بے خواب آنکھوں، خاموش ہونٹوں اور ساکت دلوں سے مکالمہ


کیا نام ہو گا اس کا؟ بشیر؟ ناصر؟ احمد یا کامران؟

‎کس پیشے سے تعلق رکھتا ہو گا؟ درزی؟ چھابڑی فروش؟ گداگر؟ موچی؟ کسان؟ یا نشہ گزیدہ آوارہ گرد؟

‎ہم زندگی کی جس بھی سیڑھی پہ کامرانی کے جھنڈے گاڑیں، اس میں ہماری دن رات کی ریاضت کے ساتھ ساتھ کسی اور کی بے لوث قربانیوں کا لہو بھی شامل ہوتا ہے۔

‎نہ جانے یہ خیال در دل سے اس وقت ہی کیوں ٹکراتا ہے جب اپریشن تھیٹر میں تیز روشنی کے نیچے کھڑے ہو کے منہ پہ نقاب پہنے، آنکھوں کی پتلیوں کو ساکت کیے ہاتھ میں تیز دھار نشتر تھامے ہم کسی کے بدن کو چیر دیتے ہیں۔

‎خون کا فوارہ بلند ہوتا ہے اور پھر پرت سے پرت علیحدہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ جیتے جاگتے انسان کے جسم سے کھیلنے کی یہ بے خوفی، نڈر پن اوراعتماد ایک آدھ دن کی بات نہیں، ربع صدی کا قصہ ہے۔ اور اس کی نیو اس دن رکھی گئی تھی جب ہم میڈیکل کالج میں داخل ہوئے۔

‎کالج میں دوسرا تیسرا دن تھا کہ ہدایت ملی اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بلاوا ہے اور ایک ہال میں اکھٹے ہونا ہے۔ داخل ہونے سے پہلے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کیا منظر سامنے ہو گا۔

‎قد آدم کھڑکیوں سے سنہری دھوپ چھن چھن کے ایک وسیع وعریض ہال میں پھیلتی تھی اور کچھ سنولائے ہوئے چہروں پہ اجالا بکھیرتی تھی۔ ہال میں موت سی خاموشی پھیل رہی تھی۔ کچھ ملازم بے تاثر چہروں سے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ ہال میں بیس میزیں بچھی تھیں اور وہ وہاں تھے، ان میزوں پہ دراز، بے چینی سے منتظر!

‎ان سب چلبلی، نوجوان، قہقہے لگاتی، اونچی آواز میں باتیں کرتی، اپنے آپ پہ نازاں لڑکیوں کے چہروں سے زندگی کے ایک نئے سفر کے آغاز کی مسرت چھلکتی تھی اور مقابلے میں جیت کے میڈیکل کالج میں داخل ہونے کا غرور

‎سب کے چہروں سے عیاں تھا!

‎وہ ساکت و جامد تھے، اپنی خاموشی میں

‎گم، بچھڑ جانے والوں کا غم، گمنامی کی اداسی اور بے نام رہنے کی تلخی چہرے سے جھلکتی تھی۔ وہ یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئے تھے۔ اپنے پیاروں کے طویل انتظار کے بعد مایوسی زاد راہ بنی تھی اور مندی ہوئی آنکھوں میں امید کی جوت بجھ گئی تھی۔ انہوں نے قسمت کے پھیر کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ نہ دو گز زمین نصیب میں تھی اور نہ ہی کسی درد ناک تحریر کے ساتھ فلاں ابن فلاں والا کتبہ مقدر میں تھا۔

‎ان کا انجام تو ان چلبلی، شوخ، بے نیاز اور انجان لڑکیوں کے ہاتھ میں دیا جا چکا تھا۔ خاموش لب اور بے نور آنکھیں اور ساکت چہرے ہماری راہ تکتے تھے۔

‎لیکچرر کی آواز ہال میں گونج رہی تھی، ”ہر مردہ بنیادی طور پہ چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، سر اور گردن، بازو اور ہاتھ، چھاتی اور پیٹ، ٹانگ اور پاؤں۔ ہر حصہ چار لوگوں کو الاٹ کیا جائے گا۔ آپ نے ہر حصے کو تفصیلا چھیلنا ہے، پرت در پرت۔ ہر طالبہ کے پاس اپنے اوزار ہونے چاہیں، جن میں تیز چاقو، قینچی اور پکڑنے والے فورسیپس شامل ہیں۔

‎چھیلنے کا آغاز جلد اتارنے سے ہو گا۔ جلد اتارنے کے بعد چربی اتاری جائے گی، اس کے نیچے جو وریدیں، شریانیں اور مسلز ہوں گے، ان سب کو آہستہ آہستہ کاٹا جائے گا۔ وریدیں شریانیں اور اعصاب کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کہاں ختم، دیکھا جائے گا۔ ہر مسل، ہر شریان اور ورید کا ایک نام ہے وہ نام کتاب سے ساتھ ساتھ پڑھ کے یاد کرنا ہے۔

‎جب مسلز اور باقی سب کچھ کٹ جائے گا تو ہڈیاں نکل آئیں گی۔ تب مختلف جوڑوں کو کاٹا جائے گا یہ جاننے کے لئے کہ کون سی ہڈی کس سے مل کے جوڑ بناتی ہے۔

‎جوڑوں کے کٹنے کے بعد نکل آنے والی ہڈیاں آپ لوگوں کے پڑھنے کے کام آئیں گی۔ جو لوگ چھاتی، پیٹ اور کھوپڑی کاٹیں گے، وہ اندرونی اعضا کو قسطوں میں باہر نکالیں گے اور سب اعضا کیسے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں وہ ملاحظہ کریں گے۔

‎ آج ڈائسیکشن کے بعد ہم آپ کو پرانے مردوں سے نکالی جانے والی ہڈیاں الاٹ کریں گے۔ وہ آپ گھر لے جا کے پڑھ سکیں گی۔ سیشن ختم ہونے کے بعد وہ ہڈیاں آپ کو واپس کرنی ہوں گی“

‎زرد رنگت، باہر کو ابلتی پھٹی پھٹی آنکھیں، کانپتے ہونٹ، لرزتے ہوئے ہاتھ پاؤں، تیز سانسیں، بے ترتیب ہوتی دل کی دھڑکن، ہوائیاں اڑتے چہرے!

‎کیا یہ وہی شوخ چلبلی لڑکیاں تھیں جو کچھ دیر پہلے ڈائسیکشن ہال میں داخل ہوئی تھیں۔

‎بیس میزیں اور ان پہ لیٹی ہوئی بیس لاشیں! سوکھے ہوئے استخوانی جسم، ہڈیوں پہ منڈھی ہوئی جلد، سیاہی مائل رنگت، زمانے کے جبر و استبداد پہ نوحہ کناں اور ہم ان کے سرہانے کھڑے ہاتھ میں چاقو تھامے، سوچوں کے ہجوم میں گھرے، اس لاش کے انجام پہ دل گرفتہ اپنے آپ کو تسلی دیتے کہ یہ سب ہمارے نصاب کا حصہ ہے۔

‎ہمیں اور ہماری دوست فرزانہ کو پہلی لاش میں بازو اور ہاتھ الاٹ ہوا۔

‎ہر مردے کا ایک نمبر تھا اور ہر دفعہ ہم نے اپنے ”مردے“ کو وہیں سے کاٹنا اور چھیلنا شروع کرنا تھا جہاں سے سلسلہ پچھلے دنوں میں منقطع ہوا ہوتا۔

‎ہم نے اپنے حصے میں آنے والے مردے کو بغور دیکھا، چالیس پینتالیس کا سن، سر اور داڑھی کے چھدرے بال، کہیں سیاہی، کہیں سفیدی، کمزور فاقہ زدہ جسم، مدقوق چہرہ اور لب ایک دوسرے میں پیوست۔

‎ہم نے سرہانے کھڑے ہو کے سرگوشی کی،

‎کیا نام ہو گا تمہارا؟ بشیر؟ رضوان؟  ‎یاسر؟مختار یا احمد؟

‎کیا کام کرتے ہو گے تم؟مزدور؟ ڈرائیور؟ ریڑھی بان؟ گداگر؟ نشئی؟ یا کسی دفتر میں کلرک؟

‎کیسا گھر ہو گا تمہارا؟ کسی کوٹھی کا سرونٹ کواٹر؟ کسی کچی بستی میں ٹپکتی چھت والی جھگی؟ کسی محلے میں چھوٹا سا مکان؟ یا کسی پل کے نیچے بچھی ہوئی چٹائی؟

‎خاندان میں کون کون ہوگا؟ آنگن میں کھیلتے بچے؟ دروازے پہ کھڑی منتظر غم گسار رفیق حیات؟ بچپن کے ساتھی بہن بھائی؟ شام کو ڈھابے پہ بیٹھ کے چائے کی چسکیاں لیتے اور ہنس ہنس کے پاگل ہوتے دوست؟

‎مہربان چھتر چھایا سے ماں باپ؟ نہ معلوم ہوں گے یا شاید پہلے سے چل بسے ہوں۔

‎تمہاری موت کیسے واقع ہوئی ہو گی؟ سڑک پار کرتے ہوئے گاڑی سے ٹکرا کے، ویگن میں بیٹھے ہوئے ایکسڈینٹ، کسی گلی میں ننگا بجلی کا کرنٹ، نشہ آور دواؤں کی زیادہ ڈوز، بارش میں کڑکتی بجلی، یا پھر زندگی کی مایوسیوں سے تھک ہار کے خود کشی؟

‎تم کسی ہسپتال میں لائے گئے ہو گے۔ بے یار و مددگار، بے کسی اور بیچارگی تمہارے چہرے پہ لکھی ہو گی، تمہاری سانسیں ڈوبتی ہوں گی۔

‎منتظر آنکھیں دروازے کی طرف دیکھتی ہوں گی کہ شاید کوئی آخری لمحات میں ہاتھ تھامنے کے لئے آن پہنچے۔ بے ترتیب دھڑکنوں میں بھلا تم کیا سوچتے ہو گے؟

‎یہ کیسا انت ہوا اس بے رحم دنیا میں، اپنے پیاروں کو ملے بنا، دیکھے بنا رخصت ہو رہا ہوں۔ نہ جانے وہ کیسے جئیں گے؟ اماں کی دوا لانی تھی آج اور گھر میں آٹا بھی تو ختم تھا۔ اور وہ پپو کی گیند اور رانی کی گڑیا، رات ہی تو وعدہ کیا تھا ان سے۔ اوہ خدایا کیسے جئیں گے وہ لوگ؟

‎نہ جانے جان بھی پائیں گے کہ نہیں کہ میں یونہی کسی سڑک پہ چلتے چلتے چل بسا۔ شناختی کارڈ تو ہے نہیں میری جیب میں۔ اور وہ نسرین، مجھے نہ پا کے کیسے جلے پاؤں کی بلی کی طرح گھومے گی۔ کیسے ڈھونڈ پائے گی مجھے؟

‎یہی سوچتے سوچتے تم نے آخری ہچکی لی ہو گی اور نرس نے تمہارا چہرہ ڈھک دیا ہو گا۔

‎اس دن شام کو نسرین بار بار دروازے پہ جاتی ہوگی اور دل ہی دل میں فکر مند ہوتے ہوئے کہتی ہو گی، پہلے تو لوٹنے میں کبھی اتنی دیر نہیں کی۔

‎ تمہاری ماں نسرین کو اپنے بستر سے آواز لگاتی ہو گی، کیا آیا نہیں ابھی تک؟ پپو اور رانی نسرین کا پلو کھینچتے ہوں گے، اماں ابا کب آئے گا؟ ہماری گیند اور گڑیا لائے گا نا۔

‎شام سے رات ہو گئی ہو گی۔ گھر میں شام غریباں سا سناٹا ہو گا۔ اماں کی آہیں اور نسرین کی دبی دبی سسکیاں سن کے آسمان کے تارے بھی بدلیوں میں چھپ جاتے ہوں گے۔ اگلی صبح جیسی تاریک صبح کوئی نہیں ہو گی۔ تمہیں کہاں جا کے ڈھونڈوں؟ نسرین سوچتی ہو گی۔

‎ہسپتال کے مردہ خانے کے فریزر میں تمہاری یخ بستہ لاش دن گنتی ہو گی کہ شاید کبھی کسی دن کوئی تمہارا نام پتہ پا لے۔ اخبارات میں گمنام لاش کا ٹھپہ، تمہارے نام اور شناخت سے بدل جائے۔ لیکن غریبوں کی بستیوں میں زندگی گزارنے والے اخبار کہاں پڑھا کرتے ہیں۔

‎کچھ بھی تو نہ ہو سکا!

‎نہ تمہاری شناخت ہو سکی، نہ نسرین تمہیں ڈھونڈ سکی، نہ اماں کی بوڑھی منتظر آنکھوں کا کرب ختم ہو سکا، نہ پپو اور گڑیا کے آنسو تھم سکے۔

‎نہ تمہیں دو گز زمین مل سکی، نہ اجلا کفن نصیب ہو سکا، نہ ہی تم پھولوں کے ہار پہنے لوگوں کے کندھوں پہ سوار اپنی ابدی آرام گاہ کی طرف جا سکے۔

‎اے گمنام آدمی، یہ سب تو نہ ہو سکا مگر وہ ہو گیا جو تم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔ تم ہسپتال کے فریزر میں کچھ ماہ رہنے کے بعد میڈیکل کالج کے فریزر تک آن پہنچے۔ تمہیں دوائیوں کا غسل دیا گیا کہ اعضا گلنے سڑنے سے محفوظ رہیں۔ اور اب تم برہنہ حالت میں ایک میز پہ دراز ہو جہاں مستقبل کی ڈاکٹر تمہارا جسم انچ انچ کھول کے دیکھیں گی۔

‎تمہارے ساتھ روزانہ دو گھنٹے گزاریں گی۔ تمہیں آہستہ آہستہ چھیلیں گی، ابتدا میں ابکائیاں لیں گی۔ تمہاری بے بسی پہ ترس کھاتے ہوئے آنکھ میں آنسو بھریں گی، دل بھاری ہو گا، بھوک پیاس اڑ جائے گی، ہنستے لب خاموش ہو جائیں گے۔

‎ لیکن کچھ ہی دنوں میں تم ایک مانوس اجنبی کا روپ دھار لو گے۔ ایک ایسا کردار بن جاؤ گے جو اس مشق ستم کے لئے در دل وا کیے بیٹھا ہے۔ پھر یہ معمول ہو جائے گا کہ یہ لڑکیاں تمہارے جسم کو ریزہ ریزہ تو کریں گی لیکن ساتھ ساتھ میں باتیں بھی کریں گی، ہنسیں گی اور مستقبل کے منصوبے بنائیں گی۔

‎ انارکلی اور لبرٹی سے شاپنگ، ریگل کے دہی بھلے، چمن کی آئس کریم کھانے کے پروگرام سوچیں گی۔ اور کبھی کبھی لیکچرر کی نظر بچا کے اپنے چائے کا مگ چھپا کے ہال کے اندر لا کے مزے سے چسکیاں بھریں گی۔

‎تم اپنی بے نور آنکھوں سے یہ سب دیکھتے دیکھتے ایک مردے کی بھیانک اور کریہہ حقیقت سے ایک چیز میں بدل جاؤ گے، ایک روزمرہ کی چیز۔ تمہارے جسم سے جو کچھ بھی اترے گا وہ میز کے نیچے رکھی بالٹی میں ڈال دیا جائے گا۔ اور بعد میں ہر میز کی بالٹی کے سامان کا منتظر ایک گڑھا ہو گا جو کالج کے وسیع وعریض گراؤنڈ میں کہیں کھودا جائے گا۔

‎سو دیکھا تم نے، تم کہیں نہیں ہو گے لیکن تم ہر جگہ ہو گے، جگہ جگہ کھدے مقامات کی مٹی میں مٹی بنتے ہوئے۔ تمہاری کھوپڑی اور تمہارے جسم کی ہڈیاں نہ جانے کتنے ہاتھوں میں رہیں گی، تم نہ جانے کس کس گھر میں جاؤ گے۔

‎اور شاید کسی گھر میں رانی کسی مستقبل کی ڈاکٹر کے کمرے کی جھاڑ پونچھ کرتے ہوئے تمہاری کھوپڑی دیکھ کے سوچے، یہ چھوٹی بی بی بھی نہ جانے کیا کچھ لے آتی ہیں کالج سے۔ لیکن مجھے اس کھوپڑی سے خوف کیوں نہیں آتا؟

‎میرا جی کیوں چاہتا ہے کہ میں اس کھوپڑی کو ایک بوسہ دے دوں اور اسے ہاتھ میں تھام کے ایک دفعہ گلے سے لگا کے اتنا روؤں کہ میرے آنسو اس خشک بھربھری ہوتی کھوپڑی کو بھگو دیں۔

‎میں گھر جا کے اماں کو بتاؤں گی کہ مجھے ہڈیوں سے خوشبو آتی ہے۔ اماں جو آج بھی ابا کی راہ تکتی ہے اور ہر آہٹ پہ چونک چونک جاتی ہے۔ نہ جانے کتنے برس ہو گئے لیکن ابھی بھی راتوں میں ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھتی ہے۔ دادی تو کب کی گزر چکی، مرتے دم اس کی آنکھیں بھی دروازے سے ہی لگی تھیں۔

‎نہ جانے ابا کہاں گیا؟

‎صاحب، ہم نے ان مردہ لاشوں کے ساتھ دو سال بتائے۔ جب بھی ایک مردہ ریزہ ریزہ ہو کے ختم ہو جاتا، ایک نئی مردہ لاش ہمیں الاٹ کر دی جاتی۔ جس کا جسم ابھی سوکھ کے لکڑی نہ بنا ہوتا، جس کے ہونٹوں کے گوشوں پہ ہلکی سی مسکان نظر آتی۔ ہم ہر نئی لاش پہ اپنا دل مسوستے لیکن پھر کچھ ہی دنوں میں نئی لاش پرانی ہو کے قصہ پارینہ بن جاتی اور ہم آگے بڑھ جاتے۔

‎زندگی کی سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے جب ہم اس مقام پہ آن پہنچے ہیں کہ نشتر ہاتھ میں تھامے، زندہ انسانی جسم کی بال برابر پرت کو نفاست سے کاٹ کے علیحدہ کر سکتے ہیں اور جوڑ کے سی بھی سکتے ہیں۔

‎تو وہ تمام چہرے در دل پہ دستک دیتے ہیں جن کے جسموں پہ بنا کسی خوف و خدشے کے ہم نے نشتر چلایا اور انسانی جسم کے وہ رموز سمجھے جو ہم تصویروں سے کبھی نہ جان پاتے۔

‎سو اے بشیر، یا بدر، یا خاور، یا احسان! تم گمنامی میں تاریک راہوں پہ اجل کے

‎ساتھ ہو لئے لیکن ہم جیسوں کی زندگی میں اجالا کر گئے۔

‎ہمارے ہاتھوں ریزہ ریزہ ہو کے بکھر جانے پہ تمہیں ہمارا سل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments