کشمیری کب مسکرائیں گے؟ کب ہنسیں گے؟


ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر کے حوالے سے ہندوستانی وعدوں کی یقین دہانی کے لیے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو 1947۔ 48 ء کے دوران مختلف ٹیلی گرام ارسال کیں جن کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں۔ آئیے پہلے نہرو بنام لیاقت علی خان کی ان ٹیلی گراموں کو پڑھ لیتے ہیں پھر ان سے چند سوالات اخذ کریں گے۔ (الف) بجانب وزیراعظم پاکستان ازطرف وزیراعظم انڈیا، مورخہ 27 اکتوبر 1947 ء ”میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس ہنگامی صورتحال میں کشمیر کی مدد کرنے کا مدعا کسی طرح بھی یہ نہیں ہے کہ ریاست کے ہندوستان میں شامل ہونے کے معاملے پر اثر ڈالا جائے۔

ہمارا نظریہ اس معاملے میں یہ ہے جسے ہم باربار علانیہ طور پر دہرا چکے ہیں کہ کسی بھی متنازع فیہ علاقے یا ریاست کی شمولیت کا فیصلہ عوام کی رائے پر موقوف ہونا چاہیے اور ہم اس نظریے پر قائم ہیں“ ۔ (ب) وزیراعظم انڈیا کی طرف سے وزیراعظم پاکستان کے نام، مورخہ 31 اکتوبر 1947 ء ”ہماری یہ یقین دہانی کہ جونہی امن و امان بحال ہوگیا ہم کشمیر سے اپنی فوجیں ہٹالیں گے اور ریاست کے مستقبل کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں گے، ایک ایسا وعدہ ہے جو ہم نے نہ صرف آپ کی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ کشمیر کے عوام اور دنیا بھر کے ساتھ کیا ہے“ ۔

(ج) جواہر لال نہرو کی طرف سے لیاقت علی خان کے نام، مورخہ 4 نومبر 1947 ء ”میں آپ کی توجہ کشمیر پر اپنی نشری تقریر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں جو میں نے کل شام کی ہے۔ میں نے اپنی حکومت کی پالیسی کو بیان کیا اور یہ واضح کر دیا کہ ہم کشمیر پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرنا چاہتے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ ہم اس بات کا اقرار کرچکے ہیں کہ کوئی غیرجانبدار فریق مثلاً اقوام متحدہ رائے شماری کی نگرانی کرے“ ۔ (د) جواہر لال نہرو کی طرف سے نوابزادہ لیاقت علی خان کے نام، مورخہ 4 اکتوبر 1948 ء ”ہم اپنے اس موقف سے کبھی منحرف نہیں ہوئے کہ جموں و کشمیر میں حالات جونہی اعتدال پہ آئیں، آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری ہونی چاہیے“ ۔

(ر) جواہر لال نہرو کی طرف سے نوابزادہ لیاقت علی خان کے نام، مورخہ 4 اکتوبر 1948 ء ”میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ میں اس خواہش میں آپ کا شریک ہوں کہ کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کا معاملہ عوام کی مرضی ہی پر موقوف ہونا چاہیے۔ نیز یہ کہ میں اس مسئلے کا امن پسندانہ اور آبرومندانہ حل تلاش کرنے میں ہمیشہ تعاون کے لیے تیار رہوں گا“ ۔ ہندوستانی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی زبانی وعدہ خلافیوں اور اوپر دی گئی سرکاری تحریری یقین دہانیوں سے مکر جانے والے رویئے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے پہلے فوجی سربراہ صدر محمد ایوب خان نے کہا تھا کہ ”مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پنڈت نہرو کے ساتھ میری ملاقاتیں بڑی مایوس کن ثابت ہوئیں۔

ان کے انداز میں ایک بے پروائی تھی۔ غالباً اس کلیے کی بنا پر کہ قبضہ سچا اور دعویٰ جھوٹا، خواہ قبضہ اخلاقی اور قانونی اعتبارسے کتنا ہی غلط سہی۔ میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ایک ملک کا سربراہ اتنی بے باکی کے ساتھ معاہدات کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔ میں صرف ان کی ذاتی یقین دہانیوں کا ذکر نہیں کر رہا ہوں جو انہوں نے براہ راست یا دوسرے ذرائع سے کیں بلکہ ان باضابطہ عہدوپیمان کاجو انہوں نے جموں و کشمیر کی بابت رسمی طور پر پوری سنجیدگی کے ساتھ حکومت پاکستان کے ساتھ کیے“ ۔

پنڈت جواہر لال نہرو کی مندرجہ بالا یقین دہانیوں اور صدر محمد ایوب خان کے تبصرے کو پڑھنے کے بعد یہ سوچ ذہن میں آتی ہے کہ وزیراعظم نہرو سے لے کر وزیراعظم مودی تک ہندوستان کے ہر وزیراعظم نے کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ شروع سے لے کر وزیراعظم عمران خان تک پاکستان کاہر سربراہ کشمیر پر ہندوستانی قبضے کو ناجائز سمجھتا ہے۔ پاکستان 1947 ء سے لے کر آج تک اقوام متحدہ سمیت تمام سفارتی میدانوں میں کشمیر پر ہندوستانی قبضے کی آواز اٹھاتا آیا ہے لیکن گزشتہ 73 برسوں میں ہندوستان کو کشمیر ایشو پر بظاہر انٹرنیشنلی کسی دیرپا سفارتی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

کشمیر کے مسئلے کا حل اگر جنگ نہیں ہے تو کیا اسے سفارتی و سیاسی طریقے سے حل کیا جاسکتا ہے؟ گزشتہ 73 برسوں میں جنگ، سفارتی اور سیاسی سب ہتھکنڈے استعمال ہوچکے ہیں لیکن کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ گزشتہ 73 برسوں میں ہندوستان کشمیر پر قبضے کے دعوے سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کی بجائے 5 اگست 2019 ء کو جارحیت کرکے مزید آگے بڑھ گیا اور اس نے مقبوضہ کشمیر کو یونین آف انڈیا کا باقاعدہ حصہ بنانے کا اعلان کر دیا۔

اس ہندوستانی اعلان کا ایک برس مکمل ہونے کے بعد اور 73 برسوں کی ہندوستان پاکستان کشمیر ہسٹری پڑھنے کے بعد یہ سوال ابھرتے ہیں کہ پاکستانی سربراہان کشمیر کے حوالے سے ہندوستانی سربراہان پر اعتماد کیوں کرتے ہیں؟ کیا پاکستان کبھی ہندوستان کو کشمیر ایشو پر کسی فیصلہ کن سفارتی یا سیاسی دباؤ میں لاسکے گا؟ کیا کشمیر کے فیصلہ کن غیرجنگی حل میں کوئی طاقتور ملک اپنا کردار ادا کرے گا؟ اور اگر ایسا ہوا تو کیا وہ کردار پاکستان کے حق میں ہوگا؟ کیا مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کسی پرانے فارمولے پر عمل ممکن ہوگا یا کوئی نیا فارمولہ حتمی ثابت ہوگا؟ لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ یہ سب کب ہوگا؟ کشمیری کب سکون کا سانس لیں گے؟ کب مسکرائیں گے؟ کب ہنسیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments