری صورتحال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ کیونکہ اس پہلے جب مانک مل پر حملہ ہوا تو اس کے حملہ آوروں کو اب تک کیوں گرفتار نہیں کیا گیا، اور اس کے علاوہ راجا کے قاتل کون ہیں اور ابھی تک کیوں گرفتار نہیں ہوئے۔ اور یہ قتل ایسی جگی پر ہونا جس کے ہر طرف میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ڈسکٹرکٹ مینجمینٹ کے آفسز ہوں ہمارے سکیورٹی سسٹم پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

اس طرح کے واقعات ہندو کمیونٹی کے ساتھ بلوچستان میں بھی لاحق ہے۔ دوہفتہ پہلے بلوچستان کے ضلع خضدار میں ایک ہندو تاجر نانک رام کو قتل کیا گیا جس کو بھتے کے لیے دھمکیاں ملتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی تاوان کی غرض سے اغوا کرنے کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔

کاروباری حضرات پر اس وقت حملے جب پاکستان کی معیشت زبوں حالت میں ہے اور ہم دنیا کو سرمایہ کاری کے لیے منتیں کر رہے ہیں درحقیقت پاکستان کی معیشت پر حملہ ہے۔ ہم نے ماضی قریب میں دیکھا ہے کہ کراچی میں امن امان کی صورتحال کی وجہ سے لوکل انڈسٹری کافی تعداد میں بنگلادیش اور سری لنکا منتقل ہوچکی ہے۔ اور اگر ان لوگوں اندرون سندھ میں بھی امن اور تحفظ فراہم نہیں کیا گیا جس میں ابھی تک حکومت خصوصاً سندھ حکومت ناکام رہی ہے تو یہ لوگ بھی اپنا کاروبار کسی اور جگ منتقل کریں گے اور ملک میں اور بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوگا۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ مافیا اور اغوا برائے تاوان کی روک تھام کے لئے حکومت کی بے حسی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے اندرون سندھ میں مستقبل میں کاروبار کی بقا پر خطرات منڈلا رہے ہے۔

آخر میں سندھ کے عظیم شاعر شیخ ایاز کا پیغام ان قاتلوں کے لیے جو نہتے بے گناہ لوگوں کا ناحق قتل کرتے ہیں۔ ۔ ۔

! او حیوان
! او حیوان
! ڪنھن کی ٿو مارین
، ہن جو تو سان ویر بہ ڪھڙو
، ہن جو دیس بہ ساڳی ڌرتی
، ہی بہ تہ ماڻھو آ تو جھڙو
! او نادان
! او نادان
! ڪنھن کی ٿو مارین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments